میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
محمد اقبالؒ

محمد اقبالؒ

ویب ڈیسک
جمعرات, ۹ نومبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

محمد اقبالؒ کشمیری نژاد، کشمیری ذہانت و طباعی، کشمیری احساس حسن اور ذوقِ جمال کے فطری ملکات کو لیے ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے جو زمانے کی سختیوں ، عسرت و تنگ دستی کے باوجود دولت ایمان و یقین اور فہم و دانش سے بہرہ ور تھا۔ گورے چٹے، ماں باپ کے لاڈلے ،جب عالم شیر خوارگی کے اس شور وشغب نے جو کان سن رہے تھے، اس نور اور چمک ، سایوں اورتاریکیوں نے جو آنکھیں دیکھ رہی تھیں رفتہ رفتہ کائنات کی شکل اختیار کی۔ جب ماں کی آغوش ہی ان کی ساری دنیا اور زمین و آسمان ایک دیار نو معلوم ہوتے۔ جب آنکھ وقف دیدار تھی، لب مائل گفتار۔ جب ذرا ہوش سنبھالا اور بچپن میں قدم رکھاتو مسجد میں بیٹھے قرآن مجید کے ساتھ نوشت خواند کی ابتدا ہوئی۔ ماں باپ نے احکامِ شریعت کی پابندی سکھائی۔ صوم و صلوٰۃ کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کی بلا ناغہ تلاوت کرنے لگے۔ صبح سویرے اٹھتے، سحر خیزی معمول بن گئی۔ تعلیم و تربیت کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ آداب و اخلاق سنورتے چلے گئے۔ سیرت و کردار کی پرورش ہونے لگی۔ احساس ذات میں شخصیت کا رنگ پیدا ہو رہا تھا۔ ذوقِ علم اور ذوقِ شعر خداداد تھا۔ طبیعت فلسفہ پسند، دل و دماغ بیدار۔ زندگی طرح طرح سے انھیں چھیڑ رہی تھی، خیالات تھے، تصورات ، جذبات اور احساسات۔ ضرورت تھی ایک رہنما ہاتھ کی۔علم و حکمت کی طلب، شعرو ادب میں انہماک اور غور و فکر کی جو لانیوں کے ساتھ ساتھ ذرہ دل کی۔ کچھ خاندانی روایت، کچھ باپ کی درویش منشی، محمد اقبال کو بد وشعور ہی میں ذرہ درد دل کی دولت مل گئی۔
میر حسن کی توجہ اور نظر، اس پر مستزاد بچپن ہی میں قرآن مجید بڑے ادب و احترام اور دل سوزی سے پڑھتے۔ جمشید علی راٹھور کہتے ہیں ایک روز مسجد میر حسام الدین میں بیٹھے تلاوت کر رہے تھے۔ میر حسن آ گئے، استاد کو دیکھ کر رکنا چاہا۔ میر حسن نے اشارے سے کہا تلاوت جاری رکھو۔ آواز میں سوز تھا۔ تلاوت ختم کی تو میر حسن کے کہنے پر بڑی خوش الحانی سے اذان دی۔ پھر ہم سب نے باجماعت عصر کی نماز ادا کی۔ لڑکپن کا زمانہ کھیل کود کا زمانہ ہے۔ محمد اقبالؒذہین تھے۔ ان کی ذہانت کا اظہار بڑی معصومانہ شرارتوں میں ہوتا۔ ایک روز تختی لکھتے غلط کو غلت لکھ دیا۔ استاد نے کہا غلط کو صحیح کر دو۔ کہنے لگے غلط تو غلط ہی رہے گا، میں اسے صحیح کر دوں کیسے؟ پڑھائی کے ساتھ ساتھ کھیل کود میں وقت گزرتا۔
سن و سال میں آگے بڑھے تو لال دین پہلوان کے یہاں اکھاڑہ کرنے لگے۔ ڈنٹر پیلتے۔ لال دین سے دوستی ہو گئی اور اس دوستی کا محمد اقبالؒ نے ہمیشہ پاس رکھا۔ سیالکوٹ جاتے لال دین سے بے تکلف ملتے۔ لال دین کہتے ہماری سمجھ میں ان کی باتیں تو بہت کم آتیں لیکن وہ ہماری دوستی کا بڑا خیال رکھتے، ایسا کبھی نہ ہوا کہ کوئی بڑا آدمی ان سے ملنے آئے اور وہ ہمیں نظر انداز کر دیں۔ لاہور آئے تو یہاں اکھاڑہ تو کیا ہوتا البتہ مگدرہلاتے، ڈنٹر بھی پیلتے۔ چنانچہ علی بخش ان کے یہاں ملازم ہوا تو ان کے کسرتی بدن کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ علی بخش سے کہتے، علی بخش نوجوانوں کو چاہیے کسرت کریں۔یوں لاہور میں بھی کبھی کبھار کوچہ ہنومان میں، جہاں اس زمانے میں ان کے دوست سید غلام بھیک نیرنگ کا قیام تھا دوران ملاقات میں اکھاڑے کا شوق تازہ ہو جاتا۔ اکھاڑہ تو ریاضت بدنی کا ذریعہ تھا۔ تفریح طبع کے لیے کبوتر اڑاتے۔ سیالکوٹ میں ان دنوں کبوتر بازی کا رواج عام تھا۔ لوگوں نے گھر گھر کبوتر پا ل رکھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کبوتر اڑتے ہیں تو ان کے پروں سے جو ہوا نکلتی ہے بچوں کے لیے خاص طور سے مفید ہے۔ یہ ایک معصومانہ مشغلہ تھا جس سے میر حسن نے روکا، نہ شیخ نور محمد نے۔ شاید اس لیے کہ انھیں خواب میں جو اشارہ غیبی ہوا تھا کبوتر کی شکل میں۔
میر حسن کے صاحبزاد ے سید محمد تقی جو محمد اقبالؒ کے ہم جماعت بھی تھے کبوتر بازی میں ان کے دست راست تھے۔ ابتدا کبوتر بازی کی بقول سید محمد تقی یوں ہوئی کہ اول اول ہم شوالہ تیجا سنگھ کے پاس کھلے میدان میں شام کے قریب کبوتر بازی کے ماہروں کو کبوتر اڑاتے دیکھتے۔ کبوتر فضائے نیلگوں میں طرح طرح سے اور بل کھا کھا کر اڑتے تو محمد اقبال کی نگاہوں میں چمک پیدا ہو جاتی۔ ایک شام گھر آئے کہنے لگے ، مجھے کبوتروں سے عشق ہو گیا ہے لیکن کبوتر پالے تو رکھیں گے کہاں؟ سید محمد تقی کہیں سے کبوتروں کے چار جوڑے لے آئے۔ گھر کی چھت پر کاوک تیار کیے۔ یوں سید محمد تقی کے یہاں بالفاظ دیگر میر حسن کے گھر سے کبوتر بازی کی ابتدا ہوئی۔ محمد اقبالؒ نے شعر کہا: جی میں آئی جو تقی کے تو کبوتر پالے کوئی کالا، کوئی اسپید ہے، دو مٹیالے رفتہ رفتہ گھر میں بھی کاوک اور چھتری بن گئی۔ کبوتر پلنے لگے۔ ایک روز میر حسن نے کوئی سوال پوچھا، محمد اقبالؒ کی نگاہیںآسمان میں کبوتروں کی پرواز پر تھیں، جو اب نہ دیا۔ میر حسن نے کہا علم کتابوں میں تلاش کرو کبوتروں کی پرواز سے علمی جدو جہد ہی کو تحریک ہو سکتی ہے۔ یہ
تھی میر حسن کی خوبی تربیت کہ کبوتروں سے لگائو اور کبوتر بازی میں بھی تفریح طبع کے ساتھ ساتھ ایک عملی تجسس پیدا کر دیا۔ محمد اقبالؒ کہتے میں جب کبوتروں کو پنہائے فضا میں پرواز کرتے دیکھتا ہوں تو محسوس کرتا ہوں جیسے میں بھی ان کے ساتھ آسمان کی وسعتوں میں اڑ رہا ہوں۔ افلاک کی سیر ہو رہی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کبوتروں کی اڑان اور آسمان پروازی محمد اقبالؒ کی شاعرانہ اور فلسفہ پسند طبیعت کو بڑی مرغوب تھی۔ لقا کبوتر سے انھیں دلی لگائو تھا۔ کہتے اس کبوتر کا سینہ تان کر ایک شان تمکنت اور طمطراق سے چلنا مجھے بہت پسند ہے۔ رفتہ رفتہ کبوتروں سے انھیں ایک حیاتیات داں کی سی دلچسپی پیدا ہو گئی۔ وہ ا ن کی عادات اور خصائل ، طاقت پرواز اور مختلف انواع کا ذکر بڑی تفصیل سے کرتے۔ کہتے ان کی اصل تو ایک ہے لیکن یہ گھریلو کبوتر جنگلی کبوتروں سے کہیں الگ ہوئے، اس حد تک الگ کہ ان کی عادات و خصائل کو جنگلی کبوتروں سے کوئی نسبت ہی نہیں۔ یوں کبوتروں سے ان کا ذہن طیور کی طرف منتقل ہو گیا۔ وہ ان کی عادات اور خصائل کا مطالعہ کرنے لگے۔ تا آنکہ یوں انھوں نے ایک ایسا نظام علامات وضع کر لیا جو ان کے خیالات اور تصورات کے ابلاغ کا نہایت موثرذریعہ ثابت ہوا۔ ان کے یہاں کبوتر ایک علامت ہے،شاہین ایک علامت، کنجشک فرو مایہ بھی علامت۔
(تجزیہ)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں