میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاکستان کا پہلا قومی ترانہ اور حافظِ اقبال ؒ

پاکستان کا پہلا قومی ترانہ اور حافظِ اقبال ؒ

منتظم
بدھ, ۹ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

anwaar-haqqi

انوار حسین حقی
یومِ اقبال ؒ کے موقع پر آدھے پاکستان میں تعطیل تھی اور آدھے پاکستان میں کارِ سرکارکی انجام دہی کا سلسلہ جاری رہا ۔معاملہ چھُٹی کا نہیں وابستگی اور دلبستگی کا ہے ۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار نے ” یومِ اقبال “ کی چھٹی کے لیے اپنے حضور پیش کی جانے والی سمری مسترد کردی تھی ۔ گزشتہ سال موجودہ حکومت نے بیٹھے بٹھائے اچانک 9 نومبر کی تعطیل کی 64 سالہ قومی روایت کوختم کر دیا تھا۔ اس حکومتی فیصلے کا پس منظر کیا ہے ؟؟؟ یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔
ایک ہفتہ سے اخبارات اور سوشل میڈیا میں مصورِ پاکستان کے پوتے بیرسٹر ولید اقبال کی وہ تصویر سنجیدہ حلقوں اور اقبالؒ سے عقیدت رکھنے والوں کے لیے اذیت کا باعث بنی ہوئی ہے جس میں اسلام آباد پولیس کے اہلکار انہیں گریبان سے پکڑ کر گھسیٹ رہے ہیں ۔۔۔ ”اقبالؒ کے دیس “ میں اقبالیات سے ہونے والے سلوک کا نوحہ لکھنے کا سوچا تو انجمن ترقی اردو ( ہند) نئی دہلی کی شائع کردہ کتاب ”حیاتِ محروم“ کا صفحہ 130 سامنے آگیا ۔ بھارت میںاقبالؒ کی نشاة الثانیہ کا سبب بننے والے ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد کی تحریر کے مندرجات بے قراری میں اضافے کا سبب بن رہے تھے ۔۔۔ اقبالیات کے اس عاشق کو جو اسی مٹی کا فرزند تھا ہم نے اُس کے نابغہ روزگار والد تلوک چند محروم سمیت مہاجر بنا کر بھارت بھیج دیا تھا ۔ وہ لکھتے ہیں کہ ”رات کو جب قیامِ پاکستان کا اعلان ہوا تو ریڈیو پاکستان لاہور سے میرا قومی ترانہ
ذرے تیرے ہیں آج ستاروں سے تابناک
اے سر زمینِ پاک
اپنے وطن کا آج بدلنے لگا نظام
اپنے وطن میں آج نہیں ہے کوئی غلام
اپنا وطن ہے راہِ ترقی پہ تیز گام
آزاد ، با مُراد ، جواں بخت، شاد کام
اب عطر بیز ہیں ، جو ہوائیں تھیں زہر ناک ۔
نشر ہوا ۔ اور اس تصویر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ دوسرے دن 15 ۔ اگست کو جب ہندوستان کا جشنِ آزادی منایا جارہا تھا تو آل انڈیا ریڈیو دہلی سے حفیظ جالندھری کا ترانہ
اے وطن اے انڈیا اے بھارت اے ہندوستان نشر ہو رہاتھا ۔۔۔
پاکستان کے پہلے قومی ترانے کے خالق ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد کا تعلق میانوالی کے علاقے عیسیٰ خیل سے تھا وہ اپنے دور کے نامور شاعر تلوک چند محروم کے صاحبزادے تھے ۔ قیامِ پاکستا ن کے وقت تلوک چند محروم راولپنڈی میں جبکہ آزا د لاہور میں تھے دونوں پاکستان چھوڑنا نہیں چاہتے تھے ۔ لیکن حالات بگڑتے چلے گئے ، ہندو مسلم فسادات اپنی انتہا کو پہنچے تو دونوں ہجرت پر مجبور ہوگئے تھے ۔
ڈاکٹر رفےع الدےن ہاشمی لکھتے ہےں۔”تقسےم ہند کے ابتدائی برسوں مےں بھارت مےں اقبال ؒ کا نام لےنے والوں کو فرقہ پرست اور بھار ت دشمن خےال کےا جاتا تھا۔ےوں سمجھئے کہ اقبالےات کے حوالے سے سناٹا چھاےا ہوا تھا۔جگن ناتھ آزاد نے اس سناٹے کو توڑا۔اس ضمن مےں اےک واقعے کا ذکر قارئےن کے لیے دلچسپی کا باعث ہوگا۔کشمےر ےونےورسٹی کے وائس چانسلر آصف علی اصغر فےضی نے آزاد سے فرمائش کی کہ وہ ےونےورسٹی مےں غالب پر تےن لےکچر دےں۔آزاد نے کہا کہ آپ مجھ سے اقبال ؒ پر لےکچر دلوائےے۔وائس چانسلر کو کچھ تعجب ہوا۔۔ وہ کہنے لگے 1947 ءسے آج تک تو جموں و کشمےر ےونےورسٹی مےں کسی نے اقبال ؒ کا نام نہےں لےا ۔آزاد نے اقبال ؒ پر لےکچروں کے حق مےں کچھ دلائل دےے اور کہا کہ ےونےورسٹی مےں اقبال ؒ پر لےکچرز کا انتظام بہت پہلے ہونا چاہےے تھا۔وائس چانسلر کو پھر بھی اےسا قدم اُٹھاتے ہوئے تامل تھا۔ انہوں نے سوچ بچار کے لیے کچھ وقت مانگا۔آخر کئی روز کے غورو فکر کے بعد وائس چانسلر نے آزاد کو اقبال ؒ پر لےکچرز کا دعوت نامہ بھجوا دےا۔اس وقت وہ حکومتِ ہند کے محکمہ اطلاعات مےں ملازم تھے۔لےکچر انہوں نے تےار کر لیے، مگر جب محکمے سے سری نگر جا کر لےکچر دےنے کی اجازت مانگی تو متعلقہ وزےر صاحب نے درخواست مسترد کر دی۔اور اس موضوع پر بات کرنے کے لیے وزےر اطلاعات انڈےا نے آزاد کی بات سننے سے بھی انکار کر دےا۔انہی دنوں سجاد ظہےر جےسے نام نہاد ترقی پسند دانشوروں نے آزاد پر الزام لگاےا تھا کہ وہ اقبالؒ پر لےکچروں کے ذرےعے مسلم فرقہ پرستی کو فروغ دے رہے ہےں۔“
دنےا کی سب سے بڑی جمہورےت ہونے کے دعوےدار ملک بھارت مےں اقبال ؒ دشمنی عروج پر تھی۔گور کھ ےونےورسٹی نے بھارت کے اےک اور اقبالؒ شناس ڈاکٹر عبد الحق کو اقبالؒ پر ڈاکٹرےٹ کرنے کی اجازت نہ دےتے ہوئے کہا تھا کہ اقبالؒ ہندوستان دشمن تھے۔اور اس پر پی اےچ ڈی کرنے کی اجازت نہےں دی جا سکتی“۔اےسے کٹھن حالات اور گھٹن زدہ ماحول مےں ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد نے بھارت مےں اقبالےات کو عام کرنے کا سلسلہ شروع کےا۔1973 ءمےں ” اقبال نمائش “ کا اہتمام کےا۔اس نمائش کے باعث انہےں زبردست عتاب کا سامنا کرنا پڑا۔انہےں غدار اور ملک دشمن کہا گیا۔ہندو اخبارات نے ادارےے تحرےر کیے اور لکھا”ان دنوں اگر بھارت مےں مسلم نواز حکومت ( جنتا پرٹی کی حکومت ) نہ ہوتی تو آزاد جےل کی سلاخوں کے پےچھے ہوتے۔اقبالؒ کی آفاقی حےثےت اپنے آپ کو خود منواتی ہے۔کچھ اقبال ؒ کی آفاقےت کا کمال تھا کچھ جگن ناتھ آزاد کی محنتوں کا ثمر ، بھارت کے علمی اور ادبی حلقے اقبالےات کو تسلےم کرنے پر مجبور ہو گئے۔اِسی سال( 1973 ئ) مےں دہلی مےں اےک بےن الاقوامی اقبال ؒ کانگرس کا انعقاد ہوا۔اس کانگرس کے سےکرٹری ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد تھے۔اس کے بعد اقبالےات بھارت کے طول و عرض مےں پھےلتی چلی گئی۔کشمےر ےونےورسٹی مےں اقبال ؒ چےئر قائم ہوئی۔جو اَب اقبال ؒ انسٹی ٹےوٹ کے نام سے اقبال ؒ شناسی کا کام کر رہی ہے۔اس انسٹی ٹےوٹ کے زےر اہتمام اقبالےات پر اےم فل اور پی اےچ ڈی لےول کا کام ہورہا ہے۔
”اقبال ؒ صدی “کے حوالے سے دسمبر 1977 مےں ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد پاکستان آئے۔ اےک ملاقات کے دوران انہوں نے صدر پاکستان جنرل محمد ضےاءالحق مرحوم سے درےافت کےا کہ پنجاب ےونےورسٹی لاہور مےں اقبال ؒ چےئر قائم ہے۔ جنرل ضےاءالحق مرحوم نے پنجاب ےونےورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر خےرات محمد ابنِ رساءکی جانب سوالےہ انداز مےں دےکھا۔
وائس چانسلر نے نفی مےں جواب دےا۔
آزاد اس موقع پر گوےا ہوئے ©©” جنرل صاحب کشمےر( مقبوضہ ) ےونےورسٹی پنجاب ےونےورسٹی سے آگے بڑھ گئی ہے۔“ جنرل ضےاءالحق مرحوم نے فوری طور پنجاب ےونےورسٹی لاہور مےں اقبال ؒ چےئر قائم کرنے کا حکم دےا۔ ےوں اقبال ؒ کے خواب کی تعبےر پاکستان کی ےونےورسٹی مےں اقبالؒ چےئر کا قےام بھی ڈاکٹر جگن ناتھ آزادکا تحفہ قرار دےا جا سکتا ہے۔اسی سال صدر جنرل محمد ضےاءالحق مرحوم نے حکومتِ پاکستان کی جانب سے ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد کو ” اقبال اےوارڈ “ عطاءکےا تھا۔
آزاد ہندو ہونے کے باوجودکھلے ذہن اور کھلے دل کے مالک تھے۔ وسےع القلبی ، بے تعصبی،اسلام و مسلمانوں کے ساتھ انہوں نے ہمےشہ خےر سگالی کے جذبات کا اظہا ر کےا۔1949 ءمےں انہوں نے ©©”بھارت کے مسلمانوں ” کے عنوان سے اےک معرکة الآراءنظم بھی لکھی تھی۔بابری مسجد کی شہادت پر انہوں نے اپنے جذبات کا اظہار اس انداز مےں کےا تھا کہ
ےہ تُو نے ہند کی حُرمت کے آئےنے کو توڑا
خبر بھی ہے تجھے مسجد کا گنبد توڑنے والے
ہمارے دل کو توڑا ہے عمارت کو نہےں توڑا
خباثت کی بھی حد ہوتی ہے اے حد توڑنے والے
جگن ناتھ آزاد کی مادری زبان پنجابی اور قومی زبان ہندی تھی۔ لےکن انہوں نے ہمےشہ اپنے دامن مےں اردو کی محبت کو سموئے رکھا ۔ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد کی علمی ادبی خدمات مےں ان کی تخلےقات بہت نماےاں ہےں ۔ اقبالےات کے حوالے سے ان کی جو کتب منظرِ عام پر آئی ہےں ان مےں اقبال ؒ اور اس کا عہد،اقبالؒ اور مغربی مفکر،اقبالؒ کی کہانی ،اقبال ؒ اور کشمےر،مرقع اقبال( البم (،اقبالؒ اےک ادبی سوانح حےات ،اقبال ؒ کی زندگی شخصےت اور شاعری،اقبال ؒ مائنڈ اےنڈ آرٹ(انگرےزی ) ، اوراقبالؒہزپوئٹری اےنڈ فلاسفی( انگرےزی ) شامل ہےں۔ان کی شاعری کی کتب مےں بےکراں،ستاروں سے ذروں تک،اردو، وطن مےں اجنبی،نوائے پرےشاں اور بوئے رسےدہ نماےاں ہےں جبکہ نثری تخلےقات مےں مےرے گزشتہ شب و روز( خود نوشت )،آنکھےں ترستےاں ہےں ( خاکے )،نشانِ منزل( تنقےدِ ادب)، پشکن کے دےس مےں( سفر نامہ )،کولمبس کے دےس مےں ( سفر نامہ )،حےاتِ محروم ( سوانح عمری ) گراں قدر ادبی اثاثے کے طور پر محفوظ ہےں۔
28 جولائی2004 ءڈاکٹر جگن ناتھ اقبال ؒ شناس حلقوں کو اداس چھوڑ کر اس دنیا سے چلے گئے ۔اقبال شناسی اور ارُد و کے حوالے سے ان کی خدمات ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ وہ اقبالؒ کے کلام کو ازبر کرنے کے حوالے سے ہمےشہ حافظِ اقبال کہلائےں گے۔برصغےر مےں جب بھی روشن خےالی، خےر سگالی اور بے تعصبی کا ذکر آئے گا تو ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد کا نام روشنی کی کرنےں بکھےرے گا۔ اقبالؒ کے عاشق اور اقبالیات کے پروانے مایوسی کی بجائے اُمید کے دیے روشن کرتے رہیں گے ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں