علامہ اقبال اور شعور وبیداری کا پیغام
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبال کے افکار و تعلیمات پاکستانی قوم اور امت مسلمہ کے لئے شعور و بیداری کا پیغام ہے۔ اقبال نے اپنے اعلیٰ افکار و عظیم تعلیمات کے ذریعے قوم کو غلامی سے آزادی کا راستہ دکھایا۔ اقبال کا کلام اللہ تعالیٰ، پیغمبر اسلام، قرآن کریم اور آل محمدۖکے عشق و محبت سے لبریز ہے۔علامہ کی حیثیت ان کے اپنے قول کی مطابق اس شاعر کی تھی جن کے دلوں میں قومیں جنم لیتی ہیں۔ علامہ ملت اسلامیہ کا وہ دیدہ بینائے قوم تھے جنہوں نے ایک زوال پذیر قوم کو اپنے مسیحا صفت کلام سے حیاتِ نو عطا کی اور ان کی بے منزل جدوجہد آزادی کو ایک خودمختار مملکت کے قیام تک پہنچایا اور اس طرح ایک غلام قوم حیرت انگیز معجزہ بپا کرنے کی استعداد کی مالک بن گئی۔ مسلمانانِ ہند کے دور غلامی میں اقبال جیسے دانائے راز کی موجودگی ہی ملت اسلامیہ کی حیات باطنی کی دلیل تھی کہ مختلف حوادث اور عروج و زوال کا سارا سفر بھی ملت اسلامیہ کو مستقل پڑمردگی اور فنائیت کا شکار نہیں کر سکتا بلکہ جب بھی ملت زمانے کے فتنوں کا نشانہ بنے گی اس کے بطن سے ایسی حیات افروز صدا ضرور بلند ہو گی جو اس کے حال کو حیاتِ نو عطا کرے گی اور اسے اپنا مستقبل تعمیر کرنے کی صلاحیت بھی بخشے گی۔ گویا اقبال کی صدائے روح افزا اور ان کا شعر و فکر ملت اسلامیہ کی حیاتِ اجتماعی ہی کی ایک دلیل بن گیا۔ علامہ کی شاعری میں جہاں روح عمل کو پھونکنے اور غلامی اور مایوسی کی زنجیروں کو توڑنے کا پیغام تھا وہاں ایک ایسا ضابطہ عمل بھی ان کے افکار میں نظر آتا ہے جو ملت کے مستقبل کی صورت گری کا ضامن ہے۔
اقبال نے قوم کو غلامی سے چھڑانے کے لیے قرآن کریم سے ہدایت حاصل کی۔ ایک بکھرے ہوئے انبوہ کو قوم میں تبدیل کرنا آسان کام نہیں ہے۔ علامہ اقبال نے قرآنِ کریم کا گہرا مطالعہ کیا تھا اور اسی لیے برطانیہ کی پروردہ بیوروکریسی نے ان کی بے ضرر نظموں کے سوا ان کا معنی خیز کلام عوام تک نہ پہنچنے دیا۔ورنہ پاکستان جن مشکلات اور مصائب سے گزرا وہ اْسے کبھی پیش نہ آتے۔ ملوکیت ساحری کی ایک شکل ہے۔ جس کے سبب لوگ نیند میں محو رہتے ہیں۔ جب تک عوام شاہی کے فریب میں مبتلا رہتے ہیں ان کی غلامی کی حالت برقرار رہتی ہے۔علامہ اقبال نے اپنے اشعار میں صرف اپنے دور میں ہی مسلمانوں کے مسائل کا ہی حل پیش نہیں کیا بلکہ ایک مثالی مسلم ریاست اور مسلم معاشرے کے خدوخال کیا ہو سکتے ہیں۔ اس کی تفصیلات بھی ان کے شعر میں جا بجا ملتی ہیں۔ اقبال کی شاعری دراصل ایک دور نو کی نوید ہے۔ جاوید نامہ میں انہوں نے اپنی مثالی مملکت کا ذکر کیا ہے اور اس کی تفصیلات بیان کیں اور اسے مرغدین کا نام دیا۔ یہ مثالی مملکت فی الاصل انسانیت کی منزل ہونی چاہیے اس مثالی مملکت مرغدین میں انسانی معاشرے کو درپیش اخلاقی، سماجی، معاشرتی اور دوسرے مسائل جو جس موثر انداز سے بیان کر کے ان کی حل کی طرف علامہ نے متوجہ کیا ہے وہ آج کے دور کے انسان کی آواز لگتی ہے اور اقبال کسی ایک خطے کے نہیں انسانیت کے شاعر کے طور پر سامنے آتے ہیں۔
علامہ اقبال کا پیغام ہر دور میں زندہ رہا ہے کیونکہ یہ امید، کوشش، ہمت اور زندگی کا پیغام ہے۔ علامہ اقبال نے جنوبی ایشیاء کے مسلمانوں ہی کو نہیں بیدارکیا بلکہ پوری دنیا کے انسانوں کو آزادی کی تڑپ اور غلامی کے خلاف لڑنے کا حوصلہ دیا۔مضبوط اور متحد قوم بننے کیلئے قائد اعظم اور علامہ اقبال کے افکار سے رہنمائی کی اشد ضرورت ہے۔آج علامہ اقبال کے پیغام کو عام کرنے اور خصوصاً نئی نسل تک پہنچانے کی شدید ضرورت ہے جس کے لئے قومی تاریخ و ادبی ورثہ کی وزارت نے منظم منصوبہ بندی کی ہے۔ ایک مضبوط اور متحد قوم بننے کے لئے قائداعظم اور علامہ اقبال کے افکار سے رہنمائی حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے حکمران طبقے اور مقتدر حلقوں نے بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح اور مصور پاکستان ڈاکٹر محمد اقبال کے افکار و تعلیمات سے بغاوت کرکے پاکستان کو ایک ایسی غلام ریاست میں بدل دیا، جہاں کرپشن کی نحوست میں غرق پست افکار و کردار کے حامل لوگ حاکم ہیں۔ علامہ اقبال کے افکار و نظریات کی روشنی میں ہم ملکی استقلال آزادی کا تحفظ کرتے ہوئے ملک و قوم کو ترقی یافتہ بنا سکتے ہیں۔ اقبال نے امت مسلمہ کے سامنے کربلا کے پیغام حریت کی تشریح کرتے ہوئے ظلم و استبداد کے خلاف قیام کا درس دیا۔ اقبال کا تصور خودی در حقیقت قرآن کریم کے تصور نیابت الٰہی کی فلسفیانہ اور بلیغانہ تفسیر ہے۔ اقبال نے ایسے رزق پر موت کو بہتر قرار دیا جو انسانی پرواز میں کوتاہی کا باعث ہو۔ عصر حاضر میں امت مسلمہ کلام اقبال کی روشنی میں اپنی منزل پا سکتی ہے۔
قائداعظم محمد علی جناح علامہ کے متعلق رقم طراز ہیں کہ اقبال کی ادبی شخصیت عالمگیر ہے۔ وہ بڑے ادیب، بلند پایہ شاعر اور مفکر اعظم تھے لیکن اس حقیقت کو میں سمجھتا ہوں کہ وہ ایک بہت بڑے سیاست دان بھی تھے۔ مرحوم دور حاضر میں اسلام کے بہتر ین شارح تھے کیو نکہ اس زمانے میں اقبال سے بہتر اسلام کوکسی نے نہیں سمجھا۔ مجھے اس امر کا فخر حا صل ہے کہ ان کی قیادت میں ایک سپاہی کی حیثیت سے کام کر نے کا مجھے موقع مل چکا ہے۔ میںنے ان سے زیادہ وفادار، رفیق اور اسلام کا شیدائی نہیںدیکھا۔