میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
آلودگی کا اقتدار

آلودگی کا اقتدار

منتظم
بدھ, ۹ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

ندیم الرشید
فضائی آلودگی سے متاثر ممالک میں پاکستان چوتھے نمبر پر آگیا ہے، عالمی ادارہ صحت کی طرف سے حال ہی میں جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق دنیا میں 10 میں سے 9 افراد آلودہ فضا میں سانس لے رہے ہیں اور دنیا کی 92 فیصد آبادی ایسے مقامات پر رہ رہی ہے جہاں فضائی آلودگی کے باعث امراض قلب، فالج، سرطان اور دیگر بیماریاں عام ہیں اور ہر تین میں سے 2 اموات ان بیماریوں سے ہوتی ہیں، اس رپورٹ کے مطابق فضائی آلودگی سے متاثرہ ملکوں میں پاکستان چوتھے نمبر پر ہے، یہاں ایک لاکھ میں سے 33 افراد فضائی آلودگی کے نتیجے میں ہلاک ہوجاتے ہیں، یہ تعداد سالانہ 60 ہزار تک پہنچتی ہے، آلودہ فضا میں سانس لینے سے آلودگی کا تھوڑا سا حصہ دماغ میں بھی پہنچتا ہے جو دماغی رگوں اور نسوں کو متاثر کرتا ہے اور وہاں خون کے لوتھڑے بن جاتے ہیں جو بعدازاں فالج کا سبب بن جاتے ہیں۔
فضائی آلودگی ایک زہر ہے، سوال یہ ہے کہ دنیا میں فضائی آلودگی یعنی ہوا میں شامل زہر کی مقدار کیوں بڑھتی جارہی ہے؟ اس کا اصل سبب کیا ہے اور ایسا کیوں ہورہا ہے؟ فضائی آلودگی کی بنیادی وجہ دنیاکے ملکوں کے درمیان صنعتی ترقی کی دوڑ ہے، دنیاکا ہر ملک آج اس کوشش میں ہے کہ وہ صنعتی ترقی بڑھا کر زیادہ سے زیادہ سرمایہ حاصل کرے، لیکن اس صنعتی ترقی کے نتیجے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے بے تحاشہ اخراج نے اوزون کی تہہ میں شگاف ڈال دیا ہے جو دنیا بھر میں گلوبل وارمنگ یعنی عالمی درجہ¿ حرارت میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔
عالمی ماحولیاتی معاہدے کیوٹو پروٹوکول (Kyoto Protocol) کے تحت دنیا کے تمام ماحولیاتی سائنسدانوں نے تمام صنعتی ممالک کو پابند کیا کہ وہ صنعتی ترقی کا پہیہ فوراً روک دیں ورنہ دنیا تباہ ہوجائے گی لیکن امریکا اور روس نے اس حکم کو ماننے سے انکار کردیا، حالانکہ کرہ¿ ارض کی فضائی آلودگی کی ایک چوتھائی ذمہ داری امریکا پر عائد ہوتی ہے، لیکن ان ملکوں کا کہنا تھا کہ بحروبر پر ہماری برتری اسی ماحولیاتی آلودگی کا حاصل ہے، اسے چھوڑ کر ہم اپنا تسلط دنیا پر قائم نہیں رکھ سکتے گویا دنیا تباہ ہوجائے، لیکن ان ممالک کو اپنی بالادستی عزیز ہے۔
اقوام متحدہ کے ماحولیاتی سائنس دانوں کا گروہ جو سیکڑوں ماہرین پر مشتمل ہے، اور IPCC (Intergovermental Panel On Climate Change) کہلاتا ہے تمام صنعتی ملکوں کو انتباہ کررہا ہے کہ اگر انہوں نے صنعتی ترقی نہ روکی تو اُس کی آلودگی سے جہاں اس وقت وسیع علاقے اور زائد آبادی والے غریب ممالک خشک سالی، سیلاب، حیوانات کے معدوم ہونے اور سمندر کی سطح بلند ہونے سے ناقابل تلافی نقصان اٹھارہے ہیں وہیں قطبین پر برف پگھلنے اور عالمی درجہ حرارت میں تیزی سے ہونے والے اضافے کے نتیجے میں یقینا کرہ¿ ارض کی تاریخ میں سب سے بڑا حادثہ جنم لے سکتا ہے، ایسا حادثہ جسے ہم ماحولیاتی ایٹم بم بھی کہہ سکتے ہیں، جس کے نتیجے میں کثیر الآباد ساحلی علاقے صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے اور بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کے ساتھ بیماریاں پھیلیں گی۔
جدید صنعتی ترقی یافتہ ممالک نے بحروبر میں جو آلودگی پھیلائی ہے اُس کے نتیجے میں ہزاروں لاکھوں اقسام کے پرندے، آبی حیات، پودے، جانور اور خدا کی مخلوق صنعتی فضلے کے زہریلے مواد کے باعث تہس نہس ہوگئی ہے، IUCN کے مطابق دنیامیں سالانہ 50 ہزار مختلف قسم کے پودے اور جانور ناپید ہورہے ہیں یعنی روزانہ 137 نایاب پودے اور جانور دنیا سے ختم ہورہے ہیں، اس پر مستزاد دنیا کے گھنے ترین جنگلات جو برازیل میں تھے جنہیں دنیا کے پھیپھڑے کہا جاتا ہے، تیزی سے کاٹے جارہے ہیں، سمندر میں اس قدر آلودگی پھیل چکی ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کا نظام جو زیر سمندر تھا ختم ہوچکا ہے، گرین پیس کی رپورٹ کے مطابق ری سائیکل کیے جانے کے نام پر صرف غریب ملکوں کے سمندر میں ساڑھے 6 ارب ٹن سے زیادہ زہریلا صنعتی فضلہ ڈالا جارہا ہے جس سے سمندری زندگی پوری دنیا میں خطرات سے دوچار ہوچکی ہے۔
چنانچہ دنیا بھر کے ماہرین ماحولیات IUNC، گرین پیس اور WWF جیسی تنظیمیں چیخ رہی ہیں کہ اس دنیا کو بچایا جائے، اس چیخ و پکار کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکا نے NASA اور دیگر اداروں میں کام کرنے والے ماہرین ماحولیات اور سائنس دانوں کو دھمکی دی کہ ”وہ اپنی تحقیقات و نتائج صحافیوں تک نہ پہنچائیں اور اپنا منہ بند رکھیں۔“ یہ درست ہے کہ امریکی سب سے زیادہ آلودگی پیدا کررہے ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہی آلودگی عالمی اقتدار کی ضمانت ہے، چنانچہ اس بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ اگر صنعتی ترقی یافتہ ممالک نے اپنی ترقی کی رفتار کو نہ روکا تو پھر آنے والی نسلوں کےلیے صرف ریت اُڑاتے صحرا ، خشک جنگل، بنجر علاقے، آلودہ فضائیں اور زہریلی ہوائیں باقی رہ جائیں گی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں