میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ہمارے ریان میاں کا اسکول

ہمارے ریان میاں کا اسکول

ویب ڈیسک
جمعه, ۱۰ فروری ۲۰۱۷

شیئر کریں

امریکااور جنت میں ایک بات بہت مشترک ہے۔وہاں جانا تو سب چاہتے ہیں مگر جانے کے لیے مرنا کوئی نہیں چاہتا۔چند دن قبل جب بدکار مسلمان حکمرانوں کے قبلہ سوئم یعنی امریکی کانگریس کی عمارت کیپٹل ہل کے لان پر مسلمانوں نے باجماعت نماز ادا کی تو عالم اسلام اللہ اکبر کے نعرہ¿ مستانہ سے گونج اٹھا۔اس طرح کے مظاہروں میں جو خالصتاً دنیاوی مقاصد کے لیے ہوتے ہیں۔قوم حجاز قبلہ رو ہو کے زمین بوس ہونے میں ایک منٹ کے لیے بھی نہیں چُوکتی، ان اجتماعات میں کیسا وضو اور کون سا مسلک ، کون امام اور کیا طہارت،اس کی کوئی قید نہیں۔
کراچی میں ایک ایس ڈی ایم صاحب ہوتے تھے۔ڈسکے کے عیسائی۔وہ صدر ضیا الحق کے دور ے میں باقاعدہ جماعت سے نماز پڑھا کرتے تھے۔ایک دفعہ اسٹیٹ گیسٹ ہاﺅس کے امام صاحب کو سمجھا بیٹھے کہ صدر صاحب جب تشریف لائیں گے تو پہلے عصر کی نماز پڑھیں گے۔انہیں علم ہی نہ تھا کہ صدر صاحب نہ تو کوئی دشمن کو چھوڑتے تھے نہ باجماعت نماز کو۔ان کے علاقے میں واقع اسٹیٹ گیسٹ ہاﺅس آنے سے پہلے ہی صدر محترم ائیر پورٹ پر ہی عصر کی نماز باجماعت ادا کر چکے ہیں۔مولوی پر ایس ڈی ایم اور صدر کا ایسا خوف طاری تھا کہ اذان کے ساتھ ہی جماعت شروع ہوئی تو بے چارے مغرب کی تین رکعت کی بجائے عصر کی نیت سے چار رکعت پڑھا بیٹھے۔صدر صاحب حیران و پریشان۔بہت غدر مچا ۔ایس ڈی ایم بھی اس دن خود بھی صف اول کے نمازی بنے ہوئے تھے۔تحقیقات ہونے پر وہ لترول ہوئی کہ الامان الحفیظ ۔تاحکم ثانی معطلی کا فوری حکم صادر کردیا گیا۔
صدر کا طیارہ بقول غلام اسحق خان فضا میں” فٹ گیا“ تو ان کی جان بخشی ہوئی۔بیگم کی تگ و دو سے بحال ہوئے کل جب امریکا میں سپر بول (فٹ بال کا قومی سیزن۔وہ دنیا بھر میں کھیلی جانے والی فٹ بال کا soccer سوکر کہتے ہیں ۔ اپنی اولاد کے پیچھے فنا اُن ماﺅں کو جو اپنے بچوں کو بلی کی طرح ہمارے چند ممبران قومی اسمبلی کی مانند جو وزیر بننے کی خواہش اور وزیر بن کر غلامی کا طوق سجائے انصاف کے چوراہے پر بدمزہ و رسوا ہورہے ہوتے ہیں۔ان خواتین کو soccer mom کہا جاتا ہے) کا افتتاحی میلہ شروع ہوا تو قومی ترانہ گانے کا حسین فریضہ آنٹی گاگا کو سونپا گیا۔
کیا عرب اور کیسے کیسے مرگ بر امریکا قسم کے ایرانی سب ہی نے ٹیلی ویژن پر لیڈی گاگا پر نظریں گاڑ کرامریکا کا قومی ترانہ God bless America اس کے سروں میں سُر ملاکے ہم زبان ہوکر ویسے ہی گایا جیسے وہ امریکا اور یورپ میں پسندیدہ رہائشی رعایتوں کے مطالبات کے حق میں با جماعت نمازکی ادائی کرتے ہیں۔
ریان میاں کے چرچ کے زیر انتظام چھوٹے بچوں کے ایک اسکول یعنی مدرسہ حضرت جان میں ایک بچے کی میز پر کم بخت کھٹمل عین اس دن دکھائی دیا جس دن اوباما نے منہ بنا کر صدارت چھوڑی۔ ان کی بیگم میلنا نے بیگم اوباما کو تحفہ دیا اور ہمارے جگر جان ٹرمپ نے صدارت کا حلف اٹھایا۔ٹیچر کلاس میں نہ تھی۔کلاس میں موجود پانچ سے چھ سال کی عمر کے یہ سب بچے میز کے گرد جمع ہوگئے۔سب کی کوشش تھی کہ کھٹمل کہیں بھاگ نہ جائے۔اس کے اردگرد ریان میاں کی تجویز پر ٹشو پیپر کا حصار کھڑا کردیا۔ایک بچی بھاگ کر ٹیچر کو یہ کہہ کر بلالائی کہ I think some alien bug has attacked our school.(میرا خیال ہے کسی خلائی کیڑے نے ہمارے اسکول پر حملہ کردیا ہے)۔ یہ جان کر آپ کو بڑی شدید حیرت ہوگی کہ نیشنل جیوگرافک میگزین کے سروے کے مطابق ستر فیصد امریکیوں کا خیال ہے کہ Aliens یعنی خلائی مخلوق کرہ ارض کا دورہ کرتی رہتی ہے۔
ٹیچر نے فوری طور پر قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی بجائے اور کھٹمل سے براہ راست معاملات طے کرنے کی بجائے ہمارے مشیر خارجہ کی طرح ہیڈ مسٹریس کے دفتر کا رخ کیا۔ تب تک دوسری جماعت کے بچے بھی کھٹمل والی میز کے گرد جمع ہوگئے۔ بصد احتیاط ایک ٹیچر نے اپنی بھنویں درست کرنے والاTweezer (چھوٹا سا چمٹا) قربان کیا۔ اپنے نرم کومل ہاتھوں سے اس کوپکڑ کر شیشے کے ایک مرتبان میں مقید کیا گیا۔کوشش یہی تھی کہ پکڑ دھکڑ میںکھٹمل جان سے ہی نہ ہاتھ دھوبیٹھے۔بچوں کو اس کا اچھی طرح سے مشاہدہ کرایا گیا۔پھوپھی گوگل سے معلومات اکٹھی کرکے بچوں کو کھٹملوںسے لگنے والی بیماریوں اور ان کے خون چوسنے کی مہلک جبلت کے بارے میں بتایا۔والدین کو فون کیا گیا کہ وہ آن کر بچوں کا سامان لے جائیں۔اس میں ان کے بستے تکیے اور چادر یں شامل تھیں۔ تکیے چادریں اس لیے کہ بچوں کے لیے لنچ کے بعد آدھ گھنٹے کا قیلولہ لازم ہوتا ہے۔
اگلے دن چونکہ شدید برف باری کی پیش گوئی تھی اور اس کے بعد ویک اینڈ تھا، لہذا ایک چھٹی کا اضافہ کرکے والدین کو بتایاگیا کہ اسکول میں Fumigation ہوگی ۔ وہ بچوں کا سامان چیک کریں، چادر تکیے فوراً بدل دیں۔
ریان میاں کا کام اس حوالے سے بڑھ گیا تھا۔ اس اسکول میں چار بچوں کے ایک گروپ کو ایک جاب ہفتے بھر کے لیے دی جاتی ہے۔یہ جاب پورے سیمسٹر بدلتی رہتی ہے۔ریان میاں اور دو بچیاں اس ہفتے استانی جی کی نائب مقرر ہوئے تھے لہٰذا وہ ذرا زیادہ ہی پریشان تھے۔گھر آئے تو مزاج بھی برہم تھا ۔ماں نے انہیں سونے سے پہلے دودھ پینے اور برش کرنے کی ہدایت کی تو کہنے لگے کہ وہ بہت تھک گئے ہیں۔ماں نے پوچھا کہ وہ کیوں تو کہنے لگے You don’t know I have to do millions jobs at school. It is not easy to safely pack 35 kids back home. (تم کیا جانو کہ مجھے اسکول میں لاکھوں کام کرنے پڑتے ہیں۔ 35 بچوں کو بحفاظت اسکول سے گھر بھیجنا کوئی آسان کام نہیں )۔
ہم نے ریان میاں سے پوچھا کہ وہ اور ان کے ہم جماعت جو جاب اسکول میں سرانجام دیتے ہیں وہ کیا ہوتی ہے، تو وہ بتانے لگے کہ کبھی وہ مالی ،کبھی لنچ اسسٹنٹ، کبھی استانی جی کے نائب ، کبھی اسکول گارڈ،کبھی لائن کیپر ، لائبریری میں اسسٹنٹ تو کبھی گاربیج کلینر (خاکروب )،کبھی اسپورٹس اسسٹنٹ ہوتے ہیں۔جاپان کے اسکولوں میں صفائی کے لیے بیرونی ملازم نہیں ہوتے ۔یہ کام بچوں کو خود ہی کرنا پڑتا ہے۔ریان میاں سے اگلا سوال ذرا پیچیدہ تھا کہ کیا انہیں اسکول کی جانب سے ان خدمات کا معاوضہ ملتا ہے؟ تو کہنے لگے اسکول ہمیں لنچ انہیں خدمات کے عوض فراہم کرتا ہے۔ہماری ٹیچر کہتی ہے کہ امریکا میں فری لنچ کسی کو نہیں ملتا ۔کام کرو، روزی کماﺅ،کھانا کھاﺅ!!
ہم ابھی مدرسئہ حضرت جان نیویارک میں کھٹمل کی برآمدگی اور فلسفہ¿ فری لنچ پر غور کرہی رہے تھے کہ ٹی وی پر خبر آئی کے کراچی میں یونی ورسٹی کی دو طالبات اور جامعہ سندھ کے ایک طالب علم کو حصول علم کے جرم میں بسوںنے کچل دیا ہے۔ تمام امریکا میں پیلی اسکول بس ایک ہی نمونے کی ہوتی ہے ۔اس کے آغاز سفر سے اختتام سفر تک اسکول پر والدین کی باری باری ڈیوٹی ہوتی ہے کہ وہ بچوں کو بحفاظت اترنے میں اور سوار ہونے میں مدد کریں اور تین اقسام کی گاڑیوں کا احترام ایسا ہے کہ انہیں صدر کا پروٹوکول بھی نظر انداز نہیں کرسکتا۔ یہ تین اقسام کی گاڑیاں ہیں ایمبولنس، فائر بریگیڈ کی گاڑی اور اسکول بس۔کوئی انہیں بائی پاس کرنے کا مجاز نہیں۔
کیفی اعظمی نے نہرو کی موت پر جو شہرہ ¿آفاق نظم لکھی تھی جسے گلوکار محمد رفیع نے گایا بھی تھا اس کا ایک مصرعہ بہت ہی اعلیٰ تھا اور پنڈت جواہر لال نہرو کی بچوں سے بے پایاں محبت کا ثبوت کہ ع
نونہال آتے ہیں ارتھی کو کنارے کرلو
یاد رکھیے آپ اپنے بچوں سے پیار نہیں کریں گے تو وہ بڑے ہوکر آپ کا احترام نہیں کریں گے۔بچوں سے پیار کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ہم ان کے لیے موجودہ وسائل میں چوریاں نہ کریں۔ ملک چلانے کے لیے وہی سوچ اور وہی لگاﺅ بھرا انداز اپنا نا پڑتا ہے جو اپنا گھر چلانے کے لیے لازم ہوتا ہے۔صرف بے اثر مناجاتوں اور ارواح ژولیدہ (درہم برہم ) کی خالی عبادات سے قومیں نمبر ون نہیں بنتی ہیں۔
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں