
ایم کیو ایم میں دراڑیں،پی ایس پی گروپ خالد مقبول کی مخالفت میں کھل کر سامنے آگیا
شیئر کریں
٭بہادر آباد پر حملہ آور ہونے والے کارکنان پی ایس پی سے آئے ہوئے تھے جو نئی تنظیم سازی میں پی ایس پی سے آنے والے رہنما مصطفی کمال اور انیس خائم خانی کو مائنس کیے جانے پر احتجاج کر رہے تھے
٭مصطفی کمال نئی تنظیمی بندوبست سے مطمئن نہیں، گو گورنر گو اور گو ٹیسوری گو کے نعرے اس لیے لگائے گئے کہ پارٹی کا تمام تر کنٹرول خالد مقبول صدیقی اور گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے عملی طور پر قابو کر رکھا ہے
مصنوعی تنفس سے برقرار رکھنے کی بالائی کوششوں کے باوجود ایم کیو ایم پاکستان میں ایک بار پھر دراڑ واضح ہوگئی۔ ایم کیو ایم بہادر آباد اور پی ایس پی میں جبری اتحاد پیدا کرنے کی کوشش ایک بار پھر ناکامی کا منہ دیکھ رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق پی ایس پی سے آنے والے رہنمااور کارکنان ایم کیو ایم پاکستان بہادر آباد کے سربراہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی مخالفت میں کھل کر سامنے آگئے۔ ہفتے کے روز بہادر آباد پر حملہ آور ہونے والے کارکنان پی ایس پی سے آئے ہوئے تھے جو نئی تنظیم سازی میں پی ایس پی سے آنے والے رہنمامصطفی کمال اور انیس خائم خانی کو مائنس کیے جانے پر احتجاج کر رہے تھے۔ گو گورنر گو اور گو ٹیسوری گو کے نعرے بھی اسی لیے لگائے گئے کہ پارٹی کا تمام تر کنٹرول خالد مقبول صدیقی اور گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے عملی طور پر قابو کر رکھا ہے اور ڈاکٹر فاروق ستار ہر فیصلے میں ان کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ ہفتے کے روز ہونے والے احتجاج میں ایک جانب پی ایس پی سے آنے والے کارکنان گورنر سندھ کے خلاف نعرے لگا رہے تھے تو دوسری طرف خواتین کارکنان خالد مقبول کی حمایت میں پلے کارڈ لئے ہوئے کھڑی تھی جبکہ ہفتے کے روز ہونے والا احتجاج دراصل اس تنظیمی فیصلے کے خلاف تھا جس میں مصطفی کمال اور انیس خائم خانی کو اہم ذمہ داریوں میں شامل نہیں کیا گیا تھا اور سندھ کے پارلیمانی امور کا نگران گورنر سندھ کو بنا دیا گیا جبکہ وفاق میں سینٹ و قومی اسمبلی کے معاملات ڈاکٹر خالد مقبول کے ذمے لگائے گئے جو مصطفی کمال کو کسی صورت منظور نہیں تھے جس کے نتیجے میں پی ایس پی سے آنے والے کارکنوں نے اپنے رہنماؤں کو مائنس کیے جانے اور گورنر سندھ و خالد مقبول صدیقی کو ذمہ داریاں سونپنے پر احتجاج کیا۔ واضح رہے کہ حالیہ تنظیمی عہدوں پر گھوم پھر کر ایم کیو ایم پاکستان کے صرف دس رہنما ہی قابض ہو گئے ہیں، جو گزشتہ کئی برسوں سے ان مناصب کو سنبھالے ہوئے ہیں۔