تحریک انصاف کے کارکن پیپلز پارٹی کی دہلیز تک کیسے اور کیوں پہنچے
شیئر کریں
محمد اشرف قریشی
یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے اور صداقت کی خوشبو آرہی ہوتی ہے کہ سیاسی جماعتوں کا وجود اور قیام ناگزیر ہے جس کے بغیر کوئی ملک ترقی کرسکتا ہے اور نہ ہی قوم خوشحالی کی بہاریں دیکھ سکتی ہے لیکن ہم نے اپنے مشاہدات سے حالات کا بغور جائزہ لیاتو ہمیں یہ راز ملتا رہا اور ہم اس کا ذکر بڑے تسلسل کے ساتھ کرتے رہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے سیاستدان دور اندیشی، افہام و تفہیم ، باہمی رواداری اور حقیقت شناسی سے محروم ہوچکے ہیں، اخلاقی قدروں کو فراموش اور اخوت و بھائی چارگی کی نعمتوں سے دور نکل چکے ہیں اور کسی بھی ذمہ دار سیاستدان نے ہماری تجاویز پر تدبر کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔ عوام اور سیاست لازم و ملزوم ہیں کہ یہ رشتہ ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں ہوسکتا اور اب تو انسان نے سیاست کو روح کا درجہ دے رکھا ہے اور اگر سیاست کا رشتہ ٹوٹتا نظر آرہا ہوتا ہے تو وہ روح کو ثانوی حیثیت دے کر سیاست کو اہمیت کا حامل تعلق دے کر قائم و دائم رکھتا ہے، مگر ٹھہریئے….!
ہم حقیقت کے راز کا دوسرا دروازہ بھی کھولتے ہیں تاکہ سیاسی سوداگروں اور تاجروں کی سوچ اور فکر خواب غفلت سے بیدار ہوجائے۔
زمانہ شناس لوگ باخبر اور آگاہ ہیں کہ کوئی سیاسی پارٹی اس وقت تک سیاسی زندگی کو برقرار، قائم اور دائم رکھتی ہے جب تک اُس کے کاروانِ سیاست میں بیدار، ہوشمند، پیکر اخلاص اور جانثار کارکن موجود ہوں اور یہ بھی ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اگر کسی جماعت کا راہنما فہم و فراست، عقل و شعور اور سیاسی کردار کی بلندیوں کو چھورہا ہو اور اس کے کارکن مایوسی کا شکار ہوکر پارٹی یا جماعت سے علیحدگی کا رُخ اختیار کرلیں تو پھر ایسی جماعت بنجر سیاسی زمین بن جاتی ہے اور پھر یہ جماعت اگر مزید تیاری میں سرگرم ہوکر نئے کارکن بنانے کا سلسلہ جاری کرتی ہے تو پھر بہت وقت لگے گا اور سیاسی تعمیر میں مدت درکار ہوگی ۔ پاکستان پیپلز پارٹی بلاشبہ وہ قومی جماعت ہے جس سے قوم نے بڑے تزک و احتشام کے ساتھ سیاسی اور نظریاتی رشتہ استوار کیا تھا قوم اور ذوالفقار علی بھٹو کے رشتہ¿ تعلق کے درمیان کوئی سازش اور مخالفت کارگر اور کامیاب ثابت نہ ہوسکی مگر یہ بھی صداقت کا آئینہ دار ہے کہ اس پارٹی کو جتنی قربانیوں کا سامنا رہا اور جتنے مخالفتوں کے پہاڑ اس کے سرگرے اگر اس پارٹی کے کارکنان پارٹی کے تعلق کو رشتہ¿ عقیدت میں بدل نہ چکے ہوتے تو آج یہ پارٹی قصہ¿ پارینہ بن چکی ہوتی، جبکہ ملک کی دیگر جماعتوں میں تحریک انصاف کا شمار بھی وفاقی سیاست میں ہوچکا ہے۔ عمران خان کے ساتھ بھی عوام بڑے جوش و خروش اور بھرپور جذبہ کے ساتھ شامل ہوئی اور عمران خان کی سیاست کو معراج پرلے گئی مگر عمران خان کی شفاف سیاست کے باوجودپسپائی کی طرف جاتی رہی اور کارکنان مایوس ہوتے ہوئے سیاست کے دوسرے اور نئے دروازے کھٹکھٹاتے نظر آئے، یوں تو ان کارکنوں کی خاصی تعداد موجود ہے جو دل برداشتہ ہوکر یا تو گھر بیٹھ گئے یا پھر دوسری جماعتوں سے اپنی وابستگی کا فیصلہ کر بیٹھے، جسٹس وجیہ الدین جیسے دور اندیش اور کہنہ مشق سیاستدان بھی زیادہ دیر نہ چل سکے، اب کراچی جیسے عظیم شہر سے بھی کارکنوں کا انخلا شروع ہوچکا ہے گزشتہ سے پیوستہ روز تحریک انصاف کے ان کا رکنوں کا پیپلز پارٹی میں باضابطہ اور باقاعدہ شمولیت کا اعلان ہوا جنہوں نے تحریک انصاف کی اسی طرح پرورش کی تھی جس طرح ماں اپنے بچے کی کرتی ہے، ان میں شاہنواز صدیق، نعیم شیخ، زبیر اکرم ندیم، مصباح خان اور آصف خٹک سرفہرست تھے ان کا بلاول ہاﺅس میں پرجوش استقبال ہوا اور ان کی پریس کانفرنس ہوئی ۔پیپلز پارٹی سندھ کے نو منتخب صدر جناب نثار کھوڑو، سینیٹر سعید غنی، راشد ربانی، وقار مہدی اور نجمی عالم پریس کانفرنس میں موجود تھے، تحریک انصاف کے ان کارکنوں اور رہنماﺅں نے اپنی شمولیت اور وابستگی کے پس منظر پر اظہار خیال کیا لیکن یہ عنصر نمایاں محسوس کیا گیا کہ کسی نے بھی عمران خان کو ہدف تنقید کا نشانہ نہیں بنایا بلکہ سیاسی اور نظریاتی کمزوریوں کو اپنی علیحدگی کی بنیاد قرار دیا۔ ہمیں یہ شدت سے محسوس ہوا کہ عمران خان کے سیاسی بازار میں ایسے سیاسی سوداگر اور دکاندار بیٹھ گئے جن کے پاس کوئی سیاسی تجربہ نہیں اور نہ ہی نظریاتی علم ہے جس کی وجہ سے سیاسی بازار سیاسی پسماندگی کا شکار ہوگیا اور سیاسی بصیرت کے دانشوروں نے یہ کہہ کر دریا کوزے میں بند کردیا کہ جب کوئی سیاسی پارٹی، جماعت یا تنظیم کے سیاسی دریا میں کارکنوں کی بغاوت کی لہر چل پڑے تو وہ دریا خشک ہوجاتا ہے اور اُس دریا کی مچھلیاں بھی دم توڑ دیتی ہیں اور ہم یہ دیکھ کر ورطہ¿ حیرت میں نہیں پڑے بلکہ یہ مکافات عمل ہے ہم نے اپنے طور بالعموم ملک کی تمام سیاسی جماعتوں اور بالخصوص تحریک انصاف کو یہ صائب مشورہ دیا بلکہ دیتے آرہے ہیں کہ کارکنوں کی عزت نفس کو مجروح نہ کیا جائے کیونکہ باشعور، سنجیدہ اور جفا کش کارکنوں کی سیاسی و نظریاتی مشقت سے ملک کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی کا خواب شرمندہ¿ تعبیر ہوسکتا ہے مگر ملک کی سیاسی صورتحال جو آج کل زوال پذیر ہے یہ اسی کا پیش خیمہ ہے کہ سیاستدان کارکنوں کو مقام دینے سے قاصر ہیں۔