میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ہیروئن کی کاشت سے،جنگ میں شکست تک

ہیروئن کی کاشت سے،جنگ میں شکست تک

ویب ڈیسک
جمعرات, ۹ نومبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

موسیٰ غنی
افغانستان میں امریکی جارحیت کے اٹھارہ سال ہونے کو ہیں لیکن امریکا کے دعویٰ دھرے کے دھرے رہے گئے ہیں نہ ان سے طالبان کا خاتمہ ہوا اور نہ ہی افغانستان سے ہیروئن کی کاشت کو ختم کیا جاسکا بلکہ افغانستان میں ہیروئن کی کاشت میں اضافہ ہوا ہے القائدہ کے نام پر افغانستان میں داخل ہونے والی سپر پاور آج منہ چھپانے پر مجبور ہیں افغانستان کے پہاڑوں ہزاروں فوجیوں کی ہلاکت ہو یا غیر معمولی جنگ میں امریکی رسوائی اس کی کڑی یہیں سے ملتی ہے کہ جو سپر پاور ہیروئن کی کاشت ختم نہ کراسکے ،اٹھارہ سال میں طالبان اور القائدہ ختم نہ کرسکے کیا وہ سپر پاور کہلانے کے لائق بھی ہے کہ نہیں دنیا جانتی ہے افغانستان میں داخل سعودیت یونین ہو یا روس کی شکست اور اب امریکی خواب یہ اسی طرح ہے جیسے بلی کے خواب میں چھیچڑے ۔
دنیا کی 85 فیصد ہیروئن کی کاشت آج بھی افغانستان میں ہوتی ہے جس کو ختم نہ کرپانے کی وجہ کیا ہے اس میں مفاد ہے تو صرف امریکا کا کیوں کہ وہ اس کی کاشت کا پھیلانے کی اجازت دیتا ہے ورنہ سابقہ افغان حکومت یا آپ اس کو طالبان کی حکومت کہیں تو اس نے افیون اور ہیروئن کی کاشت پر سخت پابندی عائد کردی تھی جس کی وجہ عالمی دنیا میں اس کی مانگ میں بے تحاشا اضافہ ہوا تھا لیکن موجودہ دور میں جہاں آپ نظر اٹھا کر دیکھیں امریکا کے کارنامے نظر آتے ہیں، افغانستان میں ناکامی کا ملبہ جس طرح پاکستان پر ڈالا گیا اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی کل کے اتحادی آج ایک دوسرے کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں ۔افغانستان میں امریکی شکست کچھ اس انداز میں ہے۔
پہلا دور (1979-1992)کا ہے ، اس میں امریکا فوج خود افغانوں اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ مل کر روسیوں سے لڑی اگرچہ اس میں اس کے فوجیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی لیکن اس کا اسلحہ اور ٹریننگ کسی نہ کسی حوالے سے اس میں اہم کردار ادا کرتی رہی۔ اس دور میں افغانوں نے ریکارڈ افیون کاشت کی اور پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ امریکا ، پاکستان ا وران کے اتحادیوں نے اس بات کی کوئی پروا نہیں کی پاکستان میں اس سے پہلے ہیروئن کے عادی زیرو تھے ،لیکن نوے تک ان کی تعدادڈ یڑھ لاکھ سے زیادہ ہو چکی تھی۔ پوری دنیا کی ساٹھ فی صد سے زیادہ ہیروئن افغانستان میں پیدا ہوتی تھی۔ وہاں سے افیم بنتی اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں اس کی درجنوں فیکٹریاں سرے عام قائم تھیں۔ ان میں متعدد فیکٹریاں حکمت یار کی ملکیت تھیں جو امریکا اور پاکستان دونوں کی ایجنسیوں کی آنکھ کا کا تارا تھا۔ یعنی اس دور میں افغان وار کو سب سے زیادہ مالی سہارا ہیروئن کی دولت سے ملا۔ اور اس کی طرف پوری دنیا آنکھ بند ہی نہیں رکھی بلکہ اس کی مکمل حوصلہ افزائی کی اور ہر سطح کے لوگوں نے اس میں اپنا اپنا حصہ بھی وصول کیا۔
دوسرا دور (1989-2001)اس میں امریکا روس کو شکست دلوانے کے بعد اپنا مقصد حاصل کرکے افغانوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر جا چکا تھا۔اب خوفناک خانہ جنگی شروع ہو چکی تھی۔ اس دوران تمام متحارف گروپوں کی آمدنی کا نوے فیصد سے زیادہ انحصار ہیروئن کی کمائی پر تھا۔ اس کی پیداوار دو ہزار ٹن سالانہ ہو چکی تھی۔ یہ مقدار پہلے دور سے کئی گنا زیاد تھی۔پھر جب طالبان کا دور آیا تو انھوں نے بھی اپنے پہلے دور تک یعنی سن 2000 تک اپنی قومی آمدنی کا مرکزی حصہ اسی کو قرار دیا۔ پھر اس پر پابندی لگا دی۔ اور یہ پیداوار حیرت انگیز طور پر صرف ایک سو پچاسی ٹن رہ گئی تاہم اس کے بدلے انھوں نے امریکا اور دنیا سے معاوضہ بھی لیا۔
اس کے بعد تیسرا دور شروع ہوا۔ یہ The War on Terror (2001-2016) کا دور ہے۔ اس میں امریکا اور اتحادیوں کو اسی طرح ناکامی ہوئی جس طرح سوویت یونین کو ہوئی تھی۔ ا ب کی مرتبہ افغانی طالبان کو کہیں سے کوئی سرمایہ ملنے کی توقع نہیں تھی اس لیے انھوں اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں ہیروئن کی پیداوار دوبارہ شروع کر دی۔ اگر چہ اس میں خاطر خواہ کمی ہوئی لیکن پھر بھی وہ اتنی ضرور تھی کہ طالبان اپنا خرچہ چلا سکتے۔ یوں یہ حیرت انگیز بات سامنے آئی کہ افغان جنگ میں افیون کی پیداوار اور ہیروئن کی پروڈکشن وہ مرکزی نقطہ ہے جسے امریکیوں نے بھلا دیا اور یوں شکست کا داغ اپنے سینے میں لگانے کو تیار بیٹھے ہیں جس طرح کہ سوویت روس !


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں