طاقت کی وحشت کا زوال !
شیئر کریں
بے نقاب /ایم آر ملک
دنیا میں جتنی عمر ظلم کی ہے اُتنی اُس کے خلاف احتجاج کی ہے!
لیکن یہ جمہوری معاشروں میں ہوتا ہے کہ آپ کے احتجاج کو ثبات ملے، پاکستان میں وہ کھوٹے سکے جو اس کی بنیاد کے ساتھ ہمارے حصے میں آئے آج تک اقتدار کے ایوانوں پر بر اجمان ہیں جنہوں نے سچائی کی طاقت کو اپنے حق میں مولڈ کرنے کی کوشش کی۔ ازل سے ایسے واقعات ہمارے سامنے صفحۂ قرطاس پر بکھرے بااثر کے مظالم کی یاد دلاتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ کو چوروں کے ساتھ کھڑا کیا گیا ،سقراط کو زہر کا پیالہ محض اس لئے پینا پڑا کہ وہ اپنے عہد کا سچا انسان تھا۔ پاک دھرتی پر ہر آمر کے خلاف کسی نہ کسی سچے کی بغاوت کا ایک ایسا باب ملتا ہے جو کھلنے کے بعد بند ہونے کا نام نہیں لیتا ۔صفحے پلٹتے ہیں تو ظلم کی نئی داستان کا آغاز ملتا ہے۔
صحافت میں ایسے ایسے باکردار ملتے ہیں جن کے کردار سے آنکھیں وضو کرتی ہیں شورش کاشمیری کے قد کے سامنے ہر کوئی ہیچ نظر آتا ہے ۔ایوبی آمریت کے ایوانوں میں زلزلہ بر پا کر دینے والی اس آواز کو خاموش کرنے کیلئے شاہی قلعہ کے زنداں میں ڈالا گیا ،مگر موت سے واپسی بھی اُس کے سچ پر ضرب نہ لگا سکی ،حسن ناصر ضیائی آمریت کے دوران لاہور کے اسی شاہی قلعے میں سچائی پر کاربند رہنے کے جرم میں شہید کہلایا ،کئی کمریں آج بھی اُن کوڑوں کے نشانات لئے ہوئے ہیں جو ایک آمر کی فسطائیت کی شکل میں اُن کے جسم پر برس گئے مگر اپنے حقوق کیلئے احتجاج کا کارواںچلتا رہا ،شہر اقتدار کے ڈی چوک میں شہروں سے رواں دواںدھرتی کے بیٹوں نے اپنے طاقتور احتجاج سے ثابت کیا ہے کہ سچائی پر کھڑے لوگوں کو شکست دینا ہمیشہ ناممکن رہا ،ریاستی پولیس ،ایف سی کے دستوں اور رینجرز کے ذریعے جذبات اور نظریات کو فتح کرناناممکن ہوتا ہے ۔یہ طاقت کی وحشت کا زوال ہے!
2024کے الیکشن میں شریف خاندان کو ملنے والی مبینہ جیت کی شکست کے اثرات آئے روز گہرے ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ عوام کے شعور پر فتح کے جھوٹ کو مسلط کرنے کی سرتوڑ کوشش ناکامی سے دوچار ہے۔ زر خرید ٹی وی چینلز نے 9فروی کو جس جشن کا سماں باندھا وہ دراصل عوام کے حق ِ خود ارادیت کے چرائے جانے کا تماشا تھا۔ فارم 47پر ایک سرمایہ دار حکمران کی جس مبینہ جیت کو عوامی حمایت قرار دیا جا رہا تھا محض ایک فریب تھا ،ایک دھوکہ تھا ۔یہ انتخابی نتائج لے پالک الیکشن کمیشن کی طرف سے کئے گئے بے ہودہ فراڈ کو عیاں کرنے کیلئے کافی ہیں۔ ایک ایسی جمہوریت کا ناٹک جو خود ساختہ تخلیقی اعداد و شمار کا گورکھ دھندا ہے ۔
میاں برادران کے حواریوں ،قلم بیچ کر نقش خیال مرتب کرنے والے اور جمہور نامے لکھنے والے عرفان صدیقی جیسے میر منشیوں کیلئے کھوکھلی اُمید کا آخری موقع ہے۔ حکمران لاکھ وضاحتیں کریں کہ معیشت کا پہیہ چل پڑا ہے ۔غیر جانبدار حلقے اس دھول کو اپنی آنکھوں میں پڑنے نہیں دیں گے وہ اس سچ پر جھوٹ کی تہہ نہیں چڑھنے دیں گے کہ ”ہم قلم والوں کے ساتھ ہیں غلیل والوں کے ساتھ نہیں ”کے پس پردہ مقاصد کیا تھے ؟ رجیم چینج کے ذریعے جو خونی فصل پنجاب کے حکمرانوں نے بوئی ،وہ اُنہی کے ہاتھوں کٹے گی ،لذ تِ گریاں سے وہی محظو ظ ہوں گے ۔خاندانی شہنشاہی آمریت کیلئے ناکام خواہشات کا تسلسل ہے جو ٹوٹنے میں نہیں آرہا جس میں ایک خواہش عوامی طاقت پر شب خون مار کر ڈی چوک اسلام آباد پر ناکام قبضے کی کوشش ہے ۔نواز شریف کی طرف سے قوم پر مسلط آمر مشرف کی طرح جس نے 12مئی 2007کو کراچی میں بے گناہوں کے لہو سے خون کی ہولی کھیلی اور خود شہر اقتدار میں مُکا لہرا لہراکر عوامی حمایت کا ڈھنڈورا پیٹا ۔یقینا رائیونڈ کے حکمرانوں کو تحریک انصاف کے لاکھوں جانبازوں اور سیاسی کارکنوں کو جوابدہی کا سامنا ہے جو 8فروری 2024کو اپنی زندگی میں حقیقی تبدیلی کیلئے سچی اور سر گرم جدوجہد کے جاں سوز مرحلے سے گزرے اُنہوں نے الیکشن جیت کر دکھایا ۔آپ اسے عمران کے پرستاروں کے انقلابی جوش و جذبے کا ہی نتیجہ کہہ سکتے ہیں کہ رائے ونڈ کے شریفوں کے ہاتھ سے لاہور بھی نکل گیا۔ یہی کچھ پنجاب کے ہر گائوں ،ہر قصبہ میں ہوا ۔ن لیگ نے دیکھا کہ عوامی حمایت تحریک انصاف کی دسترس میں چلی گئی۔ بھٹو مرحوم نے کہا تھا وطن عزیز میں سیاست کا آغاز جس نے لاہور سے نہیں کیا اُس کی سیاست نامکمل ہے اور جس کے ہاتھ سے لاہور نکل گیا اُس کے ہاتھ سے سیاست نکل گئی۔
المیہ یہ ہے کہ بھٹو مرحوم اور محترمہ بے نظیر کے بعد اپنے دور کی سب سے بڑی سیاسی جماعت (تب اب نہیں )پر مسلط ہونے والی حادثاتی قیادت نے بجائے عوامی حقوق کی جنگ لڑنے والی اپوزیشن کا ساتھ دینے کے ،عوام کو متحرک کرنے کے ”ایک وفادار ”کا فریضہ انجام دینے پر اکتفا کیا ،اس طرح بھٹو مرحوم کی پارٹی نے اُن کو قتل کرنے والی آمریت کی کوکھ سے جنم لینے والی مسلم لیگ ن کو وہ طاقت فراہم کی جو عوام کی جدوجہد کو روکنے اور کچلنے کے کام آتی ہے چنانچہ اس بات پر حیران ہونے کی کوئی وجہ نہیں کہ پی پی پی کا مضبوط ووٹ بینک ایک عوامی اپوزیشن کا کردار نہ ہونے کی بنا پر تاش کے پتوں کی طرح بکھر گیا ، پی پی نے دانستہ خاندانی شہنشاہی حکومت کی باقاعدہ فوج بننے کا عمل کیا ۔
آج حکمران طبقات اور اُن کی حلیف پارٹیوں کے معیارات صرف اور صرف اس نکتے پر جمے ہوئے ہیں کہ اڈیالہ جیل کے قیدی کو کس طرح گرانا ہے ، زیادہ سے زیادہ منافعوں کو ممکن بنانے والی پالیسیاں ہی سوچی اور عمل میں لائی جائیں ،یہ پالیسیاں اس نظام ِسرمایہ داری میں محنت کشوں کی ناکامی کا باعث بنتی چلی آرہی ہیں جو کسی طور پر مسائل کی حقیقی وجوہات کا نہ تعین کرتی ہیں اور نہ مداوا اور ہو بھی کیوں کہ یہ بھی تو ہمارے مسائل کا ہی ایک حصہ ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں منافع بنانے کے اپنے طریقے ہوتے ہیں جس میں سرمایہ دار حکمران محنت کشوں کا استحصال اُنہیں منافعوں اور روز گار کے حقوق سے محروم کرنے کی صورت میں کرتے ہیں۔ اقتدار کی ہوس کیلئے یہ بھی ایک ناکام خواہش کا تسلسل ہے کہ پی پی اورمسلم لیگ ن نے اپنی انتخابی مہم میں 300اور200یونٹ فری بجلی کے خوشنما وعدے عوام سے کئے لیکن اقتدار پر قبضہ کے بعدپنجاب کی مس ٹک ٹاکر کی لفاظی بھی مبہم ہو کر ماند پڑ گئی۔
منصور علی شاہ کا نوٹیفیکیشن نہ ہونا اور قاضی کی ایکسٹینشن کیلئے ترامیم بھی انہی ناکا م خو اہشات کا نتیجہ ہے جو شخصی آمریت کو دام بخشنے کیلئے مقصود ہیں۔ یہ ایک اور ”طوفانِ بد تمیزی ”تھا پشتیبانوں نے اپنے خلاف ایک اور محاذ کھول لیا ،اور لوگ ڈی چوک تک آپہنچے۔
۔۔۔۔۔۔۔