میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
گولان پہاڑیا ں فلسطین کا حصہ ہیں

گولان پہاڑیا ں فلسطین کا حصہ ہیں

ویب ڈیسک
بدھ, ۱۰ جنوری ۲۰۲۴

شیئر کریں

ریاض احمدچودھری

سلامتی کونسل کے رکن پانچ یورپی ممالک نے امریکہ کی طرف سے گولان کی پہاڑیوں کو اسرائیلی قبضے میں دینے کے اعلان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس اقدام کے مضمرات بہت وسیع ہونگے۔ یورپی یونین کے پانچ اہم ممالک جن میں بلجییم، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور پولینڈ شامل ہیں، نے اصرار کیا کہ مقبوضہ شامی علاقے(گولان پہاڑیاں) کے بارے میں ان کے موقف میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی کیونکہ اقوام متحدہ کی قرارداد میں متذکرہ تمام علاقے کو تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔ان ممالک کا کہناہے کہ ہم شامی پہاڑیوں گولان ہائٹس پر اسرائیل کا ناجائز قبضہ تسلیم نہیں کرتے جن پر اسرائیل نے 1967ء کی جنگ میں قبضہ کر لیا تھا۔ اس بارے میں امریکہ نے ماضی میں بھی مختلف مواقعے پر کئی ایسے اشارے دیے جن میں اسرائیل کے قبضہ کی حمایت کی گئی اور بالآخر واضح طور پر اعلان کر دیا کہ امریکا گولان کی پہاڑیوں کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرتا ہے تاہم بلجیئم کے سفیر مارک پیٹسن نے اخباری نمایندوں کو بتایا کہ شام کے اس علاقے کو اسرائیلی ملکیت تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ سلامتی کونسل نے گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضے کے خلاف تین قراردادیں بھی منظور کی ہوئی ہیں جن میں اسرائیل پر زور دیا گیا تھا کہ وہ مقبوضہ علاقے کو خالی کر دے۔روس اور چین نے بھی اس امریکی فیصلے کی سختی سے مخالفت کی ہے اور اس کے ساتھ ہی کہا ہے کہ انڈونیشیا اور جنوبی افریقہ بھی مکمل طور پر فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔
اسرائیل نے 1967 کی مشرق وسطیٰ کی جنگ کے آخری مرحلے میں اس علاقے پر قبضہ کر لیا تھا اور 1973 میں شام کی اس پر واپس قبضہ کرنے کی کوشش بھی ناکام بنائی اور 1981 میں اس کو اسرائیل نے یکطرفہ طور پر اپنا علاقہ قرار دے دیا تھا۔ تاہم اسرائیل کے اس اقدام کو عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا اور سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ گزشتہ 50 سال سے یہ علاقہ عالمی سطح پر متنازع ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اس علاقے پر اسرائیل کے قبضہ کو غیر قانونی قرار دیتی ہے۔ گولان کی پہاڑیوں کو شام اور اسرائیل دونوں ملک ہی خاص اہمیت دیتے ہیں اس کی اہم وجہ اس کی جغرافیائی اور عسکری اہمیت ہے۔ شام کے جنوب مغرب میں واقع اس پہاڑی سلسلے سے شامی دارالحکومت دمشق واضح طور پر نظر آتا ہے۔ اس علاقے پر اسرائیل کے قبضہ کے بعد سے اسرائیلی فوج یہاں سے شامی فوج اور جنگجوؤں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ جبکہ یہاں سے شمالی اسرائیل کا علاقہ بھی دسترس میں ہے اور 1948 سے 1967 تک جب یہ پہاڑی سلسلہ شام کے زیر انتظام تھا تو شامی فوج یہاں سے شمالی اسرائیل پر گولہ باری کرتی رہی ہے۔لہذا اس علاقے کا جغرافیائی محل وقوع اسرائیل کو شام کی جانب سے کسی بھی عسکری حملے کے خلاف تحفظ فراہم کرتا ہے۔ عسکری اہمیت کے علاوہ اس بنجر علاقہ کے لیے پانی بھی ان پہاڑیوں سے بارش کے پانی سے بننے والے ذخیرہ سے حاصل ہوتا ہے جو اسرائیل کے لیے پانی کا تیسرا بڑا ذریعہ ہے۔
ادھراسرائیلی فوج نے خان یونس میں حملے بڑھا دئیے ۔ خان یونس کے ایک گھر پر تازہ حملہ کیاہے جس میں 12 بچوں سمیت مزید 17 فلسطینی شہید اور 50 کے قریب زخمی ہو گئے جبکہ فلسطینی ہلال احمر کے ہسپتال کے اطراف بھی اسرائیلی فوج نے شدید گولہ باری اور ڈرون سے فائرنگ کی اور اسرائیلی اسنائپر نے ہسپتال کے پاس کھڑے نہتے فلسطینی کو گولی مار کر شہید کر دیا۔ غزہ میں اپنی کار میں سوار الجزیرہ کے 2 صحافی اسرائیلی بمباری میں شہید ہوگئے اس طرح 7 اکتوبر سے تاحال غزہ میں اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران مارے گئے صحافیوں کی تعداد 109 ہوگئی۔ فلسطینی فٹ بال ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ فلسطین کی اولمپک فٹ بال ٹیم کے کوچ ہانی المصدر غزہ میں اسرائیلی فضائی حملے میں شہید ہو گئے ہیں۔ 42 سالہ المصدر 2018ء میں ریٹائر ہونے اور فلسطین کی قومی ٹیم کے کوچ بننے سے قبل المغازی اور غزہ سپورٹس کلب کے مڈ فیلڈر تھے۔ سخت سردی کے باوجود امریکا کے شہر نیویارک میں غزہ کی حمایت میں احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ مظاہرین نے فلسطین کی آزادی کے حق میں نعرے لگائے۔امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی، نیویارک اور شکاگو میں فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے ریلیاں نکالی گئیں۔ نیویارک میں نکالی گئی ریلی میں شریک افراد نے فلسطینی جھنڈے اور بینرز تھامے ہوئے تھے۔ شکاگو میں بھی فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے نکالی گئی، ریلی کے شرکا مرکزی شاہراہ پر جمع ہوئے جو الگ فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ کر رہے تھے۔
قوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین (اونروا) نے تصدیق کی ہے کہ غزہ تقریبا 90 فیصد آبادی کو جبری نقل مکانی کا نشانہ بنایا گیا ہے اور ان کے پاس ہر چیز کی کمی ہے۔جس امداد کوشمالی غزہ میں داخل ہونے سے روکا گیا تھا اس میں 30 دنوں کے لیے ایک لاکھ سے زیادہ افراد کے لیے ادویات اور غذائی اشیاء کے 8 ٹرک بھی شامل ہیں۔غزہ میں اسرائیل کی جارحیت کے باعث پیدا ہونے والی غذائی قلت نے شیر خوار بچوں کی زندگی بھی مشکل بنادی جہاں فاقہ کشی پر مجبور مائیں بچوں کو دودھ پلانے قابل بھی نہ رہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں