ہماری بھی کچھ ذمے داریاں بنتی ہیں یانہیں؟
شیئر کریں
مولانا محمد جہان یعقوب
اس کو برہنہ کیا گیا،اس کی عزت تار تار کی گئی،اسے پورے گاؤں میں مادر زاد حالت میں گھمایاگیا،سب گاؤں والوں نے دیکھا،کون تھے جن کے ایماپر ہوا،سب کو معلوم۔کرنے والے کارندے کون تھے،کسی سے مخفی نہیں۔مگرمنصف حشر توکیا برپا کرتا،وہ توابتدا میںان باتوں پر یقین کرنے کے لیے بھی تیار نہ تھا۔شریفہ بی بی کا قصور یہ تھا کہ وہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔اس معاشرے میں غریب ہونا اور غریب گھرانے سے تعلق رکھنا سب سے بڑا جرم ہے۔ہاں!سب سے بڑاجرم۔ غریب کا اخلاص بھی ریاکاری نظر آتاہے۔اس کا سچ بھی جھوٹ سمجھا جاتا ہے۔اس کا دعویٰ،اس کا مدعیٰ،اس کا مؤقف ،اس کا نالہ مکمل مبنی برحق ہوکر بھی غلط ٹھہرتاہے۔حواکی ایک مظلوم بیٹی پر قیامتِ صغریٰ پربا ہوئی،مگراین جی اوز،جوحقوقِ نسواں کا خود کوواحد علم بردار گردانتی ہیں،کی مہرِسکوت نہ ٹوٹی ،کیاشریفہ بی بی کیا عورت ذات نہیں تھی،یا اس کے ساتھ جوکچھ ہوا،وہ کوئی ظلم نہیں تھا،یااین جی اوز کوعورت اسی وقت یاد آتی ہے،جب کسی کو ملالہ یا مختاراں مائی بناکر ڈالر بٹورنے اور ملک کوبدنام کرنا ہو۔حیرت ہے شرمین عبیدصاحبہ پر،جنھیں اپنی بہن کوفرینڈریکویسٹ توہراسمنٹ لگی،اور اتنے بڑے واقعے کووہ ٹھنڈے پیٹوں پی گئیں!
شریفہ بی بی کے ساتھ جو ہوا،میڈیا پرآچکا ہے۔یہ سب دیکھ اور سن کرزبان گنگ،دل ودماغ سُن اور ذہن پرایک ہی سوال کلبلارہا ہے کہ:اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نوبت یہاں تک بھی پہنچ چکی ہے،آخر ایسا کیوں ہے؟یہ مادر پدر آزادی کی آگ دن بہ دن تیز کیوں ہوتی جارہی ہے؟رشتوں کا احترام وتقدس ،جومشرقی معاشرے کا طرۂ امتیاز ہے ،آخر کیوں دن بہ دن رخصت ہوتا جارہا ہے؟انسانیت کیوں بہیمیت وحیوانیت کی پگڑنڈیوں پر سرپٹ دوڑی چلی جارہی ہے؟انسان اور حیوان کا فرق کیوں مٹتا جارہا ہے؟طاقت ور یہ کیوں سمجھ بیٹھا ہے کہ وہ ناقابلِ تسخیر ہے،وہ جو چاہے کرے اسے پوچھنے والا کوئی نہیں؟بالادست کی بالادستی کا نوحہ ایک طرف،زیرِ دستوں نے بھی یہ کیوں طے کرلیا ہے کہ بالادست کی ہر جائز وناجائز بات کو ماننے میں ہی ان کی عافیت ہے،انھیں اس بالادست کی نافرمانی کرتے ہوئے کچھ بھی خیال کیوں نہیں آتا،جس سے بالادست کوئی نہیں! غرض،جدھر دیکھیے!المیے ہی المیے بکھرے پڑے ہیں۔کوئی مال و زر کی چمک کے سامنے اندھا بن چکا ہے،توکوئی مال وزر کی ہوس میں،حالاں کہ یہ بھی پتھر پر لکیر کی طرح انمٹ وناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ساتھ کچھ نہیں جائے گا،سب کا سب یہاں رہ جائے گا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا،جب لاد چلے گا بنجارا
عرش والے کے اپنے اصول ہیں،اس کے ہاں غریب ،امیر کی تفریق نہیں،لیکن اس کے حوصلے بہت بڑے ہیں،اس کا تحمل بہت طویل ہے،اس کی ڈھیل بڑی لمبی ہے،اس کی رسی بڑی دراز ہے۔یہ بھی ہے کہ وہ جب رسی کھینچتا ہے،توخدائی کے دعوے داروں کی بھی عقل ٹھکانی آجاتی ہے،وہ بھی منتیں ترلے کرنے لگتے ہیں،اپنی صفائیاں دینے لگتے اور خدائی پکڑ سے نکلنے کے جتن کرنے لگتے ہیں،ربِ موسیٰ وہارون پرایمان کے اعلانات ہوتے ہیں،لیکن کہا جاتاہے:بس بہت ہوچکی،اور رسی کھینچ لی جاتی ہے۔عالم یہ ہوتا ہے کہ خود کو سجدے کرنے والے فراعنۂ وقت بھی جب پیوند ِخاک ہوتے ہیں توان پر رونے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔جولوگ ان کے جبروقہر سے بچنے کے لیے ان کے آگے پیچھے پھرتے ہیں،وہ بھی کہتے ہیں:چلو!اچھا ہوا،خس کم جہاں پاک!
اولاد کی تربیت کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں مجموعی طور پرجس مجرمانہ تساہل اور مہلکانہ تغافل سے کام لیا جارہا ہے،اس کو دیکھ کرافسوس ہوتا ہے۔والدین کے پاس اولاد کے لیے اور اولاد کے پاس والدین کے ساتھ بیٹھنے کا وقت نہیں۔گھرکامفہوم صرف یہ بن کرررہ گیا ہے کہ اس میں رات گزارلی جائے،تمام افرادِخانہ کی موجودگی بھی اکثر رات کو ہی ہوتی ہے،اس کے علاوہ کون کہاں ہے؟کیا کررہا ہے؟کس کی کیا سرگرمیاں ہیں؟اس جانب کسی کی کوئی توجہ نہیں۔جواجتماعیت کے اوقات تھے،جن میں اہلِ خانہ مل بیٹھتے تھے،ایک دوسرے کے ساتھ معاملات ومسائل شیئر کرتے اور ڈسکس کرتے تھے،وہ اوقات اب میڈیاکی نذر ہوچکے ہیں۔پہلے ٹی وی گھرکی اجتماعیت میں حائل ہوا،اب توانٹرنیٹ کی وجہ سے میڈیاہماری اجتماعیت کو یوں کھا چکا ہے ،کہ اس جانب کسی کی توجہ بھی نہیں۔
کسی کی تربیت کے لیے اس کی نگرانی کرنے کواس کی پرائیویسی میں دخل اندازی تصور کیا جاتا ہے۔حالاں کہ جس اسلام اور نبیٔ مہربان ﷺ کے ہم نام لیوا ہیں ،ان کی صاف تعلیم ہے،کہ والدین کواولاد کی تربیت کے معاملے میں اپنی ذمے داریوں سے لمحہ بھر کے لیے بھی ٖغافل نہیں ہونا چاہیے۔ کبھی توتربیت کواولاد کے حق میں سب سے بہترین تحفہ قرار دیے کر،کبھی گھر کے بڑوں کواپنی رعایا کا حاکم ونگہبان قرار دے کر،توکبھی اولاد کی تربیت کے لیے ہمہ وقت مستعد رہنے کا درس دے کر،غرض مختلف انداز میں ہمارا دین اور نبیٔ رحمت ﷺ ہمیں اس نازک ذمے داری کی جانب متوجہ کرتے ہیں۔یہ اسلامی تعلیمات سے دوری اور مغرب ویورپ سے بیجا مرعوبیت اور ان کی اندھی پیروی ہی کا نتیجہ ہے کہ ہم اس اہم معاملے میں غفلت کا مظاہرہ کرنے لگے ہیں۔خاکم بدہن،جب والدین نے اولاد کی تربیت کی ذمے داری سے ہاتھ کھینچ لیے ،توشیطانی وابلیسی عناصر نے میڈیاکے محاظ سے اس خلا کو پُرکرنا شروع کردیا۔ہمارے بچوں کو کارٹون فیکشنزکے ذریعے،ہمارے نوجوانوں کو ڈراموں اور فلموں کے ذریعے ،اپنی تہذیب،اپنی معاشرت،اپنی اقدار سے بے گانہ کیا،اپنے مشرقی رسم ورواج سے باغی بنایا،اپنی دینی ومذہبی تعلیمات سے دور کیا،اور اس کی جگہ مادر پدرآزادمغربی تہذیب وثقافت اور ہندوانہ معاشرت کے جراثیم کویوں ان کچے ذہنوں میں انجیکٹ کیا،کہ اب مسلم بچہ ہویانوجوان،مغربی تہذیب وثقافت اور ہندوانہ معاشرت کی تقلید کررہاہے،رہی سہی کسرموبائلوں کے لیٹ نائٹ پیکیجز اور انٹرنیٹ نے پوری کردی۔
ڈیرہ اسماعیل خان کا واقعہ ہم سب کے لیے تازیانہ ٔ عبرت ہے۔ہمیں آنکھیں کھولنی چاہئیں۔سماج سے شکوے شکایت بجا،مگرہمیں اپنی کم زوریوں کا بھی اعتراف اور ان کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔ہمیں نوجوانوں کی بروقت شادیوں کو رواج دینا ہوگا،تاکہ وہ جذبات کی رومیں بہہ نہ جائیں،جیسا کہ ہورہا ہے۔حال ہی میں سیینٹ سے بچی کی شادی کی کم ازکم عمر میں ایک سال کا اضافہ کرانے والے معزز ممبران کے پاس کیا ان رِ ستے معاشرتی ناسوروں کا بھی کوئی حل ہے؟کیا یہ معاشرے کومزید جنسی انارکی کی جانب دھکیلنے کی کوشش نہیں!کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا!