مسلم خواتین پر کیچڑاچھالنے والوں سے ایک سوال
شیئر کریں
فرقہ وارانہ منافرت پھیلانا اب اس ملک میں کوئی جرم نہیں رہ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کا زہر سرچڑھ کر بول رہا ہے۔حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے۔شرپسندوں کے ساتھ حکومت کی نرم روی کا ہی نتیجہ ہے کہ ایک سے بڑھ کر ایک گھناؤنا جرم انجام دیا جارہا ہے۔حکومت یا تو غفلت میں ہے یا پھر اس نے جان بوجھ کر اشتعال انگیزی کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے تاکہ اس کے سیاسی ایجنڈے کو تقویت حاصل ہو۔ قومی یکجہتی اور فرقہ وارانہ اتحاد کو آج جتنا بڑا چیلنج درپیش ہے، اتنا اس سے پہلے کبھی نہیں تھا۔فرقہ پرست اور فسطائی ٹولے کی شرمناک حرکتوں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم کسی مہذب سماج میں نہیں بلکہ وحشی درندوں کے درمیان جی رہے ہیں۔ تہذیب و شائستگی اور اخلاقی قدروں کو اس طرح روندا جارہا ہے، گویا ان کی کوئی اہمیت ہی نہ ہو۔مسلمانوں کے خلاف نفرت کا طوفان کروٹیں لے رہا ہے اوران کو ملیا میٹ کرنے کے منصوبے بن رہے ہیں۔بزدلی کی انتہا یہ ہے کہ اب فسطائی عناصر نے مسلم خواتین کی عزت وقار سے کھلواڑ کرنا شروع کردیا ہے۔ سرکردہ مسلم خواتین کی نیلامی کے بازار سجائے جارہے ہیں۔
یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ مسلم خواتین کی آن لائن نیلامی کرنے والے گروہ کا کلیدی ملزم اسی اتراکھنڈریاست سے گرفتار ہواہے، جہاں پچھلے دنوں ’دھرم سنسد‘ میں مسلمانوں کو نسل کشی کی دھمکیاں دی گئی تھیں۔ اتراکھنڈ میں بی جے پی سرکار ہے اور اس نے ابھی تک مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ کرنے والے سادھوؤں پرکوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی ہے۔حکومت کی شہ پر ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا جو طوفان اٹھایاگیا ہے، اس کے سنگین نتائج سامنے آنے لگے ہیں۔مذہبی جنونیوں کا کھیل شرمناک حدوں میں داخل ہوچکاہے۔ مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کی کوششیں عروج پر ہیں۔مسلم دشمنی کا کاروبارکرنے والوں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے اور اسی چھوٹ کا نتیجہ ہے کہ زہر کی مقدار مسلسل بڑھتی چلی جارہی ہے۔ چھ ماہ قبل بھی ’سلی ایپ‘ کے ذریعہ سرکردہ مسلم خواتین کی آن لائن نیلامی کا بازار سجایا گیا تھا۔ اس شرمناک حرکت کے خلاف دہلی اور یوپی پولیس نے ایف آئی آرتودرج کی تھی، مگر چھ ماہ گزرنے کے باوجود پولیس نے مجرموں تک پہنچنے کے لیے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھایا۔ پولیس کی اسی غفلت سے حوصلہ پاکر’سلی ایپ‘ بنانے والوں نے اب ’بلی بائی‘ ایپ کو زیاد ہ اشتعال انگیز رنگ دیا ہے۔ زندگی کے مختلف میدانوں میں سرگرم سرکردہ مسلم خواتین کی تصویروں کو ہیجان خیز بناکرنیلامی کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے یہ کام ان ہی لوگوں کی شہ پر کیا گیا ہے، جو اس ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا سیاسی کاروبار کرتے ہیں۔ اس معاملے میں اگر شیوسینا کی رکن پارلیمان پرینکا چترویدی ممبئی پولیس میں شکایت درج نہ کراتیں تو اب بھی شاید مجرموں کی گرفتاری عمل میں نہیں آتی۔
یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ بی جے پی راج میں مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کی کوششیں عروج پر ہیں۔ جن جن صوبوں میں بی جے پی کی حکومت ہے، وہاں مسلمانوں کا جینا حرام کردیا گیا ہے اور انھیں دوئم درجے کا شہری بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ہے۔ان ریاستوں میں ایسے تمام عناصر کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے جو مسلمانوں کی زندگی میں خلل ڈالنے اور انھیں روئے زمین پر ایک بوجھ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ان کوششوں کا ایک ہی مقصد ہے کہ کسی نہ کسی طرح مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کریں‘ تاکہ ان کے قدم اکھڑجائیں اور وہ فسطائی طاقتوں کے آگے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوجائیں۔لیکن ایسا کرنے والوں کو اس بات کا شاید علم ہی نہیں ہے کہ یہ وہی مسلمان ہیں جو آزادی کے بعدسے لگاتار اس ملک میں ایسے حالات کا سامنا کرتے رہے ہیں۔ملک کی تقسیم کے دوران انھوں نے وہ وقت بھی دیکھا جب زندہ رہنے کے تمام راستے بند کردیے گئے تھے۔ جن مسلمانوں نے انتہائی نامساعد حالات میں بھی سپر نہیں ڈالی، وہ آج مٹھی بھر شرپسندوں کے آگے کیسے سرنگوں ہو سکتے ہیں۔ ان کا سر صرف اپنے خدا کے آگے جھکتا ہے، جو وحدہ لاشریک ہے۔
سرکردہ مسلم خواتین کی آن لائن نیلامی کا واقعہ ایک ایسی حکومت کی ناک کے نیچے پیش آیا ہے،جو خواتین کو بااختیار اور محفوظ تر بنانے کی دعویدار ہے۔ ’بیٹی بچاؤ اور بیٹی پڑھاؤ‘جس کا محبوب نعرہ ہے۔ جس نے تین طلاق کے خلاف قانون سازی کرکے خود کو مسلم خواتین کا سب سے بڑا چمپئن ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ وزیراعظم اپنی تقریروں میں بار بار اس بات کا کریڈٹ لیتے ہیں کہ انھوں نے طلاق ثلاثہ کے خلاف قانون سازی کرکے مسلم خواتین کو سر اٹھاکر چلنے کا موقع فراہم کیا ہے، لیکن جب ان ہی مسلم عورتوں کی آن لائن نیلامی کے شرمناک جرم کا ارتکاب کیا جاتا ہے تو اس حکومت کو سانپ سانپ سونگھ جاتا ہے اوروہ اس شرمناک حرکت کے خلاف ایک بیان جاری کرنا بھی ضروری نہیں سمجھتی۔اس سلسلہ میں مہاراشٹر سرکار اور اس کی پولیس واقعی مبارکباد کی مستحق ہے جو ایف آئی آر درج ہونے کے چند گھنٹوں کے اندر ہی کلیدی مجرموں تک پہنچ گئی۔جن چارملزمان کو اتراکھنڈ،آسام اور کرناٹک سے حراست میں لیا گیاہے، ابھی تک کسی سیاسی گروہ سے ان کی وابستگی سامنے نہیں آئی ہے، لیکن قابل غور پہلو یہ ہے کہ جن مسلم خواتین کی آن لائن نیلامی اوران کے کردارپر شرمناک تبصرے کیے گئے ہیں، ان میں بیشتر موجودہ حکومت کے فرقہ وارانہ ایجنڈے کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ ان میں ’دی وائر‘ سے وابستہ دوخاتون صحافی عارفہ خانم شیروانی اور عصمت آراء بھی شامل ہیں جنھیں ’بلی بائی‘ ایپ میں نیلامی کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ یہ دونوں ہی خواتین بطورصحافی اپنی ذمہ داریاں پوری جرات کے ساتھ ادا کرتی رہی رہی ہیں۔ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ جن بیمار ذہن لوگوں نے’بلی بائی‘ ایپ بنایا ہے، انھیں مسلم خواتین کی فہرست اسی فسطائی ٹولے نے فراہم کی ہے جس نے ملک میں مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ کررکھا ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ جو زعفرانی عناصر مسلم خواتین کو نشانہ بنانے کا بزدلانہ کام انجام دے رہے ہیں، انھیں ذرا اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہئے اور دنیا کو بتانا چاہئے کہ ان کے معاشرے میں عورت کی حیثیت کیا ہے؟کیا وہ اپنی اس تاریخ کو یاد کرنا چاہیں گے جس میں عورت کی زندگی جہنم سے کم نہیں تھی۔کیا ان کے معاشرے میں ’دیوداسی رسم‘آج بھی موجود نہیں ہے؟ کیا وہ اسی معاشرے کا حصہ نہیں ہیں، جہاں عورت کو شوہر کی موت کے بعد اس کی چتا میں زندہ جلنا پڑتا تھا۔اگر راجہ رام موہن رائے ستی کی اس انتہائی ظالمانہ رسم کے خلاف محاذ آرائی نہیں کرتے توان کے سماج میں بیوہ عورتیں آج بھی زندہ جل رہی ہوتیں۔کھجوراہو کے مندروں کے درودیوار پر جنسی اشتعال پیدا کرنے والی نقاشی آخر کس بات کی نشانی ہے۔جو لوگ آج مسلمان عورتوں پر کیچڑ اچھال رہے ہیں، انھیں اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہئے کہ ان کے معاشرے میں عورت کی کیا حیثیت رہی ہے اور اسے کس طرح پاؤں کی جوتی بناکر رکھا گیا ہے۔ اسلام نے تو اپنی آمد کے ساتھ ہی عورت کو احترام کا درجہ دیا تھا۔ یہ اسلام ہی ہے جس نے ماں کے قدموں کے نیچے جنت کی نوید سنائی۔جس نے ماں،بہن،بیوی اوربیٹی کو عزت واحترام عطا کیا۔
آپ کو یادہوگا کہ کئی سال پہلے ورنداون کی داسیوں کی حالت زار پر ’واکر‘ کے نام سے ایک فلم بنانے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ اس فلم میں مرکزی کردار ادا کرنے کے لیے اداکارہ شبانہ اعظمی نے اپنے بال بھی منڈوادئے تھے تاکہ وہ ایک داسی کا بہتر کردار ادا کرسکیں، مگر اس فلم کی شوٹنگ سے پہلے ہی اتنی مخالفت ہوئی کہ فلم بنانے کا منصوبہ ہی خاک میں مل گیا۔اپنے معاشرے کے بدترین غیرانسانی رسوم ورواج پر پردہ ڈال کر مسلم معاشرے کو نشانہ بنانے والے عناصر سے ہم محض اتنا ہی کہنا چاہیں گے کہ وہ اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھیں۔مسلم خواتین کو نیلامی کے لیے پیش کرنے سے پہلے ان ہزاروں داسیوں کو جہنم کی زندگی سے نجات دلائیں، جو وندراون کے تہہ خانوں میں سسک رہی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔