غداری کیس: پرویز مشرف کی سزائے موت کا فیصلہ برقرار
شیئر کریں
سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی غدار ی کیس میں سزا ئے موت برقراررکھتے ہوئے خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف دائر اپیل غیر مئوثر ہونے کی بنیاد پر خارج کردی ۔جبکہ عدالت نے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے13جنوری2020کو خصوصی عدالت کو غیر آئینی اورغیر قانونی قراردینے کے فیصلے کے خلاف دائر اپیلیں سماعت کے لئے منظور کرتے ہوئے مختصر حکم جاری کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرارددے دیا۔عدالت نے قراردیا کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے حوالے سے تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔سابق صدرپرویز مشرف سے متعلق کیسز کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ نے کی، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہرمن اللہ بھی بینچ میں شامل تھے۔ درخواست گزار کے وکیل حامد خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ پرویزمشرف نے سزا کیخلاف اپیل دائرکر رکھی ہے جو کریمنل اپیل ہے، ہماری درخواست لاہور ہائیکورٹ کے سزا کالعدم کرنے کے خلاف ہے جو آئینی معاملہ ہے، دونوں اپیلوں کو الگ الگ کرکے سنا جائے۔چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ موجودہ کیس میں لاہور ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار اور اپیل دو الگ معاملات ہیں، پہلے پرویز مشرف کے سابق وکیل بیرسٹر سلمان صفدرکو سن لیتے ہیں۔پاکستان بار کونسل کے وکیل حسن رضا پاشا نے بھی دونوں معاملات کو الگ کرنے پر اعتراض نہیں کیا۔ دوران سماعت وفاقی حکومت نے پرویزمشرف کی سزا کیخلاف اپیل کی مخالفت کی جس پر چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان سے استفسار کیا آپ پرویزمشرف کی فوجداری اپیل کی مخالفت کر رہے ہیں یا حمایت؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا پرویز مشرف کی اپیل کی مخالفت کر رہے ہیں۔بیرسٹر سلمان صفدر نیاپنے دلائل میں کہا کہ میں پرویز مشرف کی فیملی کی جانب سے اپیل میں پیش نہیں ہورہا ، فیملی اپیلی چلانے میں دلچسپی نہیں رکھتی، مجھے فیملی کی جانب سے کوئی ہدایات نہیں۔ جب تک پرویز مشرف زندہ تھے توان کی فیملی اپیل چلانے کے حوالے سے فکر مند تھی۔ چیف جسٹس نے سلمان صفدر سے استفسار کیا کہ کس کی جانب سے معروضات پیش کررہے ہیں۔ اس پر سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ کسی کی جانب سے بھی نہیں۔ جسٹس سید منصور علی شاہ کا سلمان صفدر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیا عدالت کی معاونت کررہے ہیں۔ جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ درخواست گزار نے کبھی اس عدالت کے سامنے سرینڈر نہیں کیا۔ جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ متواتر نوٹسز دینے کے باوجود فیملی عدالت نہیں آئی۔ سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ ساڑھے تین سال بعد کیس شروع ہوا ہے۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں ہم چیزوں کو اسٹرکچر کررہے ہیں، 55ہزار کیسز زیرالتوا ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ ابھی کچھ کرنے کی ہدایات ہی نہیں توپھر ہم آگے کیسے چلیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیوں فیملی کو داغ دھونے کا موقع نہ دیا جائے، آخر کار ہر چیزانصاف کے گرد گھومتی ہے، اس کیس میں لواحقین سامنے نہیں آرہے۔ جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ اگر لواحقین پیش نہیںہوتے توپینشن اوردیگر معاملات بھی آسکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے سلمان صفدر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سی آرپی سی کی دفعہ 561اے کے حوالہ سے کیا کہیں گے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ یہ اپیل سی آرپی سی کے تحت دائر نہیں ہوئی۔ چیف جسٹس نے سلمان صفدر سے سوال کیا کہ کیا یہ واحد کیس ہے جس کا ٹرائل خصوصی عدالت میں کیا گیا۔ ا س پر سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ یہ واحد کیس ہے جس کا ٹرائل خصوصی عدالت میں کیا گیا۔ سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ فیملی صرف اس صورت میں کیس میں فریق بن سکتی ہے اگر جرمانہ ہوا ہو۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم لواحقین کی جانب سے فریق بننے کا دروزاہ بند نہیں کریں گے اور ہم مفروضوںپر نہیں چلیں گے۔ سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ لواحقین ملک میں موجود نہیں۔ چیف جسٹس نے وکیل سلمان صفدر سے سوال کیا آپ کے لاہور ہائیکورٹ پرکیا سنگین تحفظات ہیں؟ جس پر سلمان صفدر کا کہنا تھا لاہورہائیکورٹ میں مشرف ٹرائل والے جج کے سامنے سپریم کورٹ میں بھی پیش نہیں ہوتا، اس بارے میں آپ کے چیمبر میں طلب کرنا چاہیں تو میں بتادوں گا ۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کسی کو چیمبرمیں نہیں بلاتے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وکالت کا بھی کنٹریکٹ ہوتا ہے اوروہ وقت ختم بھی ہوجاتا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آرٹیکل 12کے تحت مشرف کے ساتھ ملوث تمام افراد کے خلاف عدالتی دروازے تو کھلے ہیں۔اس پر وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ ایمرجنسی کے نفاذ میں پرویز مشرف تنہا ملوث نہیں تھے، اس وقت کے وزیراعظم، وزیر قانون، پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کے ججزبھی ملوث تھے، پرویز مشرف کو سنے بغیر خصوصی عدالت نے سزا دی، ایک شخص کوپورے ملک کے ساتھ ہوئے اقدام پر الگ کرکے سزا دی گئی۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر 1999کی ایمرجنسی کی تحقیقات ہوتیں تو 3 نومبرکا اقدام نہ ہوتا۔عدالت نے سلمان صفدر کے دلائل سننے کے بعد پانچ منٹ کا وقفہ کردیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم پانچ منٹ بعد آتے ہیں اوردرخواستوں پر فیصلہ سناتے ہیں۔ عدالت نے 20منٹ بعد واپس آئی اور چیف جسٹس نے درخواستوں پر فیصلہ سنایا۔ چیف جسٹس نے پہلے پرویز مشرف کی فوجداری سزا کے خلاف دائر اپیل پر فیصلہ سنایا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست گزار نے سپریم کورٹ کے سامنے سرینڈر نہیں کیا، ان کی جانب سے کہا گیا کہ وہ بیرون ملک ہیں اور واپس آنے کی پوزیشن مین نہیں۔ پرویز مشرف کو 17 دسمبر 2019 کو خصوصی عدالت کی جانب سے سزاسنائی گئی اور اس کے خلاف انہوں نے 16جنوری2020کو اپیل دائر کی۔ سلمان صفدر کی جانب سے بتایا گیا کہ پرویز مشرف 5فروری2023کو بیرون ملک وفات پاگئے۔ حکم میں کیا گیا کہ 10نومبر 2023کو اس عدالت کے سامنے یہ کیس آیا اورسلمان صفدر کو لواحقین سے رابطے کا موقع دیا گیا۔ عدالت نے مرحوم درخواست گزار کے لواحقین کو اندرون اوربیرون ملک موجود پتوں پر نوٹسز بھجوائے اور انگلش اوراُردوکے دوبڑے اخبارات ڈان اور جنگ میں اشتہار بھی چھپوایا۔ سلمان صفدر نے کہا کہ پرویز مشرف کے اہلخانہ سے رابطہ میں ناکام رہے۔ عدالتی حکم میں کہا گیا کہ عدالت نے کسی مجبوری کے بغیر درخواست گزار کے لواحقین کو اندرون اور بیرون ملک دستیاب پتوں پر نوٹسز بھجوائے تاہم لواحقین پیش نہیں ہوئے۔ حکم میں کہا یگا ہے کہ موجودہ حالات میں جب لواحقین بھی سامنے نہیں توعدالت کے پاس کوئی چارہ سوائے اس کے کہ درخواست کو غیر مئوثر ہونے کی بنیاد پر خارج کردیا جائے۔ عدالت نے خصوصی عدالت کی جانب سے غداری کیس میں سزائے موت برقراررکھتے ہوئے اپیل خارج کردی۔ جبکہ لاہور ہائی کورٹ کے سابق جسٹس اور سپریم کورٹ کے مجوجودہ جج جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کی جانب سے خصوصی عدالت کو غیر آئینی اورغیر قانونی قراردینے کے فیصلہ کے خلاف دائر اپیلیں سماعت کے لئے منظور کرلیں اور لاہور ہائی کورٹ کا حکم کالعدم قراردے دیا۔ عدالت نے درخواستوں پر مختصر فیصلہ سنایا، تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔واضح رہے کہ 17 دسمبر 2019 کو خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو آئین شکنی کے مقدمے میں آرٹیکل 6 کا مجرم قرار دیتے ہوئے سزائے موت دینے کا حکم سنایا تھا جس کے خلاف پرویز مشرف کی جانب سے اپیل دائر کی گئی تھی۔