میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پروفیسر اسٹیوارٹ اور ہماری عدالتیں ہمارا مان

پروفیسر اسٹیوارٹ اور ہماری عدالتیں ہمارا مان

ویب ڈیسک
جمعه, ۱۰ جنوری ۲۰۲۵

شیئر کریں

میری بات/روہیل اکبر
ہماری عدالتیں ہمارا مان ہیں جو اپنے کام کے ساتھ ساتھ حکومت اور اداروں کا کام بھی کررہی ہیں ۔خاص کر عوامی فلاحی کاموں میں عدالتی احکامات کے مثبت اثرات بھی آئے۔ خاص کرا سموگ کو کنٹرول کرنے اور خواتین پر ظلم و جبر کے خلاف عدالت کے احکامات سے بہت سی مثبت تبدیلیاں آئیں اور ابھی اسکولوں میں ٹرانسپورٹ کے حوالہ سے جو حکم ہے ،وہ تو بہت ہی اعلیٰ ہے اور اس کا واقعی کوئی جواب نہیں۔ اگر محکمہ تعلیم اس پر عملدرآمد کروانے میں کامیاب ہوگیا تو لاہور شہر میں بہت سی تبدیلیاں نظر آنا شروع ہوجائیں گی ۔ایک تو والدین کی جو ذمہ داری ہے وہ بھی کم ہو جائے گی اور سب سے بڑھ کر گاڑیوں کے رش کی وجہ سے جو سڑکیں بلاک ہو جاتی تھیں وہ بھی کھلی رہیں گی اور ہزاروں گاڑیوں کا دھواں جو فضا کی گندگی کا باعث بن رہا ہے، اس سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔
لاہور ہائی کورٹ کے احکامات کی روشنی میں موسم سرما کی چھٹیوں کے بعد بچوں کو ٹرانسپورٹ مہیا کرنا اسکول کی ذمہ داری ہے اور اس سلسلہ میں سیکریٹری ایجوکیشن خالد نذیر وٹو نے نجی اسکولوں سے فوری ایکشن پلان طلب کر لیا اور ایکشن پلان نہ دینے والے اسکولوں کی رجسٹریشن منسوخی کابھی کہہ دیا ہے اور پھرا سکولوں کی رجسٹریشن بھی نہیں ہوگی۔ امید ہے کہ محکمہ تعلیم اس عدالتی حکم پر من و عن عمل کروائے گی اور اس طرح بچے بھی سست نہیں ہونگے انہیں اپنا بیگ اٹھا کر بس یا وین میں خود ہی سوار ہونا پڑے گا اور پھر اس سے اتر کر اپنا بیگ اٹھا کر کلاس روم تک جانا ہوگا ۔یوں بچپن سے ہی بچہ اپنا وزن خود اٹھانے کے قابل بننا شروع ہوجائیگا۔ہمارے بچے آجکل ویسے بھی کسی کھیل کود میں کم ہی حصہ لیتے ہیں۔ خاص کر جب سے موبائل آیا ہے تب سے ہر بچہ موبائل پر گیمیں کھیلنے میں مصروف ہے۔ مجھے پروفیسر اسٹیوارٹ کی 1960 میں اپنی الوداعی تقریر یاد آگئی۔ پروفیسر صاحب اور انکی بیگم دونوں پچاس سال راولپنڈی میں پڑھاتے رہے پروفیسر اسٹیوارٹ کا انتقال 103 سال کی عمر میں کیلیفورنیا میں ہوا۔انہوں نے اپنی تقریر میں ہمارے خطے کے بارے میں بڑی خوبصورت بات کی کہ پاکستانی ایک ناکارہ اور مفلوج قوم ہیں اس قوم کو پہلے اس کی مائیں نکما بناتی ہیں یہ اپنے بچوں کا ہر کام خود کرتی ہیں ان کے کپڑے دھوتی ہیں استری کرتی ہیں ،بچوں کو جوتے پالش کر کے دیتی ہیں ۔لنچ باکس تیار کرکے بچوں کے بستوں میں رکھتی ہیں اور واپسی پر باکسز کو نکال کر دھو کر خشک بھی خود کرتی ہیں۔ بچوں کی کتابیں اور بستے بھی مائیں صاف کرتی ہیں اور ان کے بستر بھی خود لگاتی ہیں۔ چنانچہ بچے ناکارہ اور سست ہو جاتے ہیں اور یہ پانی کے گلاس کے لیے بھی اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو آواز لگادیتے ہیں یا ماں کو اونچی آواز میں کہتے ہیں۔ امی پانی تو دے دو۔ پاکستانی بچے اسی کلچر کے ساتھ جوان ہوتے ہیں۔ اس کے بعد ان کی بیویاں آ جاتی ہیں ۔یہ انہیں اپنا مجازی خدا سمجھتی ہیں اور غلاموں کی طرح ان کی خدمت کرتی ہیں ۔یہ بھی ان کا کھانا بناتی ہیں۔کپڑے دھو کر استری کرتی ہیں۔ان کے واش رومز صاف کرتی ہیں ۔ان کے بستر لگاتی ہیں اور پھر ان کی نفرت، حقارت اور غصہ برداشت کرتی ہیں۔ چنانچہ میں اگر یہ کہوں پاکستانیوں کی مائیں بچوں کی نرسیں ، بیویاں ملازمائیں اور چھوٹے بہن بھائی غلام ہوتے ہیں تو یہ غلط نہیں ہوگا۔ لہٰذا سوال یہ ہے جو لوگ اس ماحول میں پل بڑھ کر جوان ہوتے ہیں کیا وہ ناکارہ اور مفلوج نہیں ہوں گے؟پروفیسر اسٹیوارٹ کا کہنا تھااگر تم لوگوں نے واقعی قوم بننا ہے تو پھر تمہیں اپنے بچوں کو شروع سے اپنا کام خود کرنے اور دوسروں بالخصوص والدین کی مدد کی عادت ڈالنا ہو گی تاکہ یہ بچے جوانی تک پہنچ کر خود مختار بھی ہو سکیں اور ذمہ داریاں بھی ادا کرسکیں۔ ایسے ہی بچے مستقبل میں ذمہ دار شہری بنتے ہیں ۔اس لیے یہ اب آپ لوگوں کو فیصلہ کرنا چاہیے کہ جو بچہ خود اٹھ کر پانی کا گلاس نہیں لے سکتا ،وہ کل قوم کی ذمے داری کیسے اٹھائے گا؟
پروفیسر صاحب کی یہ باتیں واقعی حقیقت ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ ہماری عدالتوں کا بچوں کو ذمہ داری کا احساس دلوانے کے حوالہ سے یہ پہلا قدم ہے اور اگلا قدم والدین خود اٹھائیں اسی طرح ہماری عدالتوں نے خواتین کے حقوق کے حوالہ سے بہت سے احکامات دے رکھے ہیں ۔اگر ان پر بھی عمل درآمد ہو جائے تو ہماری خواتین جو مردوں سے کہیں زیادہ بہادر،محنتی اور کام کرنے والی ہیں، وہ بھی پاکستان کی خوشحالی اور ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکتی ہیں۔ ہمارے ہاں آج بھی خواتین کو پائوں کی جوتی سمجھا جاتا ہے اور ہمارے ہاں تو ویسے بھی آگاہی نہیں۔ خواتین کے حقوق کے حوالے سے یہی وجہ ہے کہ خواتین ہر جگہ استحصال کا شکارہورہی ہیں ۔چاہے وہ استحصالی ماں باپ کی وراثت سے حصہ نہ ملنے کی ہو، کام کی جگہ پر ہراسگی کی شکل میں ہو یا کے غیرت کے نام پر قتل کی کی صورت میں ہو ،ہر جگہ خواتین ہی اسکا شکار دکھائی دیتی ہیں۔ صوبائی محتسب اور وفاقی محتسب کے ادارے خواتین کے مسائل کے حل کے لیے بھی کوشاں ہیں مگر ان اداروں میں بھی جو کیس رپورٹ ہوتے ہیں، وہ آدھے سے بھی کم ہیں ۔خواتین معاشرتی بدنامی کے خوف سے ان اداروں سے مدد نہیں لے سکتی ہیں۔ ملک میں خواتین کے بنیادی معاشرتی حقوق کی بات کریں تو پنجاب پاکستان کا سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ ہے جہاں خواتین کے خلاف جرائم تشویش ناک حد تک بڑھ چکے ہیں ۔ 2024ء کے پہلے چھ ماہ میں خواتین کے خلاف ہراسانی، گینگ ریپ، اغوا اورغیرت کے نام پر قتل کے 8462 واقعات رجسٹرڈ ہوئے اور جو نہیں رجسٹرڈ ہو سکے وہ بھی لاتعدادہونگے ۔کیونکہ ہمارے ہاں قانونی جنگ میں گھسنا آسان نہیں ہے۔ خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات گھر، تعلیمی اداروں ،سرکاری اور نجی کام کی جگہ پر دن بہ دن بڑھ رہے ہیں۔ پنجاب حکومت نے ہراسانی کے واقعات کی روک تھام کے لیے ایک ”ہیلپ لائن” بھی قائم کر رکھی ہے بلکہ وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ کے واضح احکامات بھی خواتین کی حفاظت کے لیے ریکارڈ پر ہیں ،جہاں خواتین اپنی شکایت درج کروا کر ملزم کو سزا دلوا سکتی ہیں مگر خواتین اس عمل سے بھی کتراتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں خواتین کو شرم و حیا کا پیکر سمجھا جاتا ہے اور وہ بیچاری ایسی کسی بھی قسم کی کاروائی سے گھبراتی ہیں کہ معاشرے میں مزید بدنامی ہو گی اور اسی خاموشی کی بنا پر اوباش روش نوجوان مزید بے لگام ہوجاتے ہیں جو معاشرے میں خواتین کو ہراساں کرتے ہیں۔ اگر ہماری عدالتیں خواتین پر مظالم کے حوالے سے بھی اپنے احکامات پر عمل درآمد کروادیں توخجستہ ریحان اور مہوش نعیم جیسی بہت سی خواتین کو انصاف مل سکے ،عدالت کا قد م بھی خواتین کو باصلاحیت اور خود مختار بنانے کی طرف ایک اہم سنگ میل ہوگا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں