میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سی پیک میں گوادر پورٹ کی اہمیت

سی پیک میں گوادر پورٹ کی اہمیت

ویب ڈیسک
جمعرات, ۹ نومبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

پاکچین اقتصادی راہداری سی پیک ملکی تاریخ کا انتہائی ا ہمیت کا حامل منصوبہ ہے جو کہ مختلف مراحل میں تکمیل کی جانب تیزی سے گامزن ہے۔ سی پیک منصوبہ نہ صرف چین اور پاکستان کے مابین زمینی راستے کا منصوبہ ہے بلکہ یہ روس‘ ایران‘ افغانستان سمیت مشرق وسطیٰ ممالک کے علاوہ دیگرممالک کی دلچسپی کا مظہر ہے۔ سی پیک دنیابھرکے لیے گیم چینجرہے۔ مستقبل میں گوادر دنیا کا بہترین پورٹ سٹی ہوگا اور سی پیک میں ساٹھ ممالک شامل ہونگے۔
چائنا اقتصادی راہداری کوئی نیامنصوبہ نہیں بلکہ گوادررپورٹ کی تعمیر سمیت یہ برسوں پرانامنصوبہ ہے جس کامقصد روس اور چین کی گرم پانی کے سمندر تک رسائی ہے۔ 1999ء میں گوادربندر گاہ کی تعمیر کا کام تیز ہوا۔ 20 مارچ 2007ء میں گوادر پورٹ کا افتتاح ہوا اور اس کو چلانے کا ٹھیکہ ملائیشیا کی ایک کمپنی کو دیا گیاتاہم فروری 2013ء میں گوادربندرگاہ کی تعمیر کا ٹھیکا چین کو دیاگیا ۔
گوادر پورٹ کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ یہ قدرتی طور گہرے پانی کی بندرگاہ ہے۔ عام طور پر بندرگاہوں کو سمندر میں نیچے گہرا کرنے کے لیے کھدائی کی جاتی ہے مگر گوادر ان چند بندرگاہوں میں سے ایک ہے جو گہرے پانی میں واقع ہے۔ قریب کی دوسری بندرگاہوں سے اگر مقابلہ کر کے دیکھا جائے تو ان کی سمندر میں گہرائی عموماَ نو یا دس میٹر ہوتی ہے۔ ان میں کراچی (9/10)، چاہ بہار (11)، بندرعباس(9/10)، جبل علی (15/16)، اومان (10)، دمام (9)، دوحہ (11/12) گہرے ہیں جبکہ گوادر (17/18) میٹر گہری ہے۔ بندرگاہوں میں دوسری بڑی ضرورت یہ ہوتی ہے کہ اس کے لیے سمندر میں ہتھوڑے کے سرے جیسی جگہ مصنوعی طریقے سے بنانی پڑتی ہے تاکہ سمندری پانی کا کٹاؤ روکا جا سکے جبکہ گوادر میں یہ ہیمر ہیڈ بھی قدرتی طور پر بنا ہوا ہے۔ گوادر کی تیسری بڑی خصوصیت اس کا تزویراتی محل وقوع ہے۔ گوادر، خلیج اومان اور خلیج فارس کی تمام بندرگاہوں کے سرے پر واقع ہے۔ اس زون میں اومان، مسقط، دوبئی، عجمان، قطر، بحرین، سعودی،کویت، عراق اور ایران کی کم و بیش ساٹھ بندرگاہیں ہیں جن میں چاہ بہار، بندر عباس، اومان، دوبئی، جبل علی،پورٹ خلیفہ، شاہ عبداللہ ، دمام، ودحہ، شویک اور ام قصر وغیرہ شامل ہیں۔ چین اور مشرقی ایشیا سے مغرب کی طرف جاتے ہوئے گوادر ان تمام بندرگاہوں کے سرے پر واقع ہے۔
گوادر پورٹ سی پیک کاگیٹ وے ہے۔ چین نے اپنے مغربی حصے میں 2001 سے تقریباَ 320 بیلین ڈالر کے میگا پراجیکٹس شروع کر رکھے ہیں۔ سینکیانک ہی سے چین گوادر تک آئے گا۔ چونکہ سی پیک کی بنیادی اکائی گوادر بندرگاہ ہے اس لیے چین کے لیے یہ ایک گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے۔ چین تائیوان کے قریب اپنے جنوب مشرقی ساحلوں سے اگر مسقط تک، ملاکا سے ہوتے آتا ہے تو اسے 4600 ناٹیکل میل سے زیادہ کا فاصلہ طے کرنا پڑے گا۔ جبکہ گوادر سے یہ فاصلہ 208 ناٹیکل میل بنتا ہے ۔ ادھر چین کو کاشغر سے گوادر تک 2700 سے 3000 کلومیٹر کا زمینی فاصلہ طے کرنا پڑے گا۔ اسی راستے کا نام سی پیک ہے۔ مگر سی پیک صرف راستہ نہیں ہے۔ یہ ہائی ویز، موٹرویز، ریل، تیل اور گیس کے پائپ لائنوں کا ایک جال ہے۔ یہ سب کچھ گوادر پورٹ کے گرد گھوم رہا ہے۔ سی پیک 45.69 بلین ڈالر کا منصوبہ تھا۔ جس میں حال ہی میں 5.5 بیلین ڈالر کا مزید اضافہ ہوا ہے جو لاہور، کراچی ریلوے لائن کے لیے ہے۔ 33.79 بیلین ڈالر توانائی کے لیے ہیں۔ 5.9 بیلین ڈالر سڑکوں کے لیے ہیں۔ 3.69 بیلین ڈالر ریلوے لائنزکے لیے ہیں۔ 66 ملین ڈالر گوادر پورٹ کے لیے ہیں۔ 4 ملین ڈالر فائر آپٹکس کے لیے ہیں۔
اگرچہ سی پیک سے پاکستان کی معیشت کوبھرپورفائدہ ہوگا پاکستان میں عوام کور وزگار کے لاکھوں مواقع میسر ہوںگے لیکن عالمی سطح پرکھیلے جانے والے شطرنج کے کھیل پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔پاک چائنا اقتصادی راہداری اگرچہ ملک و قوم کے مفادمیں ہے۔ دوسری جانب خارجہ اورداخلی امور‘ ملک میںامن وامان‘ سیاسی ومذہبی‘ ملی و قومی یکجہتی مستقبل کے اہم ایشوز ہیں‘ جنہیں کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی راہداری منصوبے کے اعلان کے بعد بھارت کی مسلسل یہ کوشش ہے کہ کسی طرح پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ کامیابی سے ہمکنار نہ ہو جس کے لیے بھارت ہر طرح کے گھنائونے ہتھکنڈے استعمال کررہا ہے۔ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کے ذریعے ’’را‘‘ کے ایجنٹ کل بھوشن یادیو کی پاکستان مخالف سرگرمیاں بھی اسی سلسلے کی کڑی ہیں کیونکہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ بھارت کو ایک آنکھ نہیں بھارہا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر خارجہ سشما سوراج کئی بار برملا کہہ چکی ہیں کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ بھارت کے حق میں نہیں جبکہ ایک بھارتی وفاقی وزیر کی یہ دھمکی بھی قابل غور ہے کہ ’’بھارت گوادر پورٹ اور پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر خاموش نہیں بیٹھے گا جسے ناکام بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے۔‘‘
یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ بھارت کی ہمیشہ سے یہ دلی خواہش رہی ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف اپنے مذموم عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کسی طرح افغانستان تک رسائی حاصل کرے۔ اس سلسلے میں وہ پاکستان سے کئی بار مطالبہ کرچکا ہے کہ بھارت کو پاکستان کے راستے افغانستان سے تجارت کے لیے راہداری دی جائے مگر پاکستان ہر بار بھارتی مطالبے کو مسترد کرتا آیا ہے کیونکہ ایک طرف بھارت کو افغانستان تک مکمل رسائی ملنے سے افغانستان میں بھارتی اثر و رسوخ میں اضافہ ہوگا تو دوسری طرف افغانستان سے ملنے والی پاکستانی سرحد بھی غیر محفوظ ہوجائے گی۔ بھارت کی طرح امریکہ بھی پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے سے خوش نہیں کیونکہ امریکہ خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے خوفزدہ ہے، اس لیے وہ خطے میں چین کے مقابلے میں بھارت کو سامنے لارہا ہے۔
پاک بحریہ کے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ مغربی ساحل پر قائم بحری اثاثوں اور تنصیبات کے ساتھ ساتھ بحری جزو کو بھی بھر پور سیکورٹی فراہم کرتی رہے گی۔ یہ امرباعث اطمینان ہے کہ گوادر پورٹ کی سیکیورٹی پاک فوج ا ور دیگرسیکیورٹی اداروں کی ہے جبکہ بحرہند میں میری ٹائم سیکیورٹی کے لیے ٹاسک فورس منظم کی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں 14 جنوری 2017ء کوجدید ٹیکنالوجی سے لیس دوبحری جہاز بسول اور کسول گوادر پہنچ گئے ہیں۔
سی پیک کے خلاف بھارتی آوازیں اور سازشیں مزید بڑھ گئی ہیں۔مذموم عزائم کے حصول کے لیے بھارتی فوج کے ساتھ ساتھ بھارتی بحریہ بھی اپنی آبدوزوں کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی سازشیں کر رہی ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال بھارتی آبدوز کا پاکستانی علاقے میں گھس کر تخریب کاری کی کوشش کرنا ہے۔ بھارتی بحریہ خفیہ مقاصد کے حصول کے لیے اپنی آبدوزیں پاکستان کے خلاف حرکت میں لا رہی ہے تاہم پاک بحریہ نے اعلیٰ پیشہ ورانہ مہارتوں کے ساتھ ہر دم چوکنا رہنے کا ثبوت دیتے ہوئے بروقت بھارتی آبدوزکا سراغ لگا کر اسے پاکستانی سمندری علاقے میں داخل ہونے سے روک دیا اور پاکستانی پانیوں سے مار بھگایا۔ گہرے سمندر میں بھارتی بحریہ کی آبدوز کا سراغ لگانا اوراس کی مسلسل نگرانی کا یہ اہم کارنامہ نہ صرف پاکستا ن نیوی کی اینٹی سب میرین وار فیئر کی اعلیٰ صلاحیتوں کامنہ بولتا ثبوت ہے ،بلکہ پاکستان کی بحری سرحدوں کے دفاع میں بلند عزم اورمضبوط عہد کا بھی عکاس ہے۔
اقتصادی راہداری کی سیکورٹی میں پاک بحریہ کا کلیدی کردار ہے۔ بحر ہند خطے میں تجارت کا اہم مرکز ہے جس کے لیے میری ٹائم سکیورٹی ضروری ہے۔ پاکستان میں دنیا کا سب سے بڑا ڈیلٹا ہے ۔ پاکستان کی کوسٹ لائن 1000 کلومیٹر طویل ہے ۔ پاک بحریہ نے گوادر اور اقتصادی راہداری کے لیے سکیورٹی فورس تشکیل دیدی ہے۔ ٹاسک فورس 88 اوراقتصادی راہداری اسپیشل سکیورٹی ڈویژن مشترکہ فرائض انجام دینگے۔ ٹاسک فورس88 جاسوس طیاروں، ڈرونز، جنگی جہازوں، جدیدہتھیاروں، آلات سے لیس ہوگی۔
تیسری فورس پروٹیکشن بٹالین پاک میرینز کا ایک آپریشنل جزو ہے جسے مارچ 2013ء میں قائم کیا گیا۔ اس کے قیام کا مقصد گوادر پورٹ کے ساتھ ساتھ گوادر شہر اور ساحلی علاقوں میں قائم حساس تنصیبات سمیت خشکی پر قائم بحری ڈھانچے کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔یہ بٹالین اپنے حلقہء ذمہ داری میں اینٹی ایمفی بئیس آپریشنز اور قدرتی آفات کی صورت میں امدادی آپریشنز کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔
پاک۔ چین اقتصادی راہداری سے منسلک منصوبوں کا استحکام اور ان سے حاصل ہونے والے یقینی فوائد اس عظیم منصوبے کے بحری جزو کی سیکورٹی سے ہی وا بستہ ہیں لہذا میری ٹائم سیکورٹی کو یقینی بنانا پاک بحریہ کی اہم ذمہ داری ہے جس میں وقت کے ساتھ ساتھ مزید اضافہ ہوتا جائے گا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں