میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
جبلِ نور کی روشنی

جبلِ نور کی روشنی

ویب ڈیسک
اتوار, ۹ اکتوبر ۲۰۲۲

شیئر کریں

دل میں ہوک سے اُٹھتی ہے!!یہ ہم نے اپنے ساتھ کیا کیا؟
جبلِ نور سے غارِ حرا کی طرف بڑھتے قدم دل کی دھڑکنوں کو تیز ہی نہیں کرتے ، ناہموار بھی کردیتے ہیں۔ سیرت النبیۖ کا پہلا پڑاؤ یہی ہے۔ بیت اللہ متن ہے، غارِ حرا حاشیہ۔ حضرت ابراہیمؑ نے مکہ مکرمہ کو شہرِ امن بنانے کی دعا فرمائی تھی (سورة ابراہیم،آیت 35) ، پیغمبر اسلامۖ کا جو مولدِ محترم ہے۔ مکہ مکرمہ کے مشرق سے ساڑھے چار کلومیٹر کے فاصلے پر جبلِ نور واقع ہے۔ چند ماہ قبل مسافر نے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کی تھیں۔ عشق کی پیاس بجھائی تھی۔ افکار احتیاط کا تقاضا کرتے ہیں، مگر عشق گاہے بے احتیاطی کا مرتکب ہوتا ہے۔ کیوں نہ ہو۔ اللہ کے جس آخری نبیۖ کے راستے کو بنی نوعِ انسان کا حقیقی راستا قرار دیا گیا، جبلِ نور نے اُس پیمبر کے قدموں کا رستہ دیکھا تھا۔ وہ رحمة اللعالمین کی گزرگاہ تھا۔ غارِ حرا خیمے کی طرح ہے، مگر جبلِ نور کے اندر نہیں، اس سے ذرا پرے اور پہلو میں واقع ہے۔ سطح سمندر سے جبلِ نور کی بلندی 639 میٹر ہے۔ نصف کلومیٹر تک ہموار راستہ بلندی کی طرف مائل رہتا ہے، پھر چڑھائی شروع ہوتی ہے، جو چکر کھاتی اور کہیں کہیں گھیردار ہوکر بلند ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس طویل اور بلند راستے پر صرف عشق کا حوصلہ اور محبت کی ہمت ہی موثر ہے۔ اتنا ہی نہیں، غارِ حرا کوئی پہاڑ کی چوٹی پر واقع نہیں، بلکہ بلندی کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے ایک مقام ایسا آتا ہے، جب مغرب کی سمت تقریباً 70میٹر نیچے جانا پڑتا ہے۔ قدم قدم پر حوصلہ ٹٹولنا پڑتا ہے۔ نشیب میں اُتر کر پھر بلندی کا راستا اختیار کرنا پڑتا ہے۔ پھر جبلِ نور کے ایک پہلو میں وہ سیاہی مائل چٹانیں نظر آتی ہیں جس کے درمیان قدرتی طور پر صرف ایک آدمی کے گزرنے کا راستا ہے۔ یہاں سے گزرتے ہوئے پھر ذرا سی گھبراہٹ ہوتی ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی وہ غار دکھائی دیتا ہے، جس کی رفعتیں آسمان کو چھوتی ہیں۔ غار کی لمبائی بمشکل سوا دو میٹر اور اونچائی بھی آگے بڑھتے ہوئے کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ آدمی ٹھٹھک کر سوچتا ہے چودہ سو سال قبل اس ویرانے میں سیاہ چٹانوں کے درمیان اس بلندی پریہی مقام، عبادت کا ذوقِ تنہائی کیسے تلاش کرتا ہے؟ پھر کسی کے لیے یہاں ہفتوں قیام کیسے ممکن ہے؟ بلندیوں پر آسمان سے چار نگاہیں ، نیچے زمین پر ٹک نہیں سکتیں، ناہموار سانسیں سینے میں عشق کا الاؤ اور زور سے بھڑکا دیتی ہیں۔ آدمی کہاں، وہ صرف پیمبر ہے ، جبل ِ نور جنہیں اپنے دامن میں سمیٹ سکتا ہے، غارِ حرا جن کا خلوت کدہ ہوسکتا ہے۔
تکوینی فیصلوں کی منطق دنیوی دانش سے ذرا بالا رہتی ہے۔ منصب نبوت سے سرفرازی کے لیے آپۖ کی عمر کا تعین چالیس برس رکھا گیا تھا۔ مکہ کے محمد ابھی پیمبر کے منصب سے سرفراز نہ کیے گئے تھے۔ آپۖ پر بچپن سے مگر ایک رحمت سایہ فگن رہتی تھی۔ الہٰی نور سے دنیا دیکھنے کی ایک سعادت بچپن سے آپۖ کے ذوق کو عطیہ کی گئی ۔ جس نے بچپن، لڑکپن اور جوانی کو کبھی آلودہ نہ ہونے دیا۔ چنانچہ انسانی دنیا کے آلودہ ماحول سے الگ تھلگ ایک جگہ کی جستجو بھی آپ میں ودیعت کی گئی ۔ اس جستجو نے جبلِ نور کے مقام سے مطمئن ہونا تھا، غارِ حرا سے تسکین پانا تھا۔ کوئی سمجھ نہیں سکتا پہلی وحی کا مطلب کیا ہے، اگر وہ جبلِ نور کی بلندیوں کو اپنے قدموں سے ناپ نہ لے، آنکھ  بھر کر غارِ حرا کو نہ دیکھے، سیاہ چٹانوں کی کشش پر مائل قلب کو آسودہ نہ کرلے۔
مہینہ رمضان کا ہے، جسے بعد میں اعتکاف کی فضیلت بھی ملنی ہے، مگر اخلافِ اسماعیل کی خلوت گزینیاں تاریخ میں کچھ اتنا اجنبی عمل بھی نہیں۔ حضرت محمد ۖ چالیس کے پیٹے میں آ گئے ہیں۔ مکہ کی سب سے باوقار خاتون حضرت خدیجہؓ، آپۖ کے نکاح میں ہے۔ حضرتِ خدیجہؓ ایسی با وقار خاتون کی قبر پر جب دعا کے لیے ہاتھ اُٹھے تو یہ وقار مکہ کے سب سے قدیم قبرستان جنت المعلّی کی فضاؤں میں بھی محسوس ہوا۔ زمانے بیت جاتے ہیں، مگر مرتبے نہیں مرتے۔ اماں خدیجہؓ کی قبر پر ایک نور سایہ فگن رہتا ہے۔ کچھ عرب کھڑے تھے، فرما رہے تھے اللہ بہتر جانتا ہے کہ کون سی قبر کن کی ہے، میں نے عرض کیا، آپ کو محسوس نہیں ہوتا یہ قبر کن کی ہے؟ کیا دل کہیں اور بھی اس طرح دھڑکتا ہے، محسوسات میں یہ طغیانی کسی اور جگہ بھی پیدا ہوتی ہے ۔ اُنہوں نے دائیں بائیں دیکھنا شروع کر دیا۔ میں قرآن پڑھنے کی سعادت سمیٹنے لگا۔ حضرت خدیجہ الکبریٰ وہ عظیم المرتبت خاتون ہیں جو انتہائی صعوبت کے دنوں میں آپۖ کے لیے ڈھارس کا باعث بنیں۔ یہ مقام اُن کے حصے میں آیا کہ آپۖ کے غار ِ حرا کے تجربے کی حدت وشدت کو محسوس کیا۔ آدمی سوچتا ہے مکہ کے جمے جڑے قبائلی نظام کی عصبیت، تفوق وبرتری کے قبائلی فخر سے پست اور بات بات پر خون سے لت پت ہوتے معاشرے میں اللہ رب العزت نے اپنے سب سے برگزیدہ بندے کو جب پکارنا چاہا تو پہلا لفظ کیا منتخب کیا : اقراء (پڑھ) ۔ اللہ اکبر ، اللہ اکبر، یہ نبوتۖ کے جاہ وجلال کو دیکھنے کا دن ہے۔ غارِ حرا رازدار ہے، جبلِ نور اس کا امین ہے۔ عہد کے عہد بیت جائیں گے، دور بدل جائیں گے، بادشاہتیں باقی نہ رہیں گی۔ مگر جبل نور کھڑا رہے گا۔ غارِ حرا کا فخربھی باقی رہے گا۔ کوئی اس مقام کا اندازا بھی نہیں کر سکتا کہ جب مشرکین مکہ نے ہمارے نبیۖ کے لیے بیت اللہ کے دروازے بند کردیے تو یہ سنگلاخ چٹانیں آپۖ کے لیے اپنی بانہیں کیسے کھول کے رکھتی تھیں۔ پہلی وحی کا پہلا لفظ ہی نہیں پہلا مقام بھی منتخب ہے۔ غارِ حرا۔ اللہ اکبر! اللہ اکبر!! مسافر وہ مقام اپنی آنکھوں میں اُٹھا لایا ہے۔ کیا تجربہ رہا ہوگا؟
رمضان کے آخری عشرے کی ایک رات ہے۔ ایک فرشتہ آتا ہے، جس کا تعارف ابھی پیمبر  سے نہیں ہوا، اور جسے بعد کے زمانوں میں جبریل امین پکارا جانا ہے۔ فرشتہ انسانی شکل میں ڈھل گیا ہے۔ آپ سے فرماتا ہے: پڑھو(اقراء) ۔ جنہیں بعد کے زمانوں میں اصل و اساسِ علم ہونا ہے، آپۖ فرماتے ہیں، میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ فرشتہ آپۖ کو پکڑ کر زور سے بھینچتا ہے، ہماری کیا مجال کے یہ لفظ استعمال بھی کریں، سرکارۖ نے خود فرمایا: میں نڈھال ہو گیا ”تب فرشتہ آپۖ کو چھوڑ کر پھر کہتا ہے: پڑھو۔ آپۖ جواب دُہراتے ہیں۔ فرشتہ اپنا عمل دُہراتے ہوئے پھر آپ کو زور سے بھینچتا ہے، یہاں تک کہ ہمارے پیارے نبیۖ نڈھال ہو جاتے ہیں۔ تین مرتبہ یوں ہی ہوتا ہے۔ پھر فرشتہ سورة العلق کی جگمگاتی چھ آیتیں پڑھتا ہے، جن میں انسانی تخلیق و تعلیم کا امتزاجی الہٰی خاکہ موجود ہے:۔

پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا
کیا۔ تو پڑھتا رہ ، تیرا رب بڑے کرم والا ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے (علم) سکھایا، جس نے
انسان کو وہ سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا۔ سچ مچ انسان تو آپے سے باہر ہوجاتا ہے۔

گاہے آدمی سوچتا ہے، انسان کے اصلاحِ احوال کا الہٰی منصوبہ ، وعظ ہے نہ عقیدت۔ یہ تو سیدھا سادہ علم کا راستا ہے۔ سرکار رسالت مابۖ کی تعلیمات علم کی بھی معراج ہے۔ الہٰی منصوبے میں دوسری وحی ایک مفرد لفظ (حروف مقطعات) سے شروع ہوئی جس کے معانی و مفاہیم کو انسانی غور وفکر کی حکمت عملی میں پنہاں رکھا گیا۔ پھر قلم کی قسم ہے، جو عالم کا پروردگار خود اُٹھا تا ہے۔ آدمی غور نہیں کرتا۔ سرکار دوعالمۖ کی پیروی کا مطلب کیا ہے؟ روشنیاں اور نعرے نہیں، آلودہ زندگی کے احساسِ گناہ سے نجات کے بہانے نہیں ڈھونڈنے چاہئے۔ راستی کا راستا ہی نجات کی منزل ہے۔ باقی سب حیلے اور بہانے ہیں، دھوکے اور ڈرامے ہیں۔ اسلام نے غم اور خوشی کی ایک تہذیب تشکیل دی ہے۔ ہم اسے بھی پستی کی اپنی سطح پر لے آئے۔ دل میں ہوک سے اُٹھتی ہے!!یہ ہم نے اپنے ساتھ کیا کیا؟ سرکاررسالت مابۖ کی تعلیمات سے اپنے فہم کو سنوارنے کے بجائے اپنے فہم میں تعلیمات نبویۖ کو ڈھالنے کی کوشش کی۔ اس باب میں ہمارے علماء بنی اسرائیل اور فریسیوں سے بھی بدتر نکلے۔ افسوس!!


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں