میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ٹر مپ انتظامیہ کو فیصلے پر نظرثانی پر مجبور کیا جاسکتا ہے

ٹر مپ انتظامیہ کو فیصلے پر نظرثانی پر مجبور کیا جاسکتا ہے

منتظم
بدھ, ۱۰ جنوری ۲۰۱۸

شیئر کریں

امریکی رویے کے پیش نظر پاکستان نے افغانستان میں موجود امریکی نیٹو افواج کی سپلائی روکنے پر غور شروع کردیا ہے۔ وزارت خارجہ کے سینئر اہلکاروں کے مطابق فی الحال اس آپشن پر غور کیا جارہا ہے تاہم ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ اس سلسلہ میں ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ سول اور عسکری حکام اس آپشن پر مشاورت کررہے ہیں اور اس حوالے سے جلد کوئی فیصلہ کرلیا جائیگا۔ اہلکار کے بقول پاکستان یہ آپشن استعمال کرکے امریکا کو بہتر جواب دے سکتا ہے۔ واضح رہے کہ کابل میں امریکی فوج کی خوراک اور دیگر فوجی سازوسامان پاکستان کے ذریعے جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں حکومت پر اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے بھی دباؤ ہے کہ امریکا کو سخت جواب دیا جائے تاہم حکومت کا موقف ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کیخلاف جنگ اپنے وسائل سے لڑی ہے۔ دوسری جانب امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس کا کہنا ہے کہ پاکستان نے نیٹو سپلائی بند کرنے کے حوالے سے ابھی کوئی اشارہ نہیں دیا۔ انہوں نے اس بات کا بھی حوالہ دیا کہ پاکستان میں امریکی سفیر جوزف وٹل نے حال ہی میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو فون کرکے نیٹو سپلائی کے حوالے سے بات کی ہے۔ ذرائع کے مطابق امریکا نیٹو سپلائی کے لیے دیگر روٹس پر بھی غور کررہا ہے تاہم پاکستان کے ذریعے سپلائی انتہائی آسان اور سستی ہے۔ ذرائع کے مطابق پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کی طرف سے حکومت پر امریکا کی سپلائی بند کرنے کے لیے زور ڈالا جارہا ہے تاہم حکومت اس حوالے سے کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے تمام پارٹیوں سے مشاورت کریگی جس کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس جلد بلائے جانے کا امکان ہے۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق امریکا میں پاکستان کے سفیر اعزاز چودھری نے ایک انٹرویو میں باور کرایا ہے کہ کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں امریکا پاکستان کا ایک ارب ڈالر کا مقروض ہے۔ اگر امریکا نے حساب کرنا ہے تو پورا کیا جائے۔

پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کی جنگ میں فعال کردار ادا کرنے‘ دہشت گردوں کے تمام ٹھکانوں پر بے لاگ اور بلاامتیاز اپریشن کرنے اور بے بہا جانی اور مالی قربانیاں دینے کے باوجود ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا اور اسکی امداد بند کرنے اور اس کا فرنٹ لائن اتحادی کا ا سٹیٹس ختم کرنے کی دھمکیوں کے بعد عملاً پاکستان کی فوجی معاونت بشمول جنگی سازوسامان کی فراہمی بند کردی‘ وہ پاکستان کے لیے کسی دھچکے سے کم نہیں جبکہ خودمختار ایٹمی ملک ہونے کے ناطے پاکستان ایسی دھمکیوں اور یکطرفہ اقدامات خاموشی سے قبول کرنے کا بھی روادار نہیں ہو سکتا۔ اگر آج پاکستان میں مستحکم حکومت قائم ہوتی‘ قومی لیڈرشپ اپنی سیاسی بقاء کی جنگ نہ لڑر ہی ہوتی اور تمام سول و عسکری قیادتیں دفاع وطن کے تقاضے نبھانے کے لیے ایک صفحے پر کھڑی نظر آتیں تو ٹرمپ انتظامیہ ہمارے ساتھ کبھی ایسا رویہ اختیار نہ کرتی۔ پاکستان کو یہ مجبوری بھی لاحق ہے کہ اسے دیرینہ دشمن بھارت کی جنگی جنونیت اور جارحانہ عزائم کے توڑ کے لیے اپنے دفاعی حصار کو بہرصورت مضبوط رکھنا ہے جس کے لیے افواج پاکستان کا ہر قسم کے جدید اور روایتی ہتھیاروں سے لیس ہونا ضروری ہے۔ اس معاملہ میں پاکستان کا امریکا پر تکیہ ہے کیونکہ جدید جنگی سازوسامان اسے فرنٹ لائن اتحادی کے کردار کے عوض امریکا ہی فراہم کررہا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کو یقیناً پاکستان کی اس مجبوری کے ناطے بھی اسے ’’ڈومور‘‘ کے لیے بلیک میل کرنے کا موقع ملا جبکہ پاکستان میں پنپنے والی سیاسی عدم استحکام کی فضا سے بھی امریکا کو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے فائدہ اٹھانے کا موقع ملا چنانچہ ٹرمپ انتظامیہ کو نہ صرف پاکستان کی فوجی امداد روکنے میں آسانی محسوس ہوئی بلکہ وہ پاکستان پر عالمی اقتصادی پابندیاں لگوانے کی بھی دھمکیاں دیتی نظر آتی ہے۔ اس صورتحال میں یا تو ہماری قومی سیاسی اور عسکری قیادتوں کو ملکی دفاع کے تقاضوں کے تحت یکجہت ہوکر ٹرمپ انتظامیہ کو اسکے اقدامات اور دھمکیوں پر مسکت جواب دینا ہے یا ایسی دفاعی پوزیشن اختیار کرنی ہے کہ پاکستان کے لیے عالمی اقتصادی پابندیوں کی نوبت نہ آئے اور امریکا اسکی فوجی معاونت بھی بحال کرنے کی راہ پر آجائے۔ اس کے لیے بہرصورت ہمارے حکام کو ملکی سلامتی اور قومی مفادات کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر کوئی ٹھوس حکمت عملی طے کرنی ہے۔ حکومت یقیناً اسی بنیاد پر شش و پنج میں پڑی ہے کہ امریکا کو سخت جواب دیا جائے یا اسکے ساتھ اعتماد سازی کی بحالی کے لیے پیش رفت کی جائے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ اس خطہ میں دہشت گردی کی جنگ سے عہدہ برآ ہونے کے لیے امریکا کا پاکستان پر ہی انحصار ہے جس کے تعاون اور لاجسٹک سپورٹ کے بغیر افغانستان میں امن کی بحالی امریکا کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگی۔ افغانستان میں نیٹو فورسز کی موجودگی کے دوران پاکستان سے ہی امریکا کو سب سے بڑی سپورٹ حاصل رہی ہے جس میں پاکستان کے چار ایئربیسز بھی شامل تھے جہاں سے نیٹو فورسز کے جہاز اور گن شپ ہیلی کاپٹر اڑان بھر کر افغانستان ہی نہیں‘ پاکستان کے اندر بھی دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر بمباری کرتے تھے۔ اسی طرح نیٹو کی سپلائی لائن کا پاکستان پر ہی دارومدار تھا جس کے لیے جنگی سازوسامان اور خوراک لے جانیوالے نیٹو فورسز کے بھاری ٹرک اور کنٹینر پاکستان کی سڑکوں کو ادھیڑتے ہوئے افغانستان پہنچتے تھے۔ اگر یہ سپلائی لائن وسطی ایشیائی ریاستوں کے راستے سے گزاری جاتی تو امریکا کو چھ گنا زیادہ اخراجات اٹھانا پڑتے اور دشوار گزار راستوں سے آنے کی اذیت الگ ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ جب نیٹو فورسز کی جانب سے پاکستان کی سلالہ چیک پوسٹوں پر حملے کے ردعمل میں پاکستان نے نیٹو کی سپلائی معطل کی تو امریکا پاکستان کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگیا۔ اس وقت پیپلزپارٹی برسراقتدار تھی جس کی حکومتی سیاسی قیادت نے بہرصورت ملکی اور قومی مفادات کے تقاضوں کے تحت نیٹو سپلائی روکنے کا فیصلہ کیا جس کے لیے اس نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر قومی اتفاق رائے کی فضا ہموار کی اور پھر نیٹو سپلائی اس وقت تک معطل رہی جب تک امریکا پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری کی پاسداری کا تحریری معاہدہ کرنے کی راہ پر نہ آگیا۔ اسی طرح 1988ء میں بھی پیپلزپارٹی ہی کی حکومت تھی جب امریکا نے یہ تصور کرکے کہ پاکستان کی قیادت ایک خاتون (بے نظیر بھٹو) کے ہاتھ میں ہونے کے ناطے پاکستان کی ریاستی اتھارٹی میں کمزوری درآئی ہوگی‘ بھارت اور اسرائیل کو ساتھ ملایا اور پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کو فضائی حملے کے ذریعے اڑانے کی سازش کی تاہم اسکی بھنک پڑتے ہی اس وقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور صدر مملکت غلام اسحاق خان نے امریکا اور بھارت دونوں کو ایسا دوٹوک جواب دیا کہ انہیں اپنی سازش کو عملی جامہ پہنانے کی جرات ہی نہ ہوسکی۔

آج بھی ملک میں ایسی مضبوط قیادت موجود ہو اور سیاسی عدم استحکام کی بنیاد پر پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری کو کسی قسم کا خطرہ لاحق نہ ہو تو ٹرمپ انتظامیہ کو اسی کے لب و لہجے میں جواب دیا جا سکتا ہے اور یہ جواب نیٹو سپلائی لائن روکنے کے ساتھ ساتھ اس کا ڈرون گرا کر بھی دیا جا سکتا ہے مگر ہماری مشکل یہی ہے کہ آج حکمران مسلم لیگ (ن) کی قیادت اپنی سیاسی بقاء کی جدوجہد میں مصروف ہے جس نے اداروں کے ساتھ محاذآرائی کا راستہ اختیار کرکے سول اور عسکری قیادتوں کے ایک صفحے پر آنے کے امکانات بھی معدوم کردیئے ہیں چنانچہ امریکا اور بھارت کو پاکستان کی ان اندرونی کمزوریوں سے ہی فائدہ اٹھانے کا موقع ملا ہے ورنہ تو ٹرمپ انتظامیہ کو پاکستان کے ساتھ درشت لہجے میں بات کرنے اور اسکی فوجی امداد روکنے کا کبھی خیال ہی نہ آتا۔ آج بھی امریکی میڈیا پاکستان کے ساتھ روا رکھے گئے ٹرمپ انتظامیہ کے رویے پر سیخ پا ہے اور امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے امریکی حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کرائی ہے کہ پابندیوں کے جواب میں پاکستان امریکا کو فراہم کی گئی رسائی بند کر سکتا ہے۔ اس صورتحال میں ٹرمپ پاکستان کو چھوڑنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اگر پاکستان کی جانب سے بھی ٹرمپ انتظامیہ کو یہی عندیہ مل جائے تو یقیناً وہ پاکستان کے ساتھ روا رکھی گئی اپنی موجودہ پالیسی پر نظرثانی پر مجبور ہوگی تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ دفاع وطن کے لیے تمام قومی سیاسی اور عسکری قیادتیں اٹل انداز میں ایک صفحے پر کھڑی نظر آئیں۔

اگر اس وقت بھی سیاسی سطح پر پاکستان کی کمزور نظر آنیوالی پوزیشن کے باوجود امریکی جنرل جوزف وٹل پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ سے ٹیلی فونک رابطہ کرکے ان سے نیٹو سپلائی سمیت تمام اہم امور پر تبادلہء خیال کررہے ہیں اور امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس پاکستان کی عسکری امداد بند کیے جانے کے باوجود پینٹاگون کے پاکستان کی عسکری قیادت سے رابطے کا عندیہ دے رہے ہیں تو افغان جنگ میں پاکستان کی اہمیت کا احساس دلا کر ٹرمپ انتظامیہ کو پاکستان بارے اپنے سخت گیر فیصلوں پر نظرثانی پر بھی مجبور کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے یہ صورتحال بھی خوش آئند ہے کہ پاکستان نے اپنی تینوں مسلح افواج کے لیے ہتھیاروں اور آلات کی خریداری و تیاری کو امریکا کے بجائے چین‘ ترکی‘ جنوبی کوریا‘ جنوبی افریقہ اور روس کی منڈیوں میں منتقل کردیا ہے۔ اس طرح دفاع و سلامتی کے شعبہ میں امریکا کی امداد پاکستان کی مجموعی دفاعی تیاریوں میں اب کلیدی عنصر نہیں رہا۔ اس حوالے سے ہمارے دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر امریکا سلامتی کے شعبہ میں ہماری امداد کی مکمل بندش اور پاکستان کی جدید ترین ملٹری ٹیکنالوجی تک رسائی محدود کرتا ہے تو پاکستان اسکے جواب میں اسکے ساتھ انٹیلی جنس تعاون اور مغربی فضائی راہداری کو محدود کر سکتا ہے جس کا دہشت گردی کی جنگ کے حوالے سے امریکا متحمل نہیں ہو سکتا۔اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری سول اور عسکری قیادتیں ملکی اور قومی مفادات کو پیش نظر رکھ کر ہوشمندی سے کام لیں اور امریکی پابندیوں پر جذبات کی رو میں بہنے کی بجائے اجتماعی شعور کو بروئے کار لا کر ایک مربوط حکمت عملی کے تحت کوئی ٹھوس اور جامع اقدام اٹھایا جائے تاکہ ملکی سلامتی اور قومی مفادات کو کسی قسم کا نقصان پہنچنے کی نوبت بھی نہ آئے اور قومی خودداری و خودمختاری کے تقاضے بھی پورے ہو جائیں۔ اس کے لیے سب سے پہلے قومی یکجہتی کی فضا مستحکم بنانا ضروری ہے جس کی خاطر حکمران مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو بہرصورت اپنی انا کے خول سے خود کو باہر نکالنا ہوگا۔
(تجزیہ)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں