میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سندھ کے بلدیاتی ادارے 13 سال سے فنانس کمیشن فنڈز سے محروم

سندھ کے بلدیاتی ادارے 13 سال سے فنانس کمیشن فنڈز سے محروم

ویب ڈیسک
بدھ, ۱۰ فروری ۲۰۲۱

شیئر کریں

(رپورٹ:اسلم شاہ) پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت بلدیاتی اداروں کے مالیاتی ایوارڈپی ایف سی کی مد میں ادائیگی کرنے کو تیار نہیں، آکٹرائے، ضلعی ٹیکس کے خاتمہ اور سلیز ٹیکس سے آمدن میں کراچی کو مالیاتی ایوارڈ میں ہر چار سال اضافہ کرنے کی سفارش کی گئی تھی، لیکن سندھ میں بلدیاتی اداروں کو13سال سے صوبائی فنانس کمیشن (پی ایف سی) کے فنڈز سے محروم کردیا گیا ہے، جبکہ حکومت سندھ بظاہر اس سلسلے میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہی ہے اور کراچی سیمت بلدیاتی اداروں کو پی ایف سی کا جائز حصہ دینے کے بجائے بلدیاتی اداروں کی کمزور مالیاتی حالت پر امداد کے نام پر اضافی رقم دی جارہی ہے۔ کراچی میں آکٹرائے و ضلعی ٹیکس میں کٹوتی کرکے ماہانہ 23کروڑ روپے فنڈز جاری کررہے ہیں اور اب وزیر اعلیٰ سندھ کی ہدایت پر ماہانہ امدادی رقم 60کروڑ روپے تک کردی گئی ہے۔ سالانہ ڈیڑھ ارب روپے شارٹ فال ہے، 1998میں جب آکٹرا ئے بند کیا گیا تو ساڑھے پانچ ارب روپے سالانہ آمدن تھی، اب بھی کے ایم سی کی سالانہ آمدن ساڑھے پانچ ارب روپے ہے، جبکہ چھ ارب روپے امداد کے نام پر سندھ حکومت کی جانب سے دیا جارہا ہے۔ مالیاتی امور کے ماہر کا کہنا تھا کہ اگر پی ایف سی ایورڈ کا سلسلہ جاری کیا جاتا تو اب 22/24ارب روپے کے ایم سی کو آکٹرائے کی مد میں فنڈز ملتے، لیکن سندھ حکومت منصفانہ فنذ ز کی تقسیم کرنے پر تیار نہیں، رواں مالی سال میں بلدیاتی اداروں کے بجٹ میں 78ارب روپے مختص کیے گئے، جس میں 60فیصد رقم کراچی کے بلدیاتی اداروں کا حصہ ہے۔ واضح رہے کہ متاثرہ بلدیاتی اداروں میں میٹرو پولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی)، 28 ضلعی میونسپل کارپوریشنز، 108 تحصیل کونسلیں، اور سندھ میں 1128 یونین کونسلیں شامل ہیں۔مقامی حکومت اب فعال ہے، لیکن صوبائی حکومت پچھلے 13 سال سے پی ایف سی کا بلدیاتی اداروں کو حصہ دینے کی آئینی ذمہ داری کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔سندھ کے ایک فنانس افسر کا کہنا تھا کہ پی ایف سی کا حصہ میں قانونی سے زیادہ سیاسی مسئلہ ہے جس کو پارٹی سے سطع پر حل کیاجاسکتا ہے۔وزیر اعلیٰ سندھ، مراد علی 2014 میں کمیشن کے چیئرمین تھے اور فی الحال وہ وزیر خزانہ کا قلمدان بھی سنبھال رہے ہیں۔ ایڈیشنل چیف سیکریٹری پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ سندھ محمد وسیم پی ایف سی کمیٹی کی سربراہی کر رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کا دعویٰ ہے کہ اس نے قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) شیئر بانٹنے کا اپنا وعدہ پورا کیا ہے، لیکن وہ اسے میٹروپولیٹن شہر، اضلاع، تحصیلوں اور یونین کونسل کی سطح پر جائز حصہ دینے یابانٹنے میں ناکام رہی ہے۔ واضح رہے کہ پی ایف سی کے تحت 60 فیصد فنڈز مختص صوبائی انتظامیہ اور 40 فیصد سندھ کے 29 اضلاع کیلئے ہیں۔ پی ایف سی کو 2005 میں لگاتار تین سالوں سے نوازا گیا تھا۔ پہلا پی ایف سی ایوارڈ 30 اگست 2006 کوجاری کیا گیا تھا۔ صوبے کا صوبائی تقسیم پول (پی ڈی پی) وفاقی منتقلی اور صوبائی ٹیکس وصولیوں پر مشتمل ہے، پی ڈی پی سے صوبے کے ترجیحی اخراجات کو مختص کرنے کے بعد، باقی رقم خالص صوبائی تقسیم پول کی حیثیت سے دی گئی ہے۔ صوبائی برقرار رقم اور صوبائی مختص رقم میں بالترتیب 45 فیصد اور 55 فیصد کے تناسب کے ساتھ تقسیم کیا گیا۔ تنخواہوں کے تحفظ کے بعد ضلعی حکومتوں میں مختص رقم کی تقسیم کا فارمولا آبادی پر طے کیا گیا تھا۔ 40 فیصد خدمت کیلئے ہے، بنیادی ڈھانچے کیلئے35 فیصد، ترقی کیلئے 10 فیصد، غیر ترقی یافتہ ایریا کو 5 فیصد، اور کارکردگی پر 10 فیصد کی ضرورت ہے۔ ایس ایل جی او ایکٹ 2013 میں کہا گیا ہے کہ مقامی حکومت کے سیکریٹری، منصوبہ بندی و ترقیات کے سیکریٹری، کے ایم سی کے میئر، ضلعی کونسلوں کے چیئرپرسن اور نجی شعبے سے تعلق رکھنے والے دو پیشہ ور افراد کو نامزد کیا جائے گا۔پی ایف سی کیلئے سیکریٹریٹ کا قیام،اور 2018ء میں بھی ایک کمیٹی کا قیام عمل لایا گیا تھا


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں