کے ڈی اے، زمینوں کی بندربانٹ کا میگا اسکینڈل بے نقاب
شیئر کریں
( رپورٹ :جوہر مجید شاہ) ادارہ ترقیات کراچی میں زمینوں کی بندر بانٹ میں ملوث محکمہ جاتی افسران کے گرد قانون کا گھیرا تنگ، اربوں کی سرکاری اراضی ٹھکانے لگانے کا میگا اسکینڈل تحقیقاتی اداروں کے ریڈار پر آگیا۔ سابق صدر آصف علی زرداری کے دست راست اور فرنٹ مین کھلاڑی اے جی مجید کے پس منظر میں رہتے ہوئے ڈی جی سے لے کر دیگر افسران کی تعیناتیوں کا پول کھل گیا۔ زمینوں کے اس میگا اسکینڈل میں جعل سازی اور ہاتھ کی صفائی کے ساتھ اربوں کھربوں ٹھکانے لگاتے ہوئے سرکاری خزانے پر بڑی نقب لگائی گئی۔ اس سسٹم مافیا کے دولہاسابق ڈی جی کے ڈی اے محمد علی شاہ سمیت انکی نگرانی میں کام کرنے والی ٹیم کے تمام اراکین میگا اسکینڈل میں ملوث ہیں۔لوٹ مار کے کھیل میں سابق نیب زدہ ڈائریکٹر لینڈ مینجمنٹ شمس صدیقی ، ان کے دست راست ڈاکٹر عمران جعفری ‘ ڈائریکٹر آئی ٹی کمال صدیقی ،چیف انجینئر ندیم اقبال ، نیب زدہ اور نیب کے ہاتھوں گرفتار جیل یاترا کرنے والے فرید شیخ بھی اس گورکھ دھندے کے مرکزی کردار ہیں ۔بورڈ آف ریونیو کے 3بڑے اہم کھلاڑی بھی اس میگا اسکینڈل کے مرکزی کردار ہیں ۔ایڈیشنل ڈائریکٹر ریکارڈ روم جنہیں اصل کو نقل اور نقل کو اصل کرنے کا انتہائی وسیع تجربہ ہے،فیصل احمدنے شہر بھر میں موجود کے ڈی اے اراضی کو ٹھکانے لگاتے ہوئے گلستان جوہر کلفٹن سمیت دیگر اسکیموں کی اصل دستاویزات فائلیں ریکارڈ روم سے غائب کیں اور پھر طے شدہ پلان کے ساتھ ایک نفع بخش گیم سجایا، اورمنظور نظر بلڈرز و ایجنٹ مافیا کو بطور سہولت کاری استعمال میں لایا گیا۔ اس لوٹ مار کے ایک اور اہم کھلاڑی گلستان جوہر کے ایکسین اورنگزیب بھی ہیں جبکہ ایک لسانی جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک اور ملازم بھی اس بہتی گنگا میں غوطہ زن رہے ہیں لوٹ مار کی اس کہانی کے 2 اور کرداروں میں ایک معروف بلڈر اور دوسرے ایک سابق صوبائی وزیر کا بھی نام لیا جارہا ہے جنھیں بطور تحفہ قیمتی سرکاری اراضی سے نوازا گیا۔ اس گورکھ دھندے اور بڑی لوٹ مار سے متعلق مزید چونکا دینے والے انکشافات آئندہ اشاعت میں شامل ہوں گے۔ واضح رہے کہ اس لوٹ مار کے بڑے کھلاڑیوں سے متعلق جاری تحقیقات منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے تحقیقاتی اداروں نے اپنا ہوم ورک مکمل کرلیا ہے۔ جلد ہی بڑی اور تابڑ توڑ چھاپہ مار کارروائیوں کی اطلاعات بھی گردش میں ہیں۔