کی محمدﷺ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
شیئر کریں
دیکھیئے! حضرت علامہ اقبال کا دن کب طلوع ہوتا ہے، جب ماہ ربیع الاول ہمارے دلوں کی دہلیز پردستک دے رہا ہے۔ کبھی وہ دن تھے جب لطف اللہ خان شہر قائد میں اپنے آواز خزانے کے ساتھ رونق بڑھاتے تھے۔ گاہے اُن کی خدمت میں حاضر ہوتا ، اور قدیم ادوار کی عمیق آوازوں میں گداختہ گم ہوجاتا۔ ہائے یہ شورش کا انٹرویو تھا، اکابرین کی قطار سے لگاتار آتے آخری شہشوارِخطابت!!!ماہر القادری نے مرحوم کو یادکیا تو رعایتِ لفظی کا لحاظ بھی کیسا رکھا:
دل لگانے کا جہاں موقع بھی تھا کوشش بھی تھی
ہائے وہ محفل جہاں شورش بھی تھا ، شورش بھی تھی
شورش علامہ اقبال سے اپنی تین ملاقاتوں کو تازہ کرتے ہیں۔ پہلی ملاقات مولانا ظفر علی خان مرحوم ومغفور کے ساتھ کی جو ڈھائی گھنٹے سے زیادہ پر محیط تھی۔ شورش فرماتے ہیں کہ اُن کے درمیان گفتگو میری استعدادِ ذہنی سے بہت بلند تھی اور میرے لیے اُن کی گفتگو سے زیادہ اہم بات یہ تھی کہ میں ایک عظمت کے سامنے بیٹھا ہوں۔ کیا وہ لوگ تھے، اور کیا گفتگو فرمایا کرتے ہوں گے۔ ہمارا واسطہ نہ جانے کن دانشوروں سے آن پڑا ہے۔شورش نے کہا مجھے اُن کے کچھ فقرے نہیں بھولتے جو بعد میں اُن کی چٹھیوں میں بھی نظر آئے۔علامہ اقبالؒ نے
مولانا ظفر علی خان سے فرمایا: یہ حقیقت میری روح کو بیقرار رکھتی ہے کہ پچھلی کئی صدیوں سے مسلمانوں نے اتنی اسلام کی خدمت نہیں کی جتنی خود اسلام نے مسلمانوں کی حفاظت کی ہے‘‘۔ پھر فرمایا : ہندوستان کا مسلمان مغرب زدہ ہوچکا ، اُن کے ذہنوں کو قرآن پاک کے دقیق مسائل میں اُلجھانے کے بجائے سیرت نبویﷺ کی تعلیم کو عام کریں، کیونکہ جتنی نسبت مسلمانوں کے قلب کو سیرتِ محمدی سے ہوگی،اُسی نسبت سے اُن میں قرآن کا ذوق پیدا ہوتا چلاجائے گا۔
شورش نے علامہ اقبال سے اپنی دوسری ملاقات کا ذکر چھیڑا، جب وہ سید عطاء اللہ بخاری کے ساتھ اُن کے درِ دولت پر حاضر ہوئے،پھر شورش دم بھر کے لیے سید عطاء اللہ شاہ بخاری میں گم ہوگئے، اردو زبان نے جن سے بڑا کوئی خطیب نہیں دیکھا۔ انسانوں میں آواز سے ایسا جادو جگانے والے کہاں دیکھے گئے؟شورش نے کہا: میں نے گاندھی کو بھی اُن کا ادب کرتے دیکھا، نہرو ایسے ملتے جیسے بیٹا باپ کو ملتا ہے‘‘۔ پھر فرمایا:جب عطاء اللہ شاہ بخاری کے ساتھ اُن کے گھر میں داخل ہوا تو وہ سامنے چارپائی پر بیٹھے تھے، اُنہوں نے شاہ صاحب کو دیکھتے ہوئے کہا: آؤ پیڑا تو آگیا ہے،تیرا کیہہ حال اے‘‘۔ شاہ صاحب نے زور سے کہا : یا مرشد ، یا مرشد!! اور پھر بیٹھ گئے۔ شاہ جی نے کہا ، حضرت کوئی نظم ہوئی ہے؟علامہ نے کہا ’’پیڑا‘‘ ہوئی ہے، یار سنادو! شاہ جی نے کہا لائیے! توعلامہ نے کہا : نعتیہ کلام ہے ، حضور ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے،آپ کا وضو ہے ، ذرا وضو کرلیں‘‘۔شاہ جی کو یہ کون کہہ سکتا ، وہی جو اُن کو پیڑا کہہ سکتا تھا۔ شورش کہتے ہیں شاہ جی نے پھر قرآن سنایا اور کچھ احادیث ۔ حضرت علامہ پہلے تو آبدیدہ ہوئے اور پھر اُن کے آنسو گال تک بہہ نکلے۔شورش کاشمیری نے واپسی پر حضرت علامہ اقبالؒ سے اُن کے نیاز مندانہ تعلق کے بارے میں تجسس سے پوچھا کہ آپ کے اور ان کے سیاسی راستوں میں تو بڑا فاصلہ ہے؟ شاہ جی نے سرد آہ کھینچی اور کہا: شورش اس قسم کے لوگ روز روز پید انہیں ہوتے۔ ملت اسلامیہ صدیوں کے بعد ایسے آدمی پیدا کرتی ہے۔جب کسی قوم پر اللہ اپنی رحمت نازل کرتا ہے تو ایسے لوگ پیدا ہوتے ہیں‘‘۔
واقعی ایسا تھا،یہ اس قوم کی خوش قسمتی تھی کہ یہاں علامہ اقبالؒ پید اہوئے مگر یہ علامہ اقبالؒ کی شاید بدقسمتی ہو کہ وہ اس قوم میں پید ا ہوئے۔عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ نے ایک موقع پر کہا تھا کہ ’’اقبال کو نہ انگریز نے سمجھا اور نہ قوم نے۔اگر انگریز سمجھتا تو اقبال بستر پر نہ مرتے، بلکہ پھانسی کے تختہ پر لٹکائے جاتے، اور اگر قوم سمجھ لیتی تو آج تک غلام نہ رہتی‘‘۔کوئی مغالطہ ہے تو دور کرلیجیے! ہم آج بھی ایک غلام قوم ہے۔ تقسیم ہند نے آزادی کی نفسیاتی ضرورت کو پورا کردیا ۔ مگر ہمارا قومی ارادہ معاشی غلامی کے چُنگل میں ہے۔زندگی کے مادی تصور نے ہمارے دینی تصورات اور ملی مقاصد کورہن رکھوا دیا ۔ جی ایس پی پلس عبادت اور یورپی یونین ہماری سجدہ گاہ ہے۔ آسیہ کیس میں انصاف، یہ کیا ہوتا ہے؟ آزاد عدالتوں اوربدعنوانی سے پاک تبدیلی سرکارکی غلط فہمی کے گرداب میں ابھی قوم کو ہچکولے کھاتے رہنا ہے۔ کچھ اداروں کو ریاست قراردینے کا عمل ایک خطرناک رجحان بن کر اپنی قیمت وصولنے والا ہے۔ جس قوم نے بنگلہ دیش بنتے دیکھا ہو، اُس کے کسی ادارے کو یہ زیبا نہیں کہ وہ بحران پر قابو پانے کا کوئی بھی دعویٰ پالے۔ جہاں ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ ہوا ہو، وہاں قومی غیرت کی باتیں کرتا ہوا اُتھلاوزیر اچھا نہیں لگتا۔ یوم اقبال ؒ کے موقع پر ہماری قومی بداعمالیاں زیادہ بھدی اور بھونڈی لگتی ہیں۔کیا اقبالؒ ہماری زندگیوں کے لیے نہ تھے ، گانے بجانے کے لیے تھے، عشقِ مصطفی ﷺ جن کا جوہر تھا۔ وہ معرفتِ رسول کو معرفتِ دین کا دوسرا نام دیتے تھے۔ تب ہی تو وہ کہیں اِسے سرِ دیں سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔اللہ اللہ کیا عشق میں ڈوبا دل اللہ نے اُن کو دیا تھا کہ آپ کی زبان سے یہ مصرعے جاری ہوئے:
ہر کجا بینی جہانِ رنگ و بو
آں کہ از خاکش بروید آرزو
یا زِ نور مصطفی آں را بہا است
یا ہنوز اندر تلاش مصطفی است
(اس جہانِ رنگ وبو میں جہاں دیکھیں، جس خاک سے بھی آرزو پروان چڑھتی ہے، یا وہ نورِ مصطفی سے
فروزاں ہے یا پھر تلاشِ مصطفی میں سرگرداں ہے۔)
ِ الٰہیات کے فلسفی رمز آشکار کرتے ہیں کہ کُل کائنات اپنے تمام و کمال کی طرف رواں دواں ہے،علامہ کے تفکر کا وفور اس رمز کا بھی گرہ کشا ہے، ایک مرتبہ پھر وہ اشعار پڑھیے ، کیسے فلسفہ اور ذہن اپنے پورے عجز کے ساتھ عشق کی بارگاہ میں جھکے ہوئے ہیں۔علامہ کا ذہن دل کی حاکمیت میں تھا اور دل عشق مصطفی ﷺ میں گرفتار۔ شورش کاشمیری نے مولانا ظفرعلی خان کے ساتھ حضرت علامہ اقبالؒ سے ملاقات میں ایک فقرہ اورسناتھا: ایسا دور ضرور آنا چاہئے کہ مسلمان اپنے گمشدہ ماضی کی طرف لوٹ جائیں اور یہ دنیا مسلمانوں کی ہوجائے‘‘۔ یہ کیا مستقبل بینی ہے؟ ایسے مستقبل کی تلاش جو ماضی سے ہمکنار ہوتا ہو۔ کوئی غور تو فرمائے!!!مگر وہ ماضی کیا ہے؟وہی جو چودہ صدیوں پہلے آنے والے ہر دور کے لیے دائم روشنی بن کر طلوع ہوا تھا جس نے آنے والے ہر دور کو وہیں سے روشنی پانی ہے۔ وہی محبوب خدا جن سے محبت کی تعلیم خدا نے خود فرمائی۔جہاں رومی ، غزالی، سینا اور فارابی ادب سے دوزانو بیٹھ جاتے ہیں۔ مگر ہم بھی کیا لوگ ہیں، ہمارے ہاں اس کی بھی قیمت ہے۔ جی ایس پی پلس، عشق برائے فروخت !!!آہ یہ کن لوگوں سے ہمارا واسطہ آپڑا ہے۔ کوئی دن جائے گا کہ طاقت ور حلقوں کو یہ بات سمجھ آجائیگی کہ اسلام کو پاکستان کی نہیں پاکستان کو اسلام کی ضرورت ہے۔اور اسلام عشق نبویﷺ کی بنیاد پر کھڑا ہے۔