مودی حکومت میں مسلمان ظلم و تشدد کا شکار
شیئر کریں
عبدالماجد قریشی
بھارتی تاریخ میں سال 2017 ملک میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہ تھا۔ اس سال گائے کے نام پر تشدد اور قتل وغارت عروج پر رہی۔ بھارتی اخبار کے مطابق 5 فیصد حملوں میں کوئی گرفتاری نہیں ہوئی جب کہ 13 فیصد میں الٹا متاثرہ افراد کے خلاف ہی پرچے کاٹ دیے گئے۔
بھارت میں مسلمانوں پر مظالم کی داستان کوئی نئی بات نہیں۔ کبھی مذہب کے نام پر قتل کیا جاتا ہے تو کبھی ذاتی انا کے مسائل میں تشدد پر قوم پرستی کے بھاشن کو دلیل کے طور پر قبول کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے سلوک سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں اپنے ہی ملک میں رہنے کا حق نہیں، سیکولرازم کا ڈھنڈورا پیٹنے والے بھارت میں مسلمان ظلم کی چکی میں پسنے لگے ہیں۔
ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد ملک میں مسلمانوں پر مظالم میں 100 فیصد اضافہ ہوا۔ مسلمانوں کے خلاف پْرتشدد واقعات میں سے بیشتر گائے کے نام پر دیکھنے میں آئے ۔بھارتی وزیراعظم نے بھارت کا بھیانک چہرہ چھپانے کے لیے اکا دکا واقعات کی دبے الفاظ میں مذمت بھی کی مگر انہیں روکنے کے لیے کوئی قدم نہ اٹھایا۔ افسوس ناک طور پر بھارتی قانون میں آج تک ایسے واقعات میں ملوث افراد کے لیے کسی سزا کا تعین نہیں کیا گیا۔ایسے ہی ایک واقعے میں گائے کا دودھ خریدنے والے انتہاپسندوں کے ہتھے چڑھ گئے۔ گائے کے نام پر تشدد کے دل دہلا دینے والے 52 فیصد واقعات محض افواہوں کی بنیاد پر ہوئے۔ ستمبر 2015 میں دادری میں گائے کا گوشت گھر میں رکھنے کی افواہ پر انتہاپسندوں نے 55 سالہ محمد اخلاق کو مار مار کر لہولہان کردیا اور اس کے بیٹے کو موت کے گھاٹ اتارڈالا جب کہ متاثرہ شخص کا ایک بیٹا بھارتی ایئرفورس میں ملازم ہے جو اس واقعے کے بعد سے اپنے خاندان کو بھارت میں غیرمحفوظ تصور کرتا ہے۔
اسی طرح کا ایک اور واقعہ مقبوضہ کشمیر میں عیدالاضحی کے بعد پیش آیا جہاں گھر میں دعوت رکھنے پر انتہاپسندوں نے رکن اسمبلی کو سیشن کے دوران ہی تشدد کا نشانہ بناڈالا۔ بھارت میں گائے کے نام پر تشدد کے خلاف آوازاٹھانا بھی محال ہوچکا ہے۔ بالی وڈ اسٹار عامرخان نے اسی معاملے پر لب کشائی کی تو انہیں لینے کے دینے پڑ گئے اور انتہاپسند سڑکوں پر نکل آئے تاہم عامرخان کو اپنے بیان کی وضاحت دینا پڑی۔گائے کے نام پر سرعام تشدد اور قتل وغارت سے لگتا ہے کہ بلوائیوں کو مودی سرکار کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کا بھارت میں جینا محال ہوتا جارہا ہے۔
بھارت میں مودی حکومت کا حالیہ دور انتہا پسند ہندو جماعتوں کے لیے سونے پر سہاگہ بنا ہوا ہے ،مسلمان اور دیگر اقلیتوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں مگر مودی حکومت ہے کہ اس نے بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر نہ صرف اپنی آنکھیں بند کی ہوئی ہیں بلکہ در پردہ انتہا پسندوں کی حکومتی سرپرستی بھی جاری ہے ۔ جبکہ مغربی بنگال میں حالیہ دنوں میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے بعد سیاست کا بازار گرم ہے۔ ایک طرف جہاں انتہا پسند جماعتوں نے ممتا بینر جی پر مسلمانوں کی خوشامد کے لیے ہندوؤں پر مظالم ڈھانے اور سونار بنگلہ کو بنجر زمین میں تبدیل کرنے کا الزام عائد کیا ہے وہیں فسادزدہ علاقوں میں بے گھر ہوئے مسلمانوں میں حکومت کے تئیں شدید ناراضگی اور غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق شمالی 24پرگنہ کے حالی میونسپلٹی کے مارواڑی کل اور بلور پارہ میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کی وجہ سے سینکڑوں افراد بے گھر ہیں۔ کنگا ندی کے کنارے بلور پارہ جہاں مسلمانوں کی 40سے 50گھروں پر مشتمل آبادی ہے وہاں کے باشندے گزشتہ 6دنوں سے بے گھر ہیں اوردہشت کا عالم یہ ہے کہ پولس انتظامیہ بھی ان کو گھر میں داخل ہونے میں مدد نہیں کررہی۔ بے گھر ہوئے لوگوں نے بھارتی میڈیا کو بتایا کہ یوم عاشورہ کے جلوس کے بعد پہلے ان پر حملہ کیاگیا۔ پھر اس کے بعد ان کے گھروں میں لوٹ مار کی گئی۔ وہ مقامی انتظامیہ ، کونسلرز ، ممبر اسمبلی سے مدد کی اپیل کرتے رہے مگر کوئی بھی مدد کرنے کو سامنے نہیں آیا جبکہ بی جے پی کی حکمران جماعت کا کہنا ہے کہا کہ اگر وہ اپنی جان بچانا چاہتے ہیں تو یہاں سے نکل جائیں۔لوگوں کا کہنا تھا کہ اس کے بعد ان کے گھروں کو لوٹ لیا گیا اور بعض گھروں کو آگ لگادی گئی۔
حاجی نگر، مارواڑی کل اور فساد زدہ علاقوں کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ فسادات حکمران جماعت کے لیڈران اورآر ایس ایس و بی جے پی کی ملی بھگت کا نتیجہ ہیں اور جان بوجھ کر یوم عاشورہ کے موقع پر فسادات برپا کیا گیا۔ حکومت کو پہلے سے ہی اطلاعات تھیں کہ ان علاقوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی ہونے والی ہے مگر یوم عاشورہ پر پولیس فورسز کا بندوبست نہیں کیا گیا اور اس کا ہی نتیجہ ہے کہ انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے محرم کے جلوس پر بمباری کی گئی اور اس کے بعد دوکانوں ، گھروں کو نذر آتش کیا گیا۔
پاکستان جیسا بھی ہے‘ یہاں مسلمان آزادی سے اپنے مذہبی عقائد انجام دے سکتے ہیں۔ پاکستانیوں کی اکثریت اقلیتوں کے حقوق کا بھی خیال رکھتی ہے۔ آج پاکستانی ہزارہا کارخانوں‘ کمپنیوں اور کارباروں کے مالک ہیں۔ کروڑوں پاکستانیوں کو زندگی کی آسائشیں میسر ہیں۔ تقسیم ہند سے قبل پنجاب،سرحد اور سندھ میں کاروبار و صنعت و تجارت پر ہندو و دیگر غیر مسلم چھائے تھے۔ پاکستان کو آزادی کی نعمت کے باعث ہی ساری خوشحالی نصیب ہوئی۔ نئی نسل کو خصوصاً اس عطیہ خداوندی کی قدر کرنی چاہیے۔
بھارت میں تقریباً بیس کروڑ مسلمان بستے ہیں۔ ان میں سے5تا 10 فیصد کو چھوڑ کر بقیہ مسلمان غربت‘ جہالت‘ اور بیروز گاری کا شکار ہیں۔وہ چھوٹی موٹی ملازمتیں کر کے اپنا اوراپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ بھارت میں ہندو قوم پرستی کا جن نمودار ہونے کے بعد یہی غریب ومسکین مسلمان نئی آفتوں کی زد میں ہیں۔ مسلمان ہونے کے باعث اب انہیں تعلیم حاصل کرنے ‘ ملازمت پانے اور گھر ڈھونڈنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ خصوصاً قصبوں اور دیہات میں ہندو انہیں اپنے ساتھ رکھنے کو تیار نہیں۔ شہروں میں بھی مسلمانوں کی الگ تھلگ آبادیاں نمودار ہو چکیں۔ ان آبادیوں میں زندگی کی بنیادی سہولیات بھی میّسر نہیں اور بیشتر مسلمان جانوروں کے مانند زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔