بلدیاتی نظام ،یا پھر بالکل دیہاتی نظام؟
شیئر کریں
ایک بات تو ہم سب ،پہلے ہی سے بہت اچھی طرح جانتے تھے کہ چونکہ سندھ اسمبلی کے ایوان میں پاکستان پیپلزپارٹی کو غیر معمولی برتری اور واضح اکثریت حاصل ہے ،اس لیے اپو زیشن جماعتیں چاہے جتنا شور شرابا کرلیں ،یا سندھ اسمبلی کو گھیرے میں لے کر اس کے داخلی و خارجی راستے عارضی طو ر پر بند کر وادیں، یا چاہے احتجاجی سیاست سے آسمان ہی کیوں نہ اپنے سرپر اُٹھالیں بہرحال نیا بلدیاتی قانون ،پیپلزپارٹی اپنی مرضی ، منشا اور مستقبل کے سیاسی اہداف کوپیش نظر رکھ ہی بنائے گی۔ لیکن سندھ اسمبلی سے منظور کیا جانے والا نیا بلدیاتی قانون اس درجہ ’’یک جماعتی‘‘ مفادات کا آئینہ دار ہوگا،کم ازکم ایسی توقع ہرگز کسی کو پیپلزپارٹی جیسی جمہوری جماعت سے نہ تھی۔ کہنے کو تو بلدیاتی قانون میں کی گئی تمام ترامیم سندھ کی عوام کو پہلے سے زیادہ بااختیار اور طاقت ور بنانے کے لیئے کی گئی ہیں ۔ مگر حقیقت میں نئے بلدیاتی قانون کے تحت انعقاد پذیر ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے بعد بلدیاتی اداروںاور اُن میں متمکن ہونے والے افراد کی اہمیت و حیثیت پرکاہ برابر بھی نہیں رہے گی۔ عین ممکن ہے کہ اس نئے بلدیاتی قانون کی روشنی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں کھڑا کرنے کے لیئے صوبہ بھر میں کسی سیاسی جماعت بشمول پیپلزپارٹی کو سرے سے اُمید وار ہی نہ ملیں ۔
کیونکہ بلدیاتی قانون میں نئی ترامیم کے تحت بلدیاتی اداروں کو حاصل بنیادی نوعیت کے اختیارات اور ذمہ داریاں بھی حکومت سندھ خود اپنے ذمہ لے لی لیں ہیں ۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ سندھ کے نئے بلدیاتی ترمیمی ایکٹ کے تحت صوبے میں نافذ العمل بلدیاتی نظام کی پوری ہیت کذائیہ کو یکسر تبدیل کردیا گیا ہے۔ نئے قانون کے تحت ضلع کونسل ختم کرکے ٹاؤن میونسپل کارپوریشن قائم کی جاِئیں گی۔جبکہ میونسپل ٹاؤن کی آبادی ایک لاکھ 25 ہزار تک ہوگی اور میٹروپولیٹن کارپوریشن کی حددد میں کوئی دیہی علاقہ شامل نہیں ہوگا۔نیز نئے بلدیاتی قانون میں میٹروپولیٹن سسٹم میں اضلاع کا پرانا نظام ختم کرکے ٹاؤن نظام متعارف کرایا گیا ہے۔جس میں اَب میئر،ڈپٹی میئر کا انتخاب شو آف ہینڈ کے بجائے خفیہ رائے شماری کے ذریعے کیا جائے گا۔ یعنی ٹاؤن میونسپل کونسل کے ارکان اپنے ساتھیوں میں سے ہی میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب کرسکیں گے۔علاوہ ازیں بلدیاتی اداروں کی مدت میعاد، حلف اٹھانے سے لیکر چار سال تک ہوگی اور میٹروپولیٹن کارپوریشن کی آبادی50لاکھ تک کردی جائے گی۔
دوسری طرف بلدیاتی قانون میں ترمیم کر کے کراچی سے ڈسٹرکٹ کونسل کو بھی مکمل طو رپر ختم کردیا گیاہے اوراَب ڈ سٹرکٹ کونسل کی جگہ ٹائون میونسپل کمیٹیاں ہوں گی۔المیہ ملاحظہ ہو کہ کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج،عباسی شہید ہسپتال، سوبھراج اسپتال، لیپروسی سینٹر، سرفراز رفیقی سینٹر جیسے اہم طبی ادارے بھی بلدیہ عظمی کراچی یعنی کے ایم سی سے لیکر سندھ حکومت کے حوالے کردیے گئے ہیں۔نیزپیدائش اور اموات کے رجسٹریشن سرٹیفیکیٹس کا کام بھی بلدیاتی اداروں سے واپس سندھ حکومت کو فراہم کردیا گیا ہے۔جبکہ نئے قانون کے تحت بلدیاتی ادارے صحت اور تعلیم کے کسی بھی شعبے میں کوئی ادنی سی خدمات بھی انجام نہیں دے سکیں گے اور پبلک ہیلتھ ،پرائمری ہیلتھ کے شعبے بھی آئندہ سے سندھ حکومت ہی چلایا کرے گی۔
علاوہ زایں تمام بڑے اسپتالوں کے علاوہ ، ڈسپنسریز، میڈیکل ایجوکیشن اور فرسٹ ایڈ جیسے چھوٹے موٹے عوامی خدمات کے اداروں کو بھی بلدیاتی اداروں کی دسترس سے باہر کردیا گیا ہے۔حد تو یہ ہے کہ فوڈ اینڈ ڈرنک کے قوانین بنانا اور ایسے اداروں کی رجسٹریشن کرنے کے اختیارات بھی چھین لیے گئے ہیں اور آئندہ سے بلدیاتی اداروں میں کام کرنے والا طبی عملہ بھی مکمل طور پر سندھ حکومت کے ماتحت آگیا ہے ۔ اَب آپ سوچ رہے ہوں گے آخر پھر بلدیاتی انتخابات میں منتخب ہونے والے عوامی نمائندے کریں گے کیا؟ تو جناب عرض یہ ہے کہ سندھ حکومت نے بلدیاتی قانون میں اگلی ایک اور نئی ترمیم آنے تک پبلک ٹوائلٹس کو مکمل طو رپر بلدیاتی نمائندوں کے زیر انتظام رکھنے کا فیاضانہ فیصلہ کیاہے۔
واضح رہے کہ سندھ بھر میں نافذ العمل ہونے والے نئے بلدیاتی قانون کو پاکستان پیپلزپارٹی کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں بشمول وفاق ِ پاکستان نے مکمل طوپر مسترد کردیا ہے۔ وفاقی وزیرمنصوبہ بندی اسد عمرنے سندھ حکومت کے بلدیاتی نظام کوعوام کیساتھ دھوکہ قراردیتے ہوئے سپریم کورٹ سے درخواست کی ہے کہ’’ وہ اس سلسلے میں دائرپٹیشن کی جلد سماعت کرے، کیونکہ سندھ کے ساتھ ناانصافی ہورہی ہے، جبکہ تحریک انصاف سندھ میں اس قانون کیخلاف تحریک بھی چلائے گی۔کراچی کو اس کا حق دلائیں گے، ظلم نہیں ہونے دینگے۔کیونکہ سندھ حکومت کے نئے بلدیاتی نظام کے ذریعے کراچی کے عوام کو رہے سہے اختیارات سے بھی محروم کردیا گیا ہے‘‘۔
حیران کن طور پر مسلم لیگ (ن) سندھ کے جنرل سیکرٹری سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بھی نئے بلدیاتی قانون کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ’’ پیپلز پارٹی کا وفاق میں اور صوبے میں الگ الگ چہرہ ہے۔ وفاق میں یہ فیڈریشن کی بات کرتے ہیں صوبے میں یہ عوامی و جموری حقوق سلب کرتے ہیں، پیپلز پارٹی نے بلدیاتی اختیارات پر حملہ کیا ہے، مزید اختیارات ختم کردئیے ہیں، پیپلز پارٹی شہریوں کے حقوق پر حملے جاری رکھی ہوئی ہے‘‘۔ جبکہ سابق گورنر سندھ محمد زبیر کا اس بلدیاتی قانون کے متعلق کہناتھا کہ’’ سندھ میں فنڈز کی تقسیم این ایف سی کی بنیاد پر ہونی چاہیے لیکن پہلے سب کی نیت صاف ہونی چاہیے، ن لیگ کے دورِ حکومت میں میں فیڈرل ٹیکس ریونیو ڈبل ہوا تو صوبے کو زیادہ پیسہ ملا۔ مگر سمجھ نہیں آتا کہ اندرون سندھ میں پیسہ کہاں لگ رہا ہے، اگر کراچی کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے تو کہیں تو پیسہ لگے‘‘۔یاد رہے کہ وفاقی سیاست میں پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن ایک دوسرے کی حلیف ہیں لیکن نئے بلدیاتی قانون نے مسلم لیگ ن کی قیادت کو بھی سندھ میں پاکستان پیپلزپارٹی کے خلاف سیاسی مہم جوئی میں شامل ہونے کا سنہرا موقع فراہم کردیا ہے۔
دوسری جانب ایم کیو ایم پاکستان نے بلدیاتی قانون میں ہونے والی ترامیم کے خلاف آل پارٹیز کانفرنس بلائی ہے ، جس میں دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر کوئی متفقہ حکمت عملی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ آنے والے انتخابات سندھ اسمبلی سے منظور شدہ نئے بلدیاتی قانون کے تحت ہی منعقد ہوں گے کیونکہ جو سیاسی جماعتیں بلدیاتی اداروں کی بحالی کے نام پر پیپلزپارٹی کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کے لیئے پر تول رہی ہیں ، اُصولی طور پر تو وہ بھی بلدیاتی اداروں کو مضبوط کرنے اور بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات دینے کی سخت مخالف ہی ہیں۔ اس لیئے پورے یقین اور شرح صدر کے ساتھ کہا جاسکتاہے کہ ہمارے ملک میں بلدیاتی نظام کے بجائے بالکل دیہاتی نظام کے پھلنے پھولنے کے امکانات انتہائی روشن ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔