ظلم کب تک؟
شیئر کریں
سمیع اللہ ملک
ہونی ہوکررہتی ہے ۔جوپیشانی میں ہے ،اسے پیش آناہے ۔جوکاتب تقدیرنے لکھاہے اسے پوراہوناہے ۔خیریاشر،برایابھلا،جوکچھ بھی آنے والے ایک پل کے پردے میں چھپاہے ،پل گزرتے ہی سامنے آجاناہے ۔اگلے پل کے پیچھے کیاچھپاہے ،کیاسامنے آئے گا؟ پچھلے پل کاتسلسل یااس کے بالکل برعکس۔کون جانے ،کس کومعلوم؟انسان کے بس میں کب کچھ ہے ؟جوکچھ ہے سلطان کے بس میں ہے جورحمان ورحیم بھی ہے ،قہاروجباربھی لیکن کیاواقعی ایساہے ؟کیاکوئی کاٹھی نہیں،جووقت کی بے لگام گھوڑے پرڈالی جاسکے ۔کوئی لگام نہیں جواس گھوڑے کامنہ موڑدے ؟کیاکوئی چابک نہیں جواس اڑیل کوصحیح سمت میں رواں رکھ سکے ؟کیا کوئی رکاب نہیں جوسوارکوسواری کی پیٹھ سے چپکاسکے ، اسے اوندھے منہ گرنے سے بچاسکے ؟نہیں ایسانہیں ہے ،رب رحمان نے انسان کوسمجھایاکہ ہونی ہوکررہتی ہے جوپیشانی میں ہے اسے پیش آناہے ۔کاتب تقدیرنے لکھاہے ،اسے پورا ہونا ہے لیکن ہونی کیاہے ،پیش کیاآنا ہے ،کاتب تقدیرنے کیالکھاہے ؟؟؟ سوائے اس کے کہبِمَا کَسَبَتْ ایدھمجوکچھ تم نے اپنے ہاتھوں سے کمایاہے ۔ اس نے راستے دکھائے ہیں۔۔بھلائی اوربرائی کے راستے ۔اس نے توسمجھایاہے ہم نے الہام کیاہے ،برائی کابھی،بھلائی کابھی۔اس نے توبارباریاد دلایاہے ۔اس نے تووعدہ کیاہے ۔وہ کسی عمل کرنے والے کاعمل ضائع نہیں کرتا۔اورپھر اس نے کہاہے تول لیاجائے گاتمہاراہرعمل اچھایابرا، چھوٹایابڑا،اورفیصلہ کردیاجائے گاتمہارے فلاح یاخسارے کا۔اس نے انسان کومتنبہ کیاہے ۔
زمانے کی قسم، انسان درحقیقت میں بڑے خسارے میں ہے ، سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے ، اور نیک اعمال کرتے رہے ، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے ۔وقت کی قسم تمام انسان خسارے میں ہیں۔اوریہ بھی بتایاہے کہ اس خسارے سے کیسے بچاجائے ۔اس نے وقت کامنہ زورگھوڑا ہی تخلیق نہیں کیا، اس نے کاٹھی بھی دی ہے ،لگام بھی،چابک بھی دی ہے ،رکاب بھی۔ایمان کی کاٹھی،عمل صالح کی لگام۔ تواصی حق کی چابک اورتواصی صبرکی رکاب ۔تاریخ سے پوچھ کردیکھئے ۔کون ہے جس نے وقت کے بے لگام گھوڑے کو قابوکرنے کیلئے ان اجزائکواستعمال کیاہو،اورناکام رہاہو۔کون ہے جس نے ان اجزائسے دامن چھڑایاہواورکامیاب ہواہو۔لیکن ہمارامعاملہ عجیب ہے ۔ہماراحال یہ ہے کہتمنابرق کی رکھتاہوں اورافسوس حاصل کا۔سمجھانے والے سمجھاتے رہ جائیں ۔راہ دکھانے والے راہ دکھاتے رہ جائیں۔ہم کسی کی کب سنتے ہیں۔ہم کہ عقل کل ٹھہرے ،کب کسی کی مانتے ہیں۔ہم اللہ کو مانتے ہیں لیکن نہ اس کے دین کومانتے ہیں نہ یوم الدین سے ڈرتے ہیں۔ہم قرآن کی تلاوت کرتے ہیں لیکن اس سے ہدایت نہیں لیتے ۔ہم نبی کریمۖ سے محبت کرتے ہیں لیکن ان کی اطاعت نہیں کرتے ۔زندگی ہم فرعونوں کی طرح گزارتے ہیں لیکن عاقبت موسیٰ کی مانگتے ہیں۔ہم اپنے آپ کواعتدال پسند،روشن خیال اور جمہوریت کے شیدائی کہتے نہیں تھکتے لیکن اپنے رویوں میں انتہاپسندی ، تاریک خیالی،اورآمریت کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ کہیں اقتدارکاسنگھاسن نہ ڈول جائے ۔اقتدارقائم رکھنے کاخاندانی رازبزرگوں سے سیکھاکہ باپ دادانے بھی اطاعت میں زندگی گزاری،جس کسی نے حق کی طرف توجہ دلائی اس کو زنداں کی تاریکی میں پھینک دوکہ اس کاعلاج یہی ہے !
کشمیرمیں مسلمانوں کی اکثریت تودین حق کی مرہونِ منت ہے ،اس کواقلیت میں تبدیل کرنے کی سازش توان حق کی قوتوں سے جنگ کے مترادف ہے ۔اس کے سامنے بھلاپہلے کون ٹھہراہے ۔وہ تواپنے بندوں کویاددلاتاہے ۔۔۔اورہم ضرورتمہیں خوف و خطرہ،فاقہ کشی، جان ومال کے نقصانات اورآمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلاکرکے تمہاری آزمائش کریں گے ،ان حالات میں جوصبرکریں اور جب کوئی مصیبت آن پڑے ،توکہیں کہ،ہم اللہ ہی کے ہیں اوراللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کرجاناہے ،انہیں خوشخبری دے دو،ان پران کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی،اس کی رحمت ان پرسایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست روہیں۔اس کھلی خوشخبری کے بعدبھلاکوئی حق پرست کیسے ان زندانوں سے ڈرسکتاہے ۔
کیاایک لاکھ سے زائدجانوں کی قربانی اس بات کی روشن دلیل نہیں کہ جس رب نے ہرانسان کوآزادپیداکیاہے ،وہ ہرحال میں حریت کیلئے اپنی جاں تک قربان کردینے کاعزم رکھتاہے ۔اس مردم شماری سے اگرسروں کی گنتی مقصودہے توپھران مجبورو مقہوربے گناہ سرفروشوں کی تعدادبھی سامنے آنی چاہئے جوکشمیر کی آزادی کیلئے قلم کردیئے گئے ۔ان اجتماعی قبروں میں دفن گمنام شہدائکابھی حساب ہوناچاہئے جن کی مائیں ابھی تک نوحہ کناں ہیں ،جن کے معصوم بچے اپنے والدین کی صورت دیکھنے کوترس رہے ہیں۔ان معصوم جوان بچیوں کابھی حساب ترتیب دیناہوگاجن کی عصمتیں لوٹ لی گئیں۔سات دہائیاں پہلے اسی ملک کے پہلے وزیراعظم نہرونے خودپاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی کوٹیلیگرام میں کشمیریوں کوحقِ خودارادیت دینے کا وعدہ کیاتھااوربعد میں بھارتی وفدنے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر کشمیریوں کوحق خود ارادیت دینے کاوعدہ کیاتھااورآج تک وہ قراردادیں عمل درآمد کی منتظر ہیں اوراس تمام عرصے میں کشمیریوں کوحق خوداردیت سے محروم رکھ کے بھارت نے خوداپنی شکست تسلیم کرلی ہے اورایک لاکھ سے زائد شہدائاور ہزاروں بیٹیوں کی عصمت وعفت کی قربانی اوروقت نے کشمیرکافیصلہ سنادیاہے کہ ریاست کشمیر کے باسی بھارت کے ساتھ رہنے کیلئے قطعاً تیار نہیں۔ اگر بھارت کواپنی کامیابی کاایک فیصد بھی یقین ہوتاتواب تک وہ اس عمل سے گزرچکاہوتا۔ کشمیریوں کی ثابت قدمی اوربے پناہ قربانیوں کے سامنے اس نے ہتھیارپھینک دیئے ہیں اوراسی وجہ سے وہ ایسے حیلے بہانے ڈھونڈ رہاہے کہ کس طرح کشمیریوں کی تعدادکوکم دکھاکرعالمی فورم کے دباؤکوکم کیاجاسکے ۔کیادنیاکواتنابڑادھوکہ دینے میں وہ کامیاب ہوسکیں گے کہ ہندوستان میں تو پچھلے 76سالوں میں مسلمانوں کی آبادی 26٪سے زائدبڑھ جائے اور کشمیر میں مسلمانوں کی تعداد مسلسل کم ہوتی جائے ۔جموں،کٹھوعہ اوراس کے گردو نواح میں غیرریاستی باشندوں کوغیرقانونی طورپرآبادکرنے کی مکروہ سازش اسی بنیادپرکی گئی ہے کہ تناسب میں تبدیلی لائی جاسکے جوکہ عالمی قوانین کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے ۔کشمیرکے مردحرسیدعلی گیلانی نے بروقت کشمیری قوم اورساری دنیا کواس سازش سے خبردارکیاتھا:حکومت مردم شماری کی مہم کے تحت نہ صرف یہاں تعینات فوج اورفورسزکی گنتی کررہی ہے بلکہ ان بھکاریوں کی بھی گنتی کی جارہی ہے جوپچھلے چھ مہینوں سے مقیم ہیں۔مزیداس حکومتی خطرناک چال سے آگاہ کرتے ہوئے جناب سیدعلی گیلانی نے بالکل صحیح فرمایاتھادراصل ایک منظم سازش کے تحت بھارت کی ہندوشدت پسند تنظیموں کے ان عزائم کوپوراکرنے کی کوشش کی جارہی ہے جن کامقصدجموں و کشمیرکے مسلمانوں کواقلیت میں تبدیل کرناہے ۔
تاریخ کایہ عبرتناک عمل ہے کہ جب ظلم حدسے بڑھتاہے تومٹ جاتاہے ۔کشمیریوں نے اپنے ایک لاکھ شہداء سے زائدکی قربانیوں سے یہ ثابت کر دیاہے کہ اگرروس اورامریکااپنی بے پناہ طاقت کے بل بوتے پرعراقیوں اورافغانیوں کونہ دباسکے تو بھارت توان سے زیادہ طاقتورنہیں ہے ۔مجھ سے ایک امریکی صحافی نے سوال کیا کہآخرنہتے کشمیری اور کتنی دیرلڑتے رہیں گے ؟ بہترہوتااگرتم یہ سوال بھارتی حکومت سے کرتے کہ وہ کتنی دیر اورکشمیریوں سے لڑنے کی ہمت رکھتے ہیں! میرے دل سے اٹھنے والی یہ آوازشائدکشمیریوں کے ترجمانی کرسکی یانہیں لیکن اس امریکی صحافی نے فوری اس بات کااعتراف کیاکہ مظلوم کی طاقت کے سامنے کوئی نہیں ٹھہرسکا،یہی تاریخ کاعبرتناک سبق ہے جوبالآخران ظالموں کامقدربنے گا۔مجھے چنددن پہلے ایک کشمیری نوجوان کی ایک طویل ای میل موصول ہوئی،اس نے یہ تین سوال بھی پوچھے ہیں:
1۔بھارت دنیاکے کئی پلیٹ فارم پرسب سے بڑی جمہوریت کادعویٰ توکرتاہے لیکن اس نے آج تک کسی آزادپریس میڈیااور الیکٹرانک میڈیاکو کشمیرکی حالتِ زاردیکھنے اوران کی آزادانہ رائے کودنیاکے سامنے لانے کی اجازت کیوں نہیں دیتا؟
2۔اگرچندلمحوں کیلئے (صرف سمجھانے کیلئے )فرض کرلیاجائے کہ کشمیر بھارت کاحصہ ہے توبھارت کے آئین کی کون سی شق اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ اپنے ہی ملک کے ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کوبے رحمی سے قتل کردے ؟
3۔اگربھارتی فورسزکے افرادرات کی تاریکی میں حکومتی اندھی طاقت اوراسلحے کے زورپرایک گھرمیں داخل ہوکرایک بوڑھی عورت سے لیکرایک دس سالہ بچی کی عصمت دری کردے اورگھرکے تمام افراد کو گولیوں سے بھون کراپنے جرم کو چھپانے کیلئے اس گھرکونذرِآتش کردے ،بعدازاں اس بدنصیب گھرکاایک زخمی بچ جائے اورانصاف نہ ملنے کی صورت میں وہ خود انتقام لینے کیلئے کوئی کوشش کرے تواسے آپ دہشت گردکہیں گے ؟
کہہ دوکہ ملک میں چلوپھروپھردیکھوکہ گنہگاروں کاانجام کیا ہواہے ۔ (نمل:69)
اورتم پہاڑوں کودیکھتے ہوتوخیال کرتے ہوکہ(اپنی جگہ پر)کھڑے ہیں مگروہ(اس روز)اس طرح اُڑے پھریں گے جیسے بادل۔ (یہ)خدا کی کاریگری ہے جس نے ہرچیزکومضبوط بنایا۔بے شک وہ تمہارے سب افعال سے باخبرہے (نمل:88)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔