میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
تبدیلی کا سال

تبدیلی کا سال

ویب ڈیسک
پیر, ۱۰ جنوری ۲۰۲۲

شیئر کریں

 

ہر نیا سال افراد اور اداروں کے لیے نئی امنگ،ایک نئے اعتماد اور کامیابیوں کی خواہشات کے ساتھ شروع ہوتا ہے اور پہلے سے کچھ بہتر کردکھانے کا عزم کیا جاتا ہے۔سال 2022کا آغاز ہو چکا ہے، زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اور ادارے اپنے ارادوں کو مستحکم کرتے ہوئے اپنے مستقبل کے منصوبوں کی جانب پیش رفت کو تیار ہیں۔یہی صورتحال ہماری قومی سیاست کی بھی ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت جو اپنے تین سال مکمل ہوجانے کے باوجود وہ تبدیلی لانے کا وعدہ پورا کرنے میں ناکام رہی ہے جس تبدیلی کے خواب اس نے اقتدار میں آنے سے قبل دکھائے تھے۔عوام غربت ،مہنگائی ، بے روزگاری، بجلی ،گیس اور پیٹرولیم کی مصنوعات میں مسلسل اضافے سے انتہائی نالاں نظر آتے ہیں ، شدید مایوسی کا شکار ہیں اور کوئی داد رسی کرنے والا نظر نہیں آتا۔کاروباری لوگ کووڈ۔19 وبائی بیماری کے بحران سے پہنچنے والے نقصانات سے ابھی تک پوری طرح سنبھلنے نہیں پائے ہیں۔ پھر حکومت کی جانب سے ٹیکسز اور شرح سود میں اضافے، ڈالر کے مقابلہ میں روپے کی قدر میں مسلسل کمی اور صنعتوں کے لیے گیس کی فراہمی کی بندش سے نہ تو اپنی پیدار میں اضافہ کر پارہے ہیں اور نہ ہی اپنے منافع میں ۔معاشرتی طور پر بھی غربت اور مہنگائی کی بنا پر اسٹریٹ کرائم دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں ،لوگ حالات سے تنگ آکر خود کشیاں کرنے پر مجبور ہیں یا اپنے بچے فروخت کررہے ہیں،سماجی انصاف نا پید ہو چکا ہے اور غربت اور امیری کے درمیان فرق روز بہ روز بڑھتا جارہا ہے اس امید پر نئے سال میں داخل ہورہے کہ شاید اس سال ان مشکلات میں کچھ کمی ہو جائے۔
قومی سیاست پر نظر ڈالیںتو حکمراں جماعت پی ٹی آئی اس نئے سال میں اقتدار سے محروم کرنے کے حزب اختلاف کی جماعتوں کی کوشش کو ناکام بنانے اور اپنے پانچ سال پورے کرنے کے لیے کمر کس کر تیار ہو چکی ہے۔موجودہ حکو مت اس وقت مسلم لیگ نون کے مرکزی رہنماؤں نوا زشریف اور شہباز شریف سے سب سے زیادہ خوفزدہ نظر آتی ہے۔نواز شریف کو لندن سے واپس لاکر جیل میں ڈالنے اور شہباز شریف کو منی لانڈرنگ کیس میں جیل پہنچانے کی شدید خواہش رکھتی ہے کیونکہ ان دونوں میں سے کوئی ایک ممکنہ وزیر اعظم ہو سکتا ہے۔کون کامیاب ہوگا یہ کہنا البتہ مشکل ہو گا لیکن حقیقت تو یہ ہے وزیر اعظم عمران خان اس وقت لندن میں نواز شریف کی مقتدر حلقوں کے ساتھ کی جانے والی ڈیل کی خبروں سے بڑے پریشان نظر آرہے ہیں اور انکے وزراء اور مشیروں کو سوائے نواز شریف اور شہباز شریف کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے کے علاوہ کوئی اور دوسرا کام نظر نہیں آتا۔دوسری جانب مسلم لوگ نون کے رہنماؤں کی جانب سے نواز شریف کی جلد وطن واپسی کے اعلانات نے موجودہ حکومت کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔پی ٹی آئی کی لیڈرشپ اس بات سے بھی پریشان ہے کہ پاکستانی عوام کو تین سال سے شریف فیملی کی جانب سے کی جانے والی کرپشن کی داستانیں مسلسل سنانے اورانکے خاندان کے ہر فرد کو جیل میں ڈالنے کے باوجود پنجاب میں اس پارٹی کی عوام میں مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی اور پنجاب میں ہونے والے ہر ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ نون کے امیدواروں ہی کامیاب ہوتے ہیں۔اس وقت پی ٹی آئی کی حکومت کے سامنے سب سے بڑا یہ سوال پیدا ہوگیا ہے کہ وہ تین سال سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک پیج پر ہونے کا دعویٰ کرتی چلی آرہی تھی کہ نئے سال میں وہ ایک پیج پر رہ سکے گی یا وہ پیج کسی اور طرف چلا جائے گا۔اب دیکھنا یہ ہوگا کہ وزیراعظم عمران خان کا یہ دعویٰ کہ انکی حکومت ایک پیج کے تعاون کے ساتھ نہ صرف اپنے پانچ سال پورے کرے گی بلکہ اگلے انتخابات میں میں بھی کامیابی حاصل کرے گی کہاں تک درست ثابت ہوگا بشرطیکہ کہ وہ اس سال اپنی حکومت برقرار رکھنے میں کامیاب ہو سکے۔
دوسری جانب حزب اختلاف کی دس جماعتیں جو بظاہر تو اس وقت منتشر نظر آتی ہیں اب تک اس حکومت کے خلاف کوئی منظم اور مشترکہ احتجاجی تحریک چلانے میں ناکام رہی ہیں ہیں ۔دوسری جانب درون خانہ خانہ یہ تمام جماعتیں وزراعظم،اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمیم سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کے جوڑ توڑ میں مصروف ہیں اور کسی نتیجہ پر پہنچ نہیں سکی ہیں۔پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ
( پی ڈی ایم میں شامل نو جماعتیں(پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے علاوہ) مارچ کے مہینہ میں اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کرنے کے اعلان چار ماہ قبل کرچکی ہیں ۔اس کے شروع ہونے کے بارے میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔پی ڈی ایم کے رہنما ا س خوش فہمی کا بھی کا بھی شکار ہیں کہ ان کا لانگ مارچ شروع ہونے سے قبل ہی پی ٹی آئی کی حکومت کا دھڑن تختہ ہو جائے گا اور تحریک اعتماد یا اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔حزب اختلاف کی دو بڑی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون ایک طرف تو موجودہ حکومت کے خلاف مشترکہ طور پر کام کرنے کی باتیں کرتی نظر آتی ہیں لیکن دوسری جانب ان دونوں جماعتوں کی اعلیٰ قیادت در پردہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جوڑ توڑ کرکے اگلے انتخابات کے بعد اپنی جماعت کی کامیابی کی ضمانت مانگ رہی ہیں ۔آصف زرداری اپنے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کو وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہیں تو دوسری جانب نواز شریف اپنی بیٹی مریم نواز کو۔یہ اور بات ہے کہ ان دونوں جماعتوں کے رہنما وزیر اعظم عمران خان کو سلیکٹڈ کہتے نہیں تھکتے ہیں، لیکن وہ خود بھی اپنے آپ کو اسٹیبلشمنٹ کی طاقت سے سلیکٹ کرانے میں مصروف نظر آتے ہیں جو اس ملک میں برسہا برس سے ہو تا چلا آرہا ہے۔پی ڈی ایم کے سربراہ اور جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان جنہوں نے موجودہ اسمبلیوں کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا اور حزب اختلاف کی جماعتوں کو ان سمبلیوں سے مستعفی ہونے پر زور دیتے چلے آرہے ہیں ،گزشہ ماہ خیبر پختونخواہ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی پر بڑے مسرور دکھائی دے رہے ہیں ۔آئندہ ماہ مارچ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے پوری طرح تیار ہیں ،اس حکومت کے دور میں جس کو وہ جعلی حکومت قرار دیتے ہیں۔اب دیکھنا ہوگا یہ سال کس کے لیے بہتر ثابت ہوگا۔پی ٹی آئی جو ہر صورت میں اپنا اقتدار بچانا چاہے گی تاکہ اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرسکے یا پھر حزب اختلاف کی جماعتیں جو اس سال پی ٹی آئی کی حکومت کو چلتا کرکے ملک میں نئے عام انتخابات کی راہ ہموار کرسکے۔کون کامیاب ہوگا یہ ایک الگ بات ہے ۔کون اس ملک کو بڑھتے ہوئے سنگین اقتصادی بحران سے نکالنے،بیرون قرضوں سے نجات دلوانے اور ملک سے غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کی عفریت سے نجات دلانے میں کامیاب ہوگا، یہ بات بہت ضروری ہے۔ کسی بھی جماعت کا اقتدار میں آنایہ کوئی مسئلہ نہیں ہے مسئلہ یہ ہے کہ عوام کو بے پناہ مشکلات سے نجات مل سکے ،یہ بہت اہم بات ہے۔
پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا المیہ یہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت اقتدار میں آنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی پش پشت حمایت کے لیے جوڑ توڑ کرتی ہیں ۔اگر الیکشن جیت گئے تو شفاف ورنہ ان کو دھاندلی قرار دے دیا جاتا ہے۔پی ٹی آئی کی حکومت کو تین سال گزرجانے کے باوجود حزب اختلاف کی جماعتیں عمران خان کو سلیکٹڈ وزیر اعظم قرار دیتی ہیں اور وہ خود بھی فوج اور حکومت کے ایک پیج پر ہونے کا دعویٰ کرکے خود اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ اسٹیبلشمٹ ان کے ساتھ اور پھر وزیر اعظم اور ان کے وزراء پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی قیادت پر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ خفیہ ڈیل کرنے کے الزامات لگانے سے نہیں تھکتے جس سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی سیاسی جماعت اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے بغیر اقتدار میں نہیں آسکتی ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اگر یہ نیا سال انتخابات کا سال ہوا تو جس جماعت پر اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہوگا،اس کے لیے نیا سال تبدیلی کا سال ثابت ہو جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں