میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اسلامی بینکاری کا نیا منصوبہ

اسلامی بینکاری کا نیا منصوبہ

منتظم
منگل, ۱۰ جنوری ۲۰۱۷

شیئر کریں

ریاستی ضمانت کے تحت چھپنے والے کاغذی نوٹوں کا زمانہ بھی آیا، جسے پلاسٹک منی یعنی اسمارٹ کارڈز نے پیچھے چھوڑ دیا
نئے بینکوں کو لائسنس نہیں جاری کیے جارہے ہیں بلکہ لائسنس کا اجراءمحض اسلامی بینکاری کرنے والے بینکوں کےلئے ہو رہا ہے
پاکستان کے مرکزی بینک اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ملک میں اسلامی بینکاری کے فروغ کے لیے نئی حکمت عملی ترتیب دی دہے۔منصوبے کے تحت اگلے پانچ برسوں میں ملک کے اندر اسلامی بینکاری کی موجودہ قریب نو فیصد شرح کو بڑھا کر اٹھارہ سے بیس فیصد تک لے جانے کی کوشش کی جائے گی۔صنعتی و تجارتی پیمانے پر سرمائے اور سامان کی لین دین کا طریقہ برسہا برس سے تبدیلی کا سفر طے کر رہا ہے، کسی زمانے میں سامان کے بدلے سامان کی تجارت عام تھی، پھر سونے، چاندی اور دیگر دھاتی سکوں کی صورت میں کرنسی کا رواج چل پڑا، ریاستی ضمانت کے تحت چھپنے والے کاغذی نوٹوں کا زمانہ بھی آیا، جسے پلاسٹک منی یعنی اسمارٹ کارڈز نے پیچھے چھوڑ دیا۔اب بالخصوص اسلامی ممالک میں اس لین دین کے طریقہءکار یا اصولوں میں تبدیلی کا چرچا ہے۔ ان ممالک میں کافی عرصے سے اب مذہبی عقائد کی بنیاد پر بڑے پیمانے کی سرمائے کاری کو جانچا جاتا ہے اور مالیاتی ادارے شرعی اصولوں کے مطابق اپنی ضمنی شاخیں یا نئے بینک کھول رہے ہیں۔ ملائیشیا میں یہ رجحان دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے جہاں کا مرکزی بینک گزشتہ 25 برس سے اسلامی بینکاری کے فروغ کے لیے سرگرم ہے۔
بینک دولت پاکستان نے سال 2020ءتک کے اپنے نئے منصوبے میں کچھ اہم اہداف متعین کیے ہیں۔ بینک ذرائع کے مطابق محصولات کی شرح اور دیگر ریاستی پالیسیوں میں نرمی کرکے اگلے پانچ برسوں میں اسلامی بینکاری کی موجودہ قریب نو فیصد شرح کو بیس فیصد تک لے جانے کا منصوبہ ہے۔ یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ روایتی بینکاری کرنے والے نئے بینکوں کو لائسنس نہیں جاری کیے جارہے ہیں بلکہ لائسنس کا اجراءمحض اسلامی بینکاری کرنے والے بینکوں کیلئے ہو رہا ہے۔اسٹیٹ بینک میں اسلامی بینکاری امور کے ڈائریکٹر سلیم اللہ نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں کہا کہ نئی حکمت عملی مالیاتی شعبے کے فریقین کے ساتھ مل کر مشاورت کے بعد تیار کی گئی ہے۔
"ہماری کوشش ہوگی کہ پالیسی انوائرنمنٹ، ریگولیٹری انوائرنمنٹ اور انویسٹمنٹ انوائرنمنٹ کو زیادہ سے زیادہ بہتر بنایا جائے”۔گزشتہ برسوں کے دوران پاکستان میں اسلامی سرمایہ کاری کے نام پر کچھ جعلی مضاربہ منصوبوں میں لوگوں کے کروڑوں روپے ڈوب چکے ہیں، جس کے سبب اسلامی بینکاری کی ساکھ بھی متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔ مذکورہ مضاربہ منصوبوں میں نامور مذہبی اداروں کے نام بھی استعمال کیے گئے تھے۔ جامعہ بنوریہ العالمی کے مفتی نعیم کے بقول انہوں نے ایک اشتہار کے ذریعے لوگوں کو خبردار کردیا تھا۔ ا±ن کے بقول،”ہمارے سامنے الائنس موٹرز، ڈبل شاہ اور صمد دادا بھائی کی مثالیں ہیں، تو ہم نے لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ یہ لوگ پیسہ لے کر بھاگ چکے ہیں اور آپ کا پیسہ بھی لے جائیں گے۔” ایسی صورتحال میں لوگوں کے اندر اسلامی بینکاری کے حوالے سے اعتماد سازی اسٹیٹ بینک کے اولین اہداف میں سے ایک ہے۔ نئی اسٹریٹیجی کے تحت ایک آگہی مہم چلائی جائے گی، جس میں لوگوں کو ریاستی قوانین کے مطابق شرعی بینکاری کے حوالے سے معلومات فراہم کی جائے گی۔
بینک ذرائع کے مطابق اب چھوٹے اور درمیانے درجے پر بچت کے لیے اسلامی بانڈز بھی اجراءکے قریب ہے، جن کی اب محض وزارت مالیات سے منظوری کا مرحلہ طے ہونا باقی ہے۔ یاد رہے کہ بڑے سرمایہ کاروں کے لیے اسٹاک مارکیٹ میں پہلے سے ہی اسلامی بانڈز موجود ہیں۔پاکستان میں اس وقت قریب پانچ ک±ل وقتی اسلامی بینک کام کررہے ہیں، جبکہ کئی روایتی بینکوں نے بھی ضمنی طور پر اسلامی بینکاری شروع کر رکھی ہے۔ ان بینکوں نے مفتی صاحبان کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں، جو اپنے صارفین کی رہنمائی کرتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اب تک اسلامی بینکاری کا رجحان توقعات کے برعکس دیہی علاقوں کے بجائے شہری علاقوں اور بالخصوص کراچی میں زیادہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔اس وقت عالمی اسلامی بینکاری کا 91 فیصد حصہ ملائیشیا اور خلیجی ممالک میں ہے ،جبکہ محض دو فیصد حصہ پاکستان میں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں