میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بھینس کالونی ممنوعہ ادویہ کا سب سے بڑا مرکز، عدنان رضوی سرپرست

بھینس کالونی ممنوعہ ادویہ کا سب سے بڑا مرکز، عدنان رضوی سرپرست

ویب ڈیسک
جمعرات, ۱۰ جنوری ۲۰۱۹

شیئر کریں

رپورٹ (باسط علی) بدنام زمانہ ریجنل ڈرگ انسپکٹر عدنان رضوی ( بریف کیس کھلاڑی) لانڈھی کے علاقے بھینس کالونی میں اپنے منظور نظر ڈرگ انسپکٹر کو ہی تعینات کراتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی کے اس اس پسماندہ علاقے میں عدنان رضوی کی دلچسپی کا مرکز بوسٹن، سوماٹیک اور کھُلی اینٹی بایوٹک کی فروخت سے ہونے والی آمدنی ہے۔ جانوروں کے دود ھ کی مقدار بڑھانے کے لیے استعمال ہونے والے انجکشن آر بی ایس ٹی، بوسٹن250، بوسٹن5، سومائیک اور ایتھوسیل پر دنیا کے 250سے زائد ممالک میں پابندی عائد ہوچکی ہے۔ لیکن یہ ادویات علاقائی اور ریجنل ڈرگ انسپکٹرز کی مدد سے پورے پاکستان میں بلا خوف و خطر استعمال کی جارہی ہیں۔


ریجنل ڈرگ انسپکٹر عدنان رضوی کی بھینس کالونی میں دلچسپی کی وجہ بوسٹن، سوماٹیک اور کھلی اینٹی بایوٹک کی فروخت سے ہونے والی آمدنی ہے

چند ماہ قبل ایک ڈرگ انسپکٹر نے بھینس کالونی میں چھاپہ مار کر باڑوں سے بڑی تعداد میں بوسٹن انجکشن برآمد کیے، جنہیں گٹر لائن کے اندرایک ریفریجریٹرز میں چھپا کر رکھا گیا تھا۔ اس کارروائی کوعدنان رضوی کے ایما پر دبا دیا گیا۔عام طور پر ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے کرپٹ افسران پہلے ایک کارروائی کرتے ہیں اور پھر اس کارروائی پر اپنی دُکان سجا لیتے ہیں۔


واضح رہے کہ ریجنل ڈرگ انسپکٹر سندھ ہونے کی حیثیت سے کراچی میں بوسٹن اور دیگر ممنوعہ ادویات کی روک تھام کی ذمہ داری عدنان رضوی پر ہی عائد ہوتی ہے لیکن شاید ’ بریف کیس‘ کی محبت میں وہ اپنی اس ذمہ داری کو نبھانے میں یکسر ناکام ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بنچ نے لاہور رجسٹری میں ملاوٹ شدہ دودھ کی فروخت کے خلاف ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی تھی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے بھینسوں کو لگائے جانے والے ٹیکوں میں استعمال ہونے والے کیمیکل کی درآمد پر پابندی کا حکم امتناعی خارج کرتے ہوئے بھینسوں کو ٹیکے لگانے پر پابندی عائد کردی تھی۔ سپریم کورٹ نے بھینسوں کو زائد دودھ کے حصول کے لیے لگائے جانے والے آر وی ایس ٹی نامی ٹیکوں کی فروخت پر بھی پابندی عائد کرتے ہوئے کمپنیوں کا تمام اسٹاک فوری قبضے میں لینے کا حکم دیا تھا۔ جبکہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان کے چیف آپریٹنگ آفیسر ڈاکٹر اسلم افغانی نے سینیٹ کے اجلاس میں اس بات کا اعتراف بھی کیا تھا کہ جانوروں کی بہت سی ممنوعہ اور غیر معیاری ادویات پاکستان میں بآسانی دستیاب ہے جن پر پابندی عائد ہونی چاہیے۔


ڈاکٹرز ڈیری فیڈ نامی کمپنی 8 ہزارانجکشن فروخت کرتی تھی، پابندی کے بعد ڈرگ انسپکٹرز کی سرپرستی میں اس انجکشن کی فروخت روزانہ 20ہزار تک بڑھ گئی


کراچی میں بھینس کالونی بیرون ملک سے درآمد ہونے والے ان انجکشن اور ممنوعہ ادویہ کی خرید و فروخت کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ ان انجکشن کے استعمال سے جانوروں کی تولیدی صلاحیت کم اور اوسط عمر دو سے تین سال رہ جاتی ہے۔ اس انجکشن کی وجہ سے حاصل ہونے والے دودھ سے صرف کراچی کے ہی ہزاروں شہری کینسر، ہیپاٹائٹس، اور دیگر موذی امراض کے شکار ہورہے ہیں۔


درسگاہیں بھی’ بریف کیس کھلاڑی‘ کی دسترس سے محفوظ نہیں

جرأت کی تحقیقات میں یہ انکشاف ہو اہے کہ جنا ح یونیورسٹی برائے خواتین شعبہ فارمیسی کی طالبات کی ڈگریاں ان کے علم میں لائے بنا نئے لائسنس کے اجرا میں استعمال ہورہی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عدنان رضوی ناظم آباد میں واقع جنا ح یونیورسٹی برائے خواتین شعبہ فارمیسی کے ایک کلرک سے ملی بھگت کر کے انوکھے طریقے سے جعل سازی کر رہا ہے۔ اپنے اس مذموم دھندے میں عدنان رضوی سال آخر کی طالبات کی ڈگریوں کی فوٹوکاپیاں حاصل کرکے اس پر نئے لائسنس جاری کر رہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اصولاً تو لائسنس فیس پر حق اس طالبہ کا ہے جس کے نام پر لائسنس جاری کیا جارہا ہے، لیکن عدنان رضوی فوٹو کاپی میں کسی اور لڑکی کی تصویر لگا کر اس کی بنیاد پر نئے لائسنس بنوا رہا ہے۔ اور طالبہ کو دی جانے والی رقم بھی اس بدعنوان کلرک کے ساتھ مل کر ہڑپ کر رہا ہے۔ ایسے کچھ لائسنس کی نقول ادارہ جرأت کے پاس محفوظ ہیں تاہم طالبات کی شناخت مخفی رکھنے کی غرض سے انہیں شائع نہیں کیا جارہا۔


کراچی میں اس انجکشن کو فروخت کرنے والی سب سے بڑی کمپنی ڈاکٹرز ڈیری فیڈ پرائیوٹ لمیٹڈ ہے۔ یہ کمپنی انڈیا سے ویٹرینری کی تعلیم حاصل کرنے والے ڈاکٹر عباس نے 1995 ء میں اپنے بھائی نوشیرواں مرچنٹ کے ساتھ مبینہ طور پر شراکت داری میں قائم کی تھی۔ مذکورہ کمپنی نے مویشیوں کی فیڈ سے اپنے کام کا آغاز کیا تھا تاہم جب ڈیری فارمرز اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی ملی بھگت سے 1997 ء میں بوسٹن کی فروخت کو جائز قرار دیا گیا تو اس کام سے وابستہ لوگوں کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں آگیا۔ تاہم جب بوسٹن انجکشن پر پابندی عائد کی گئی تو ڈاکٹر عباس نے اسے بلیک مارکیٹ میں دو سے تین ہزار روپے فی انجکشن فروخت کرنا شروع کر دیا۔ پابندی لگنے سے قبل یہ کمپنی روزانہ 8 ہزارانجکشن فروخت کرتی تھی، تاہم پابندی عائد ہونے کے بعد ڈرگ انسپکٹرز کی سرپرستی میں اس انجکشن کی روزانہ کی فروخت بڑھ کر 20ہزار سے تجاوز کرگئی تھی۔ اس بلیک مارکیٹ سے ڈاکٹر عباس نے صرف بھینس کالونی میں 30سے زائد پلاٹ خریدے، کراچی کے پوش علاقوں میں خریدی گئی جائیدادیں اور50سے زائد گاڑیاں اس کے علاوہ ہیں۔ اس انجکشن کی فروخت سے ہونے والی آمدنی کا اندازا اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی وجہ سے بھینس کالونی کئی بار میدان جنگ اور اس جنگ کا اختتام 30اگست 2015کو ڈاکٹر عباس کے قتل پر ہوا۔


ماہانہ کروڑوں منافع دینے والے ممنوعہ انجکشن کے کاروبار پر قبضے کی جنگ نازنین مختار ، قاسم بادامی اور فریق دوم ڈاکٹر نوشیرواں مرچنٹ کے درمیان جاری ہے


ڈاکٹر عباس کی موت کے بعد ان کے بھائی نوشیرواں مرچنٹ نے اس کاروبار پر قابض ہونے کی کوشش کی جسے ڈاکٹر عباس کی اہلیہ اور بچوں نے ناکام بنا کر ساری جائیداد اپنے نام کرالی، اس وقت اس کمپنی کے معاملات ڈاکٹر عباس کا بیٹا علی مرچنٹ اور قاسم بادامی دیکھ رہے ہیں، جب کہ ڈاکٹر نوشیرواں نے فیصل آباد میں فیڈ مل کھول لی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سارے معاملے میں ڈاکٹر عباس کے برادرِ نسبتی قاسم بادامی اور اس کے جگری دوست عدنان رضوی کا کردار بہت پُراسرار رہا ہے۔ چند ماہ قبل ایک ڈرگ انسپکٹر نے بھینس کالونی میں چھاپہ مار کر باڑوں سے بڑی تعداد میں بوسٹن انجکشن برآمد کیے، جنہیں گٹر لائن کے اندر رکھے گئے ریفریجریٹرز میں چھپا کر رکھا گیا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ساری کارروائی کوعدنان رضوی کے ایما پر دبا دیا گیا۔ عام طور پر ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کا یہی طریقۂ واردات ہوتا ہے کہ اس کے کرپٹ افسران پہلے ایک کارروائی کرتے ہیں اور پھر اس کارروائی پر اپنی دُکان سجا لیتے ہیں۔

ماہانہ کروڑوں روپے منافع دینے والے اس کاروبار پر قبضے کی جنگ فریق اول نازنین مختار ، قاسم بادامی اور فریق دوم ڈاکٹر نوشیرواں مرچنٹ کے درمیان جاری ہے، اور عدنان رضوی اس سارے معاملے میں قاسم بادامی سے دوستی کا حق ادا کر رہا ہے۔گزشتہ سال 31 ؍مارچ کو نازنین مختار اینڈ کو، کے بھینس کالونی کے پلاٹ نمبر 203۔A پر واقع احاطے پر چھاپہ مارا گیا، یہ چھاپہ مار ٹیم سپریم کورٹ آف پاکستان کی ہدایات پر تشکیل دی گئی تھی جس میں ریجنل انسپکٹر آف ڈرگز سید عدنان رضوی، پی آئی ڈی طاہر غفار خانزادہ اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے افسران نجم الثاقب، عبدالرسول شیخ، صہیب مغل اوران کا عملہ شامل تھا۔ اس چھاپہ مار کارروائی میں بڑے پیمانے پر جعلی ادویات کا اسٹاک قبضے میں لیا گیا جس کا اندراج ڈرگ ریگولیٹری کے قواعد کے مطابق فارم 3 میں موجود ہے، اس کیس کو مزید کارروائی کے لیے پروونشل کوالٹی بورڈ کراچی کو بھیج دیا گیا۔ قاسم بادامی اور ’بریف کیس کھلاڑی‘ عدنان رضوی کی ملی بھگت سے بھینس کالونی میں فروخت ہونے والی جعلی اور ممنوعہ ادویات اور پیسوں کی ہوس میں بے زبان جانوروں کو بھی نہ بخشنے والے عدنان رضوی کے مزید کرتوت آئندہ دنوں میں شاملِ اشاعت کیے جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھینس کالونی میں جرائم کی اس پنپتی دنیا پر کیوں چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ نیز سیکریٹری ہیلتھ نے اس پورے معاملے میں کیوں پراسرار خاموشی اختیار کررکھی ہے اور وہ کیوں عدنان رضوی ایسے کرپٹ افسر کو اپنے دفتر میں غیر معمولی رسائی دیتے ہیں؟


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں