میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نیتن یاہو بڑی تیزی سے اپنی قبر کھود رہا ہے !!

نیتن یاہو بڑی تیزی سے اپنی قبر کھود رہا ہے !!

ویب ڈیسک
بدھ, ۱۰ جنوری ۲۰۲۴

شیئر کریں

ڈاکٹر سلیم خان

حماس کے نائب سربراہ شیخ صالح العاروری کو شہید کرکے اسرائیل نے مجاہدین فلسطین کو خوفزدہ کرنے کی ایک ناکام کوشش کی۔ ان نمازہ جنازہ میں ہزاروں سوگواروں کی شرکت نے یہ خوش فہمی دور کردی۔اس موقع پر حماس زندہ باد ، فلسطین زندہ باد کے ساتھ اسرائیل مردہ باد کے فلک شگاف نعروں سے بیروت کی فضا گونج رہی تھی ۔ شرکا ئے جنازہ کی کثیر تعداد صالح العاروری اوران کے ساتھیوں کی شہادت کابدلہ لینے کے لیے پر عزم تھے ۔ جلوسِ جنازہ کو خطاب کرتے ہوئے حماس سربراہ اسماعیل ہنیہ نے شہید رہنما کی خدمات کو یاد کرکے شیخ صالح کے عظیم مشن کو آگے بڑھانے کا عزم کیا۔ اسرائیل تو یہ توقع کررہا تھا کہ اسماعیل ہنیہ روپوش ہوجائیں گے مگر ایسا بھی نہیں ہوا۔ ایسے میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر تین ماہ کے بعد اسرائیلی حکمرانوں نے اچانک یہ بزدلانہ حملہ کیوں کردیا جو ان کے لیے خودکشی سے کم نہیں ہے ۔ دراصل سفاک و حریص حکمراں کو اگر اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد جیل جانے کا خطرہ بھی لاحق ہو جائے تو وہ باولا ہوجاتا ہے اور یہی معاملہ اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کے ساتھ ہورہا ہے ۔
اسرائیل ڈیموکریسی انسٹیٹیوٹ کے تازہ ترین سروے میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ یاہو کی مقبولیت کا گراف بہت تیزی کے ساتھ نیچے کی طرف سے جارہا ہے ۔ فی الحال اسرائیلی عوام کی صرف پندرہ فیصد تعداد غزہ کی جنگ کے بعد بھی نیتن یاہو کی قیادت کے حق میں ہے ۔ عوامی مقبولیت کی ا س گراوٹ نے صہیونی حکمراں کا دماغ خراب کردیا ہے اور وہ تیزی کے ساتھ اپنی قبر کھود نے میں جٹ گیا ہے مگر اپنے عبرتناک انجام سے قبل وہ جنونی درندہ کتنی تباہی مچائے گا کوئی نہیں جانتا۔نیتن یاہو نے اسرائیلی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ حماس کو تباہ کر کے بہت جلد اپنے قیدیوں کو چھڑا لے گا مگر تین ماہ بعد وہ کہہ رہاہے کہ 129 یرغمالیوں کو چھڑانے اور حماس کے مکمل خاتمے کی خاطر ایک لمبی جنگ لڑنا ہوگی۔یاہوتو اب بھی بزور قوت قیدیوں چھڑانے کی ڈینگ مارتا ہے جبکہ سروے کے مطابق 56 فیصداسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرانے کے لیے مذاکرات کو بہترین طریقہ سمجھتے ہیں اور 24 فیصد کے نزدیک اسرائیلی جیل میں قید فلسطینیوں کے عوض تبادلہ بہتر متبادل ہے ۔ جنگ کے بعد 85 فیصد اسرائیلی وزیر اعظم کے طور پر یاہو کا منہ دیکھنا نہیں چاہتے جبکہ 23 فیصد بینی گنٹز کے حامی ہیں ۔
اسرائیل کے وزیر اعظم پی ایم بینجمن نیتن یاہو کے بیرون ملک حامی اس سے اس لیے ناراض ہیں غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد کا مسلسل اضافہ ان کی بدنامی کا سبب بن رہا ہے ۔ وہ لوگ صہیونی نسل کشی کی حمایت کرتے کرتے بیزار ہوگئے ہیں۔ اسرائیلی جارحیت کے لیے بین الاقوامی حمایت میں زبردست کمی کا مظاہرہ اقوام متحدہ کے اجلاس ِ عام میں ہوچکا ہے مگر اب امریکہ کا رویہ بھی متزلزل ہو رہا ہے ۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے سال کے آخر تک اسرائیل کو کارروائیاں مکمل کرنے کی تلقین کی تھی مگر نئے سال میں بھی وہ جاری و ساری ہیں۔ ایسے میں امریکی بحریہ نے جیرالڈ آر۔ فورڈ طیارہ بردار بحری جہاز کومشرقی بحیرہ روم سے اپنے آبائی بندرگاہ پر ورجینیا واپس بلا لیا ہے ۔اس دوران وائٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے اعتراف کرلیا کہ حماس برقرار رہے گی اور صلاحیت اب بھی محفوظ ہے ۔اس سے قبل تین ماہ سے امریکہ حماس کو ختم کرنے کے اسرائیلی منصوبے کی پشت پناہی کرتا رہا ہے ۔ذرائع ابلاغ میں کربی کے بیان کو غزہ کے خلاف جارحیت کے حوالے سے امریکی پوزیشن میں پسپائی کا آغاز قرار دیا گیا ہے ۔نومبر کے اواخر میں دوحہ کے اندر قیدیوں کے تبادلے کی ثالثی کے دوران فرانسیسی صحافی اور مصنف جارجس مالبرونوٹ نے تصدیق کی تھی کہ اسرائیل کی طرف سے قطر کو یہ یقین دہانی کی گئی تھی کہ موساد دوحہ میں حماس کے رہنماؤں کا قتل نہیں کرے گامگر اپنی ناکامیوں کی پردہ پوشی کے لیے حکومتِ اسرائیل نے عالمی سطح پر حماس کے رہنماوں کوموت کے گھاٹ اتار کر اپنی گرتی ساکھ بچانے کی کوشش کررہا ہے ۔ اس کا پہلا ثبوت ترکیہ میں سامنے آیا جہاں جاسوسی کے الزام میں 33 افراد کو گرفتار کیا گیاجبکہ 46 الوگوں کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا گیا تھا ۔ بین الاقوامی جاسوسی کا یہ جال 8 ترک ریاستوں میں پھیلا ہوا تھا اور اس کو فاش کرنے کی خاطر 57 مقامات پر چھاپہ مارنا پڑا۔ قبل ازیں اسرائیلی داخلی سلامتی کے ادارے ‘شن بیٹ’ کے سربراہ کی ایک ریکارڈنگ میں لیک ہوئی تھی۔اس میں حماس تحریک کے قطر اور ترکیہ میں موجود رہنماوں کی ٹارگٹ کلنگ کے ارادے کا اظہار کیا گیا تھا۔ آگے چل کر دسمبر کے پہلے ہفتے میں امریکی اخبار’وال اسٹریٹ جرنل’ نے انکشاف کیا کہ’موساد’ نے بیرون ملک مقیم حماس رہنماؤں کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کررہا ہے اور یہ حکم خود اسرائیلی وزیر اعظم نے دیا ہے ۔
وال سٹریٹ جرنل نے لکھا تھا کہ ان کارروائیاں سے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہوسکتی ہے اور جن ممالک میں یہ کارروائی ہوتی ہے ان کی طرف سے ردعمل کا خطرہ ہوسکتا ہے لیکن اسرائیل نے اس کی پروا کبھی نہیں کی اور ہمیشہ بیرون ملک قتل کر کے اس کے منفی اثرات سے بچ گیا تھا کیونکہ مغربی دنیا بشمول پریس اس کے ساتھ کھڑا رہا۔نیتن یاہو کے حکمنامہ پر عمل کرتے ہوئے اسرائیلی فوج نے لبنان کے دارالحکومت بیروت میں حماس کے دفتر پر ڈرون حملہ کرکے حماس پولٹ بیورو کے نائب سربراہ صالح العاروری سمیت ان کے کئی ساتھیوں کو شہید کردیا۔شیخ صالح مغربی کنارے میں تنظیم کے مسلح ونگ کے بانی رکن تھے ۔ وہ 19 اگست 1966 میں رام اللہ کے قریب العارورہ نامی گاؤں کے اندر پیدا ہوئے تھے ۔انہوں نے 1987میں الخلیل یونیورسٹی کے اندرحماس میں شمولیت اختیار کر کے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا مگر بعد میں وہ تحریک کے فوجی ونگ القسام بریگیڈ کے بانیوں میں ان کا شمار ہوا۔
شیخ صالح العاروری کو اسرائیل نے متعدد بار گرفتار کیا جن میں 1985 سے 1992 اور 1992 اور 2007 کے درمیان 19 برس تک حراست میں رہے ۔ اسرائیل نے انہیں 2010 میں رہا کرنے کے بعد تین سال کے لیے شام جلا وطن کر دیا تھا۔2014 میں ان کے گھرکو اسرائیلی فوجوں نے تباہ کر دیا ۔ 2015 میں امریکہ نے دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر کے ان کی گرفتاری پر 50 لاکھ ڈالر کا انعام مقرر کیااس لحاظ سے امریکہ بھی اس دہشت گردی میں برابر کا شریک ہے ۔ امریکی اخبار’نیویارک ٹائمز’ کے مطابق اسرائیل حماس کے مزید رہنماؤں کو نشانہ بنانے پر کام کررہا ہے ۔ایک امریکی اہلکار کے حوالے سے یہ خبر دی گئی ہے کہ حماس کے رہنماؤں کے خلاف سلسلہ وار قتل عام کرنے کا منصوبہ تیارکیا جاچکا ہے ۔ اس اندوہناک منصوبے خلاف جب ردعمل سامنے آئے گا تو یہی ذرائع ابلاغ اور چپی ّ سادھے ہوئے سربراہان مملکے بلبلا اٹھیں گے جیساکہ ٧ اکتوبر کے بعد ہوا تھا۔
اسرائیل نے اگرچہ باضابطہ طور پر شیخ صالح العاروری کے قتل کااعتراف نہیں کیا لیکن اس کی فوج نے اس کے خلاف ردعمل کی تیاری کرکے اس تصدیق کردی۔ حماس کے پولیٹیکل بیورو کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے العاروری کے قتل کولبنان کی خودمختاری کے خلاف دہشت گردی کی کارروائی قرار دیا ۔ اس سانحہ کے بعد حماس نے اسرائیل کے ساتھ غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کی بالواسطہ بات چیت معطل کرکے اپنے رہنما کے قتل کا انتقام لینے کا اعلان کردیا ۔ وہ اس کے لیے پوری طرح حق بجانب ہے اور اس کی بھاری قیمت اسرائیلی استعمار کو چکانی پڑے گی ۔حماس کے سابق سربراہ خالد مشعل نے شہید رہنما صالح العاروری اور ان کے ساتھی شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں کہا کہ آج ہم ان سات چاندوں، ان عظیم شہداء اور قائدین کی بات کریں گے جن کو ہم نے اپنے ساتھ ملایا۔ ہم ان کے ساتھ جیے ، ہم نے ان کے ساتھ جہاد اور مزاحمت کی شراکت داری حاصل کی، جس میں فتح، آزادی اور حق واپسی کے لیے درد، امید، آرزو اورتمنا شامل تھی۔
خالد مشعل نے اپنے ایمان افروز خطاب میں کہا کہ ہم ان کی شہادت کو فلسطین کے قافلہ شہداء کا قابل فخر حصہ سمجھتے ہیں۔ اس سے ہمیں ہر روز تقویت ملتی ہے ۔ مشیت ایزدی جس طرح شہادت کے لیے قائدین کا انتخاب کرتی ہے اسی طرح یہ سپاہیوں کو بھی منتخب کیا جاتا ہے ۔ اس میں کوئی پیچھے نہیں رہتا اور نہ ہی کوئی اس سے پیچھے ہٹا ہے ۔ اس سے کوئی روگردانی نہیں کرتا ہے بلکہ یہ ہمارا مطالبہ اور ہدف ہے اور ہم اس کے لیے تیار ہیں ۔ہم نے برضا و رغبت خود کو شہادت کے راستے پر کھڑا کیا ہے ۔خالد مشعل نے کہا کہ اسرائیل کی بدترین جارحیت اور بربریت کا مظاہرہ دنیا دیکھ رہی ہے ۔ اس جارحیت کا شکار فلسطینی قوم کے نہتے اور معصوم لوگ ہیں،ان پر بارود کی بارش برسائی جا رہی ہے ۔ مگر بارود قابض اسرائیل کو بچا نہیں پائے گا بلکہ دشمن کو اس کی قیمت چکانا ہوگی۔ جارحیت کے ذریعے اسرائیلی دشمن خود اپنے ہاتھوں سے اپنی قبر کھود رہاہے ۔جس تحریک ایسی دلیر اور شجیع قیادت نصیب ہوجائے تو وہ ناکام نہیں ہوسکتی اس لیے یقین ہے کہ فلسطین کے آزادی کی صبح روشن بہت دور نہیں ہے ۔ بہت جلد وہاں صبح امید نمودار ہوگی۔ شیخ صالح العاروری اور ان کے ساتھیوں کی شہادت پر یہ شعر صادق آتا ہے
اے راہِ حق کے شہیدو ، وفا کی تصویرو
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں