شکستہ خوابوں کا قبرستان
شیئر کریں
مہمان کالم
مارک لینڈلر
پتوں سے اَٹے جنگل میں سے ڈرائیونگ کرتے ہوئے لندن کے شمال مشرق میں بیس میل کے فاصلے پر واقع ایپنگ قصبے کی ا سٹریٹ مارکیٹ کے پاس سے گزریں تو ایک ناگوار سا منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔یہاں لندن کی سیاہ ٹیکسیاں بمپر ٹوبمپر پارک کی گئی ہیں۔ارد گرد شہد کی مکھیوں کے چھتے لگے ہیں۔یہ کوویڈ کی وجہ سے ہونے والی معاشی تباہی کا منظر ہے جسے کسی بھی وقت کیمرے میں محفوظ کیا جا سکتا ہے۔جب مارچ میں برطانیا میں لاک ڈائون ہوا تو ٹیکسی ڈرائیورز نے یہ ٹیکسیاں کاروبار میں مندے کی وجہ سے اپنی رینٹل کمپنی کو واپس کر دی تھیں۔جب ان ٹیکسیوں کی تعداد بہت بڑھ گی تو کمپنی کو ایک مقامی زمیندار سے معاہدہ کرنا پڑا کہ وہ ا س کی دو سو گاڑیاں اپنی شہد کی مکھیوں اور کبوتروں کے پا س اپنے کھیت میں کھڑی کرنے دے۔ٹیکسی ڈرائیور ایسوسی ایشن جو لندن کی اکیس ہزار ٹیکسیوں میں سے نصف کی نمائندگی کرتی ہے‘ اس کے جنرل سیکرٹری ا سٹیو میکنامارا کہتے ہیں کہ میں تو اسے شکستہ خوابوں کا قبرستان کہتا ہوں۔ یہ بہت ہی افسوسناک منظر ہے اور روز برو ز بدترین صورت اختیا رکرتا جا رہا ہے۔
بدھ کے دن برطانیا اپنے دوسرے لاک ڈائون سے نکلا ہے‘ تاہم سخت پابندیاں برقرار ہیں اور نجانے لندن کی سڑکیں دوبارہ کب آفس ورکرز اور سیاحوں سے بھریں گی۔اس وقت لندن کی بیس فیصد ٹیکسیاں سڑکوں پر نظر آتی ہیں اور ڈرائیورز کورونا سے پہلے کے کرایوں کا ایک چوتھائی لے رہے ہیں۔اندازہ ہے کہ جون سے 3500سے زائد ٹیکسیاں شہرچھوڑ چکی ہیں۔انہیں پارکنگ لاٹس‘ گیراجز ‘ویئر ہائوسز او رشہرکے گرد و نواح کے کھیتوں میں کھڑا کر دیا گیا ہے۔میکنامارا جو ٹیکسی کمپنیوں کے خلاف ٹیکسی ڈرائیورز کی مسابقتی جنگ لڑرہے ہیں‘ کا کہنا ہے کہ کوویڈ ہمارے لیے سب سے بڑا خطرہ بن گیا ہے۔اگرحکومت نے ہماری مالی مدد نہ کی تو لندن بہت جلداپنی ا س معروف شناخت سے محروم ہو جائے گا جو سیاحوں کی زبان میں ڈبل ڈیکر بسوں‘فون باکسز ‘گنبد نما ہیلمٹ پہنے پولیس افسروں کے ساتھ شامل ہے یعنی لندن کی ٹیکسیاں۔اب بسوں کے رنگ اتنے سرخ نہیں رہے ‘فون باکسز بھی ختم ہو تے جا رہے ہیں اور پولیس والے سب مشین گنیں پکڑ کر بی ایم ڈبلیو گاڑیوں میں بیٹھتے ہیں۔اب لندن کے ان آئیکانز میں سے صرف ہم ہی بچے تھے او رخدشہ ہے کہ آئندہ تین سال بعد ہم بھی نظرنہیں آئیں گے۔ ان کالی ٹیکسیوں اور ٹیکسی کمپنیوں میں جاری جنگ پرنظررکھنے والوں کے نزدیک ٹیکسی ڈرائیورز اتنے ہمدر د نہیں ہوتے ان کی سروسز ہمیشہ مہنگی ہوتی ہیں۔سفید فام انگریز ٹیکسی ڈرائیورز زیادہ تر برطانیہ کے گئے گزر ے ویڑن کی ترجمانی کرتے ہیں جبکہ ا ن کے بعد رنگدار تارکین وطن ٹیکسی ڈرائیورز آتے ہیں جو اپنی ٹیکسی کے شیشوں پر ٹیکسی کمپنی کا سٹیکر لگائے ہوتے ہیں۔ آن لائن ٹیکسی کے کسٹمر سروس اور امیج پرابلم کے ساتھ ان کی لڑائی کی حدود ابھی واضح نہیں ہیں۔میکنامارا نے بتایا کہ اگرچہ ٹیکسی والوں نے بھی فون پے سافٹ ویئر کی مدد سے خود کوآن لائن ٹیکسی ایپس کی طرح ا سمارٹ کر لیا ہے اور لوگ اب کسی بھی کیب والے کو فون پر کال کر سکتے ہیں۔ان کی الیکٹرک کیب ماحولیاتی طو رپر بڑی صاف ستھری ہوتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر ہمیں کوویڈ جیسی وبا کا سامنا نہ کرنا پڑتا تو 2024ء تک ہمارے بیڑے میں شامل نوے فیصدٹیکسیاں پٹرول کے بجائے الیکٹرک پر چلی جاتیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کورونا وائرس کی وجہ سے ہونے والے لاک ڈائون نے برطانیا میں تجارت اور بزنس کو تباہی سے دوچا رکر دیا ہے۔ریان سپیڈنگ جو عرصہ نو سال سے ایک کیب چلا رہا ہے اس وقت کو یاد کرتا ہے جب برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن مارچ کے مہینے میں ٹی وی پر یہ اعلان کرنے کے لیے گئے تھے کہ آج شام سے میں اپنے برطانوی ہم وطنوں کو یہ ہدایت جاری کررہا ہوں کہ آپ اپنے اپنے گھروں میں رہیں۔ اگلے دن ریان سپیڈنگ جن کی عمر چوالیس سال ہے اپنی ٹیکسی میں لندن شہر میں گئے تاکہ وہاں تاریک شاپس‘ویران آفس ٹاورز اور ویران ریلوے سٹیشنزوالے اجڑے شہر کو ڈھونڈ سکیں۔عام طو رپر پْرہجوم پکاڈلی اور لیسٹر ا سکوائر میں اڑتے ہوئے پتے شہر کی ویرانی کی عکاسی کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔اس نے بتایا کہ آپ دو تین گھنٹے تک اپنی ٹیکسی میں ادھر ادھر گھوم کر دیکھ لیں آپ کو وہاں سڑکوں پر کوئی شخص نظر نہیں آئے گا۔ آپ سارا د ن گھومتے رہیں آپ کو 28 Days Laterکی طرح ہر طرف ویرانی ہی نظر آئے گی۔ اس نے ڈینی بوائل کی ڈرائونی مووی کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا جس میں لندن شہر میں ایک مہلک وائرس پھیل جاتا ہے اور پورا شہر تباہی اور ویرانی کا ہولناک منظرپیش کرتا ہے۔ریان سپیڈنگ اپنی ٹیکسی لینے کے لیے ہرہفتے 375ڈالر کے برابر کرایہ ادا کرتا ہے اور اس ریٹ پر اس کے پاس ٹیکسی اپنی رینٹل کمپنی کو واپس کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔سیلف ایمپلائی ہونے کے ناتے ریان ا سپیڈنگ سرکاری امداد لینے کا اہل تھا جس کی وجہ سے اس کی ماہانہ آمدنی کی دو تہائی تک تلافی ہو گئی۔ا س کی بیوی جو ڈاگ واکنگ بزنس سے وابستہ تھی چھٹیاں منسوخ ہونے کی وجہ سے بہت متاثر ہوئی ہے کیونکہ اب اس کے گاہک گھر پر رہ کر کام کرتے ہیں اور ان کے پاس اپنے پالتو کتوں کو واک کرانے کے لیے کافی وقت ہوتا ہے۔اب وہ اپنی مارگیج ادائیگی کرنے سے بھی قاصر ہیں‘تاہم ا سپیڈنگ کا کہنا ہے کہ اس کی تمام تر سیونگز بھی ٹھکانے لگ چکی ہیں اور کریڈٹ کارڈ سے ملنے والا قرضہ بھی استعمال ہو چکا ہے۔ا س کا کہنا ہے کہ اس کی زندگی دوزخ کی طرح بوریت کی شکا رہو چکی ہے۔دوسرے ڈرائیورز کی طرح اس نے بھی لندن کی سڑکوں کے بارے میں نالج نامی ایک مشکل ٹیسٹ پا س کیا تھا۔ اس پراسیس میں اس کے ساڑھے تین سال لگ گئے۔ اپنے اتنے قیمتی وقت کی سرمایہ کاری کرنے کے بعد تو میں کوئی اور کام کر بھی نہیں سکتا۔ سپیڈنگ نے بتایا کہ ا س ہفتے ا س کا ارادہ ہے کہ لاک ڈائون ختم ہونے کے بعد دوبارہ ٹیکسی لے کر نکلے گا کہ شایدکوئی کسٹمرزواپس آگئے ہوں مگر لگتا ہے کہ ابھی کوئی نہیں آیا ہوگا۔اپنا بزنس نقصان پورا کرنے کے لیے ڈیل فارور ڈ جیسے ڈرائیورز ریجنٹ ا سٹریٹ پرکرسمس لائٹس کے ٹورز کی آفرز دینے لگے ہیںمگرشاید ہی کسی ٹورسٹ نے اس کے ساتھ معاہدہ کیا ہو کیونکہ کئی ہفتے کے لاک ڈائون کے بعد اکثرلوگ باہر جانا چاہتے ہیں۔
جم وار ڈجیسے ڈرائیورز جن کے پا س پنی گاڑیاں ہیں ا س لاک ڈائون سے بچ گئے ہیں۔اس نے بتایا کہ اسے روزانہ چار گاہک مل جاتے ہیں جن سے وہ ساٹھ سے اسی پائونڈز تک کما لیتا ہے۔جنوری 2018ء کے بعد لندن میں الیکٹرک گاڑی لازمی کر دی گئی ہے اور ایک درمیانے درجے کی گاڑی 65000پائونڈز میں ملتی ہے۔قرضے پر الیکٹرک گاڑی لینے والے ڈرائیورز اس لیے افورڈ نہیں کر سکتے کیونکہ انہیں ہر مہینے ان کی بھاری قسط ادا کرنا ہوتی ہے۔ہاورڈ ٹیلر کورونا شروع ہونے سے پہلے اپنی تین سال پرانی کیب فروخت کرناچاہتا تھا‘ مگر اب مندے کی وجہ سے اسے ایک تہائی کم قیمت ملنے کا امکان ہے۔اس کا کہنا ہے کہ ان حالات میں کوئی بیوقوف ہی اس کی گاڑی خریدے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔