میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
چیف جسٹس  کے ریمارکس کا معاملہ ایوان میں اُٹھ گیا

چیف جسٹس کے ریمارکس کا معاملہ ایوان میں اُٹھ گیا

جرات ڈیسک
جمعه, ۱۰ فروری ۲۰۲۳

شیئر کریں

پاکستان مسلم لیگ (ن ) کے سینیٹر عرفان صدیقی اور سینیٹر سعدیہ عباسی نے چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے دیے گئے ریمارکس کا معاملہ ایوان میں اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمنٹ عوام کی نمائندہ ہے نہ کہ عدلیہ اور افواج پاکستان۔ ہم نے اس وقت بھی عدلیہ کا احترام کیا جب عدلیہ نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی اور چار چار مارشل لاؤں کو توسیع دی، آج بھی قومی اسمبلی میں اکثریت قائم ہے، سینیٹ بھی مکمل طور پر کام کر رہا ہے، پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قوانین کو بھی عدالتوں میں چیلنج کیا جا رہا ہے، گزشتہ دوتین دنوں سے سپریم کورٹ سے جو بیان آیا ہے وہ جمہوریت پر شب خون مارنے کے مترادف ہے جبکہ اپوزیشن اراکین ایک بار پھر حکومت پر برس پڑے اور کہا ہے کہ نو اپریل کو خرید و فروخت کے ذریعے قائم ہونے والی حکومت برہنہ ہو گئی ہے، نااہل لوگوں سے چھٹکارے کے لیے صاف و شفاف الیکشن ضروری ہے، ملک میں جمہوریت کو بچانے اور عدلیہ کی آزادی، قانون کی حکمرانی کیلئے آئین پر عمل کرنا ہو گا، چاہے بارش ہو دھوپ ہو یا جنگ الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ جمعہ کو سینٹ کا اجلاس چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیرصدارت منعقد ہوا۔ اجلاس کے دور ان اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر سعدیہ عباسی نے کہا کہ گزشتہ دوتین دنوں سے سپریم کورٹ سے جو بیان آیا ہے وہ جمہوریت پر شب خون مارنے کے مترادف ہے۔ سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ آئین کے تحت ہر ادارے کی حدود واضح ہے، آئین کا نچوڑ آئین کے ابتدائیہ میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقتدار اعلیٰ اللہ تعالی کو حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین میں بنیادی حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے۔ شبلی فراز نے کہا کہ آج کل بنیادی حقوق سلب کیے گئے ہیں،آزادی اطہار رائے پر قدغن لگائی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ نو اپریل کو خرید و فروخت کے ذریعے قائم ہونیوالی حکومت برہنہ ہو گئی ہے۔ انہوں کہا کہ صرف حکومت ہی نہیں بلکہ پورا نظام برہنہ ہو گیا۔ انہوں نے کہا کہ ایک شخص کی انا نے ایک جمہوری حکومت کو ڈی ریل کیا۔ سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ عمران خان پاپولر لیڈر ہیں،25مئی کو عوام بغیر کسی کی کال پر خود سڑکوں پر نکل آئے ۔ انہوں نے کہا کہ نااہل لوگوں سے چھٹکارے کیلئے صاف و شفاف الیکشن ضروری ہے۔ سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ ایک سال سے لٹکائے ہمارے استعفے اپنے سیاسی مفاد کے تحت منظور کیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک میں جمہوریت کو بچانے اور عدلیہ کی آزادی، قانون کی حکمرانی کے لیے آئین پر عمل کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ رجیم چینج کے اہم کردار کو پنجاب کا نگراں وزیراعلیٰ بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کٹھ پتلی چاہے گورنر پنجاب ہو یا گورنر خیبر پختونخوا دونوں آئین کی اپنے طور پر تشریح کر رہے ہیں، جو افسران الیکشن کمیشن جا کر اپنی معذوری ظاہر کررہے ہیں وہ آئین کی خلاف ورزی کررہے ہیں،آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ الیکشن نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے کہا کہ چاہے بارش ہو دھوپ ہویا جنگ الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہاکہ عرفان صدیقی سپریم کورٹ کے ریمارکس کو پارلیمنٹ کی حرمت پر حملہ قرار دے رہے ہیں،عرفان صدیقی صاحب! آپ عمر کے ایک اہم حصے میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کی حرمت کی باتیں کرتے ہوئے شرم آنی چاہیے جب آپ نے نیب قوانین ختم کر دیے۔ انہوں نے کہا کہ آپ کے پاس الیکشن کرانے کیلئے پیسے نہیں مگر کابینہ کی فوج بھرتی کرنے کیلئے پیسے موجود ہیں،اس وقت ملک میں سول ڈکٹیٹرشپ موجود ہے۔ عرفا ن صدیقی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ شبلی فراز نے مجھے شرم وحیا دلائی، مجھے یاد ہے کہ ان کے دور میں انسانی حقوق کی کتنی پاسداری ہوتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ کس طرح افیون و چرس کے مقدمات قائم کیے جاتے تھے۔ انہوں نے کہاکہ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کچھ ایسے بیانات دیے جس کا کیس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس نے عمران خان کو واحد صادق و امین قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ کا احترام لازم ہے میں بھی عدلیہ کے احترام کا قائل ہوں۔ عرفان صدیقی نے کہا کہ ہم نے اس وقت بھی عدلیہ کا احترام کیا جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی۔ انہوں نے کہاکہ اس وقت بھی عدلیہ کا احترام کیا جب عدلیہ نے چارچار مارشل لاؤں کو توسیع دی۔ عرفان صدیقی نے کہا کہ ہم نے اس وقت بھی عدلیہ کا احترام کیا جب ایک باوردی شخص کو صدر مملکت کے عہدے کے لیے الیکشن لڑنے کی اجازت دی۔ عرفان صدیقی نے کہا کہ آئین میں ریاست کے تینوں ستونوں کے اختیارات کا آئین میں واضح تعین ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح ملک میں تجاوزات ہو رہی ہے اس طرح اختیارات کی تقسیم میں بھی توسیع ہو رہی ہے۔ عرفان صدیقی نے کہا کہ ہر تجاوز کا رخ پارلیمنٹ کی جانب ہے، اس ریمارکس کو میری گزارش پر سینیٹ کی قانون و انصاف کی کمیٹی کو بھجوا دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کی جانب سے یہ کہنا کہ پارلیمنٹ نامکمل ہے انتہائی نامناسب ہے۔ عرفان صدیقی نے کہا کہ آج بھی قومی اسمبلی میں اکثریت قائم ہے، سینیٹ بھی مکمل طور پر کام کر رہا ہے، پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قوانین کو بھی عدالتوں میں چیلنج کیا جا رہا ہے۔ اپوزیشن لیڈر شہزاد وسیم نے کہا کہ دو الفاظ کا چرچہ ہے ایک عزت اور دوسرا توہین، عزت کرانا اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب اورخیبر پختونخوا میں نوے روز میں الیکشن کرانا لازمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ ہاؤس میں جوکچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آجکل رائے دینے پر بھی مقدمات بنائے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی تنقید کرے تو اس کو اصلاح کے ذمرے میں لیں، توہین کے ذمرے میں مت لیں۔ انہوں نے کہاکہ عزت کیلئے درخواست کرانے ضرورت نہیں ہوتی ،عزت رویوں سے ملتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین پر عمل نہ کیا گیا تو ملک خانہ جنگی کی جانب جا سکتا ہے۔ شہزاد وسیم نے کہا کہ پوری کوشش ہو رہی ہے کہ پی ٹی آئی کے بحال ہوئے ممبران حلف نہ لے سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ممبران نے قومی اسمبلی آنے کا ارادہ کیا تو آناً فاناً ایوان کا اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دیا۔ شہزاد وسیم نے کہا کہ ہیلتھ کارڈز کے پروگرام کو بھی ختم کیا جا رہا ہے، اس کی وجہ ہے کہ ان کی ہمدردیاں الیکشن میں عمران خان کی طرف نہ جائیں۔ سینیٹر یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد غیر آئینی نہیں اس تحریک سے متعلق سابق اسپیکر اورسابق ڈپٹی اسپیکر کے اقدامات غیر آئینی تھے۔ انہوں نے کہا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی اسمبلی تحلیل کی ایڈوائس غیر آئینی تھی، صدر کا سابق وزیراعظم عمران کی ایڈوائس پر عمل کرنا غیر آئینی تھا۔ سینیٹر آصف کرمانی نے کہا کہ افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ دس دنوں سے پیٹرول کی مصنوعی قلت پیدا کی جا رہی ہے، ییٹرول مافیا کے سامنے حکومت بے بس ہوگئی ہے، مجھے خود پیٹرول کے لیے تین تین پمپس پر جانا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ حکومتی رٹ بالکل نہیں ہے، حکومت سے مٹھی بھر پٹرولیم مافیا کنٹرول نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ ان مافیاز کو پکڑ کر مچھ جیل بھیج دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیشہ بوجھ مڈل کلاس پر ڈالاجارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہت قربانیاں دیں مڈل کلاس نے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم صاحب کی قائم کردہ کمیٹی نے اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں کمی کی سفارش کی ہے، بے شک کم کرے مگر خدا کے واسطے ہماری تنخواہوں کو پبلک کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ افسران کی تنخواہوں کو بھی پبلک کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں تو لاکھوں میں پنشن لینے والے لوگ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایف نائن پاک میں ایک بچی کے ساتھ زیادتی ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ پولیس ابھی تک ملزمان کو پکڑنے میں ناکام ہے، معاملے کو داخلہ کمیٹی میں بھیج کر آئی جی اسلام آباد کوبلایا جائے۔ سینیٹر منظور احمد کاکڑ نے کہا کہ 75 سالوں میں سیاست دانوں، بیورو کریسی اور ججز نے بائیس کروڑ عوام کیلئے کیا کیا؟ سینیٹر طاہر بزنجو نے کہا کہ حکومت نے گریڈ سترہ سے اوپر کے افسران کے اثاثے ڈکلیئر کرنے کا فیصلہ کیا، مگر ججز اور جرنیلوں کو استثنیٰ دیا گیا، کیا ججز اور جرنیل اس زمین کی مخلوق نہیں۔ بعد ازاں سینیٹ کا اجلاس پیر سہ پہر چار بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں