سیاسی دھڑن تختہ
شیئر کریں
پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات کے تناظرمیں تین خبریں مستقبل کا تعین کریں گی ایک خبر یہ ہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے حوالے سے چیف الیکشن کمشنر کو خط میں کہا ہے کہ وہ الیکشن ایکٹ 2017 کے مطابق صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ کا فوری اعلان کرے تا کہ پنجاب اور کے پی کے صوبائی انتخابات کے ساتھ ساتھ مستقبل کے عام انتخابات کے حوالے سے خطرناک قیاس آرائیوں پر مبنی پروپیگنڈے کو ختم کرنے کے لئے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کے لیے انتخابی شیڈول جاری کرنا ضروری ہے‘ملک میں ایسے حالات نہیں ہیں جو انتخابات میں تاخیر یا التوا کا کوئی جواز فراہم کرتے ہوں‘حالیہ عالمی تاریخ ثابت کرتی ہے کہ آئینی طور پر طے شدہ انتخابات کے التوا نے جمہوریت کو طویل مدتی نقصان پہنچایا ہے انہوں نے چیف الیکشن کمشنر کو پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا حوالہ دیا اور کہا کہ آئین کے آرٹیکل 224(2) میں اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 دنوں میں انتخابات کے انعقاد پر ضروری ہے الیکشن کمیشن انتخابات کے حوالے سے اپنے فرائض ادا کرنے میں ناکام رہا تو آئین کی خلاف ورزی کا ذمہ دار اور جوابدہ سمجھا جائے گا۔صدرعارف علوی نے تو اپنی ذمہ داری پوری کردی لیکن آنے والے دنوں میؒ کیا ہونے جارہاہے اس کا اندازہ عوامی مسلم لیگ کے گرفتار سربراہ، سابق وزیرِ داخلہ شیخ رشید نے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو عدالت سے جوپیغام بھیجا ہے اس میں انہوں نے ایک زبردست انکشاف کرتے ہوئے کہاہے کہ مقتدرقوتیںپیٹریاٹ کے نام سے نئی پارٹی بنانے جا رہی ہیں، یہ لوگ چاہتے ہیں میں پیٹریاٹ پارٹی کی سربراہی کروں لیکن میں ساری زندگی جیل میں گزار سکتا ہوں مگر بے وفائی نہیں کر سکتا۔ شیخ رشید نے یہ بھی کہا ہے کہ میں خان صاحب کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ یہ صوبائی الیکشن نہیں کرانے جا رہے یہ قومی اور صوبائی الیکشن اکٹھے کرائیں گے ۔
للتا ہے شیخ رشید کی باتوں میں کچھ کچھ سچائی ہے شاید اسی لیے پنجاب ، خیبر پختونخواہ اسمبلیوں کے عام انتخابات اور قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات کے لیے وزارت دفاع، وزارت خزانہ اور عدلیہ نے معاونت سے معذرت کر لی ہے وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ فوج اندرونی سیکورٹی میں مصروف ہے، الیکشن اہلکار نہیں دے سکتے، وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ معاشی بحران اور خسارے کا سامنا ہے، اضافی ضمنی گرانٹ کا مطالبہ موخر کیا جائے جبکہ لاہور ہائیکورٹ کے رجسٹرار نے الیکشن کمیشن کو خط میں بتایا کہ پنجاب میں سوا 13 لاکھ سے زائد کیسز زیرالتوا ہیں، عدالتی افسران کی فراہمی سیمقدمات کا التوا مزید بڑھ جائیگا۔ تفصیلات کے مطابق پنجاب ، خیبر پختونخواہ اسمبلیوں کے عام انتخابات اور قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات کے لیے وزارت دفاع، وزارت خزانہ اور عدلیہ نے سیکورٹی ،اخراجات کے لیے پیسے اور انتخابی عمل میں عدالتی افسروں کی تقرری سے معذرت کر لی ہے۔ وزارت دفاع نے تو آگاہ کردیا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرات اور لا ء اینڈ آرڈر کے سنگین مسائل کے پیش نظر انتخابات میں فوج، رینجرز کو پولنگ اسٹیشنوں پر تعینات نہیں کیا جا سکتا تاہم حساس علاقوں میں کوئیک رسپانس فورس موجود رہے گی ، وزارت خزانہ نے پیشکش کی ہے کہ دونوں صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات اور قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات کے لیے 12 ارب روپے دیئے جا سکتے ہیں جبکہ الیکشن کمیشن کو 60 ارب روپے سے زیادہ انتخابی اخراجات کی ضرورت ہے اس کا مطلب ہے کہ وسائل کے بغیر دونوں صوبوں میں فوری عام انتخابات نہیں کروائے جاسکتے لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار نے تحریری طور پر الیکشن کمیشن کو بتادیاہے کہ چیف جسٹس کی ہدایت پر وہ لیٹر تحریر کر رہے ہیں عدالتی افسروں کو انتخابات میں تعینات نہیں کیا جا سکتا ، چیف الیکشن کمشنر نے پنجاب اور خیبر پختونخوا ہ کے عام انتخابات اور قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسروں اور ریٹرننگ افسروں کی عدلیہ سے تقرری کے لیے رابطہ کیے تھے اب تک ہونے والے عام انتخابات عدالتی افسروں کی نگرانی میں ہوتے رہے ہیں اور انہیں اس مقصد کے لیے خصوصی طور پر ٹریننگ بھی دی گئی ہے۔ صرف راجن پور کے حلقے میں فورسز کی خدمات دی جا سکیں گی اسی لیے خیبر پختونخوا، پنجاب اسمبلی اور قومی اسمبلی کی 93 نشستوں پر ضمنی الیکشن کے لیے وزارت دفاع نے رینجرز اور ایف سی کی اسٹیٹک تعیناتی سے معذرت کر لی۔وزارت دفاع نے کہا کہ ضمنی اور خیبر پختونخوا، پنجاب اسمبلیوں کے الیکشن کے لیے آرمڈ فورسز کی تعیناتی قابل عمل نہیں۔رینجرز اور ایف سی کی پولنگ اسٹیشنز کے باہر تعیناتی پر وزارت دفاع نے سیکرٹری داخلہ کو خط میں کہا کہ مسلح افواج اور سول آرمڈ فورسز بارڈر منیجمنٹ اور اندرونی سیکورٹی مینجمنٹ میں مصروف ہیں۔
ملک میں دہشت گردی کے خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مسلح افواج 27 فروری سے 3 اپریل تک مردم شماری کے عمل میں مصروف ہوں گی ایک طرف وزرات خزانہ نے الیکشن کمیشن سے انتخابات کیلئے اضافی گرانٹ کا مطالبہ موخر کرنے کی درخواست کی ہے دوسری طرف وزارت خزانہ نے کہا کہ ملک کی معاشی صورت حال خراب ہے اس لئے الیکشن کمیشن سے درخواست ہے وسیع تر قومی مفاد میں اضافی ضمنی گرانٹ کا مطالبہ موخر کرے جبکہ الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کی 93 نشتوں پر ضمنی الیکشن کیلئے 20 ارب روپے ضمنی گرانٹ اور آئندہ انتخابات کے لیے 14 ارب روپے سے زائد کی اضافی گرانٹ کء درخواست کی تھی۔ خیپر پختونخوا، پنجاب اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کی 93 نشتوں پر ضمنی الیکشن کیلئے 20 ارب روپے ضمنی گرانٹ اور ائندہ انتخانات کے لیے 14 ارب روپے سے زائد کی اضافی گرانٹ کے حوالے سے وزارت خزانہ نے الیکشن کمیشن کو جوابی خط میں کہا کہ ملک کی معاشی صورتحال خراب ہے حالات بہتر ہونے تک اضافی ضمنی گرانٹ کے مطالبے کو موخر کیا جائے۔ الیکشن کمیشن نے الیکشن اخراجات کیلئے 60ارب روپے سے زائد کی درخواست کی تھی۔ وزارت خزانہ کی درخواست پر الیکشن کمیشن نے یہ مطالبہ 47 ارب روپے تک کم کیا۔ اب ای سی پی الیکشن انعقادکے لیے 61 ارب روپے سے زاہد مانگ چکا ہے۔ الیکشن کمیشن اخراجات اور فارن ایکسچینج کی ضروریات کی تفصیلات فراہم کرے چونکہ حکومت غیر معمولی معاشی بحران اور مالی خسارے کا شکار ہے ایسی صورت حال میں حکومت کو سیلاب متاثرہ علاقوں کیلئے فنڈز فراہم کرنے ہیں اور مردم شماری کرانی ہے۔ اس صورت حال میں غیر طے شدہ اور بغیر بجٹ اخراجات سے اضافی معاشی بوجھ پڑے گا۔ ملک اس وقت ائی ایم ایف کے پروگرام کے تحت ہے۔ اس پروگرام کے بہت سخت ا ہداف ہیں۔ ان حالات میں سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ ملک بھرمیں یا پنجاب اور خیبرپی کے میں عام انتخابات کا فوری انعقادنہیں ہوسکتاہے معیشت کی بگڑتی ہوئی صورت ِ حال،مہنگائی ،بیروزگاری اور افراط ِزر کے سبب شہبازشریف کی حکومت اوران کے اتحادی اس لیے بھی الیکشن کروانے کے حق میں نہیں ہیں کہ ان کے مدِ مقابل عمران خان کی مقبولیت کاطوطی بول رہاہے تو وفاقی حکومت کیوں اپنے پائوں پر کلہاڑی دے مارے کیونکہ13جماعتیں مل کربھی عمران خان کا مقابلہ نہیں کرسکیں گی اب یا تو الیکشن کچھ دیرکے لیے ملتوی کردئیے جائیں جس کے لیے حکومت کی مدت میں اضافہ کرنے کی تجویزبھی زیر ِ غور ہے بہرحال عمران خان کے لئے مشکلات بڑھنے کے قوی امکانات ہیں لیکن13جماعتوں PDM کے اتحادپر مبنی موجود ہ حکومت عام انتخابات میں جتنی دیرکرے کی ان کی سیاست کا دھڑن تختہ ہو جائے گا یہ بات جتنی جلدی ان کی سمجھ میں آجائے ان کے سیاسی مفاد میں بہترہے ورنہ عمران خان ’’ہوجا‘‘پھیر دے گا لیکن یہ افواہیں بھی تو گردش کررہی ہیں کہ PTI ٹوٹ سکتی ہے یاپھر اس کے بطن سے پیٹریات بھی جنم لے سکتی ہے،عمران خان کو نااہل بھی کیا جاسکتاہے یاان سے پیچھا چھڑانے کے لیے کوئی انتہائی قدم بھی اٹھایا جاسکتاہے ایسا کچھ بھی ہوا تو یہ حالات کی ستم ظریفی ہوگی کہ ایک اور مقبول سیاستدان المناک انجام سے دورچار ہوجائے اللہ کرے ایسا نہ ہو کیونکہ اب پاکستان کسی المیہ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔