یوکرینی علاقوں کا روس میں انضمام کس کی جیت ہے؟
شیئر کریں
یوکرین کو روس کے خلاف میدانِ جنگ میں اُترنے کی ترغیب دینے والے مغربی و یورپی ممالک نے یوکرینی عوام کو یقین دلایا تھا کہ وہ روس کے ممکنہ فوجی حملے کی صورت میں ہر طرح سے اُن کے ملک کی سرحدوں کے دفاع کویقینی بنائیں گے ۔ لیکن جب یوکرینی صدر، ولاد میرزیلنسکی نے امریکا اور اس کے اتحادی مغربی ممالک کے بھروسے پر یوکرینی افواج کو میدان جنگ میں میں روسی افواج کو پچھاڑنے کے لیے اُتار دیا تو امریکا سمیت کوئی بھی مغربی ملک یوکرین کی سرحدوں کے دفاع کے لیے روس کے خلاف میدان ِ جنگ میں نہیں اُترا۔ جس کے بدترین نتائج یہ برآمد ہوئے کہ یوکرینی سرزمین، چند دنوں میں دیکھتے ہی دیکھتے روسی افواج کے زمینی و فضائی حملوں سے تباہ و برباد ہو کر رہ گئی ۔
بظاہر مغربی ذرائع ابلاغ کی بعض خبروں اور یوکرینی صدر، زیلنکسی کے دعووں کے مطابق یوکرین نے تاحال شکست قبول نہیں کی ہے اور یوکرینی افواج ، اپنے ملک کا بھرپور انداز میں دفاع کرنے میں آج بھی پوری تندہی کے ساتھ مصروف عمل ہے ۔ مگر حقیقت احوال فریقین کے بیان کردہ دعووں سے یکسر مختلف ہے کیونکہ یوکرینی افواج کو روسی افواج سے شکست فاش ہوچکی ہے اور یوکرینی سرزمین کے تمام اہم ترین علاقے ایک ،ایک کر کے روسی افواج کے مکمل قبضہ میں جاتے جارہے ہیں ۔جس کا سب سے ناقابل تردید ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ ہفتہ روسی صدر، ولادی میر پیوٹن نے یوکرین کے چار اہم ترین علاقوں میں ریفرنڈم کروانے کے بعد اُن کا الحاق باضابطہ طور پر روس کے ساتھ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
روسی ذرائع ابلاغ کے مطابق خیرسون، زاپوریزیا، ڈونسک اور لوہانسک جیسے بڑے یوکرینی علاقوں میں کروائے گئے ریفرنڈم میں 96 فیصد عوام نے روس سے الحاق کے حق میں ووٹ دیا ہے۔جس کے بعد روسی صدر ولادیمیر پوتن نے کریملن کے سینٹ جارج ہال میں ان چاروں علاقوں کے روسی حمایت یافتہ ر ہنماؤں کے ساتھ الحاق کے معاہدے پر دستخط بھی ثبت کردیئے ہیں ۔ اس موقع پر منعقدہ تقریب سے تقریر کرتے ہوئے روسی صدر ،ولادی میرپیوٹن کا دنیا بھر کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ‘‘آ ج کے بعد یہ تمام علاقے ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے روس کا حصہ بن کر رہیں گے ۔کیونکہ خیرسون، زاپوریژیا، لوہانسک اور ڈونیسک میں لوگوں کی اکثریت نے اپنے لوگوں اور اپنے حقیقی وطن کے ساتھ انضمام کے حق میں اپنا قیمتی ووٹ دے کر اپنے لیئے وطن کا درست انتخاب کرلیا ہے ۔ یہ ریفرنڈم لاکھوں لوگوں کی مرضی کاآئینہ دار ہے ، جس کا دنیا بھر کو احترام کرنا چاہیئے ‘‘۔
واضح رہے کہ روس نے جن یوکرینی علاقوں میں ریفرنڈم کراویا ہے ،یہ چاروں علاقے مل کر یوکرین کا تقریباً15 فیصد رقبہ بنتے ہیں ۔اِن علاقوں میں زیادہ تر روسی نسل کے لوگ آباد ہیں اور انہوں نے کبھی بھی یوکرینی حکومت کو دل سے قبول نہیں کیا تھا ۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ مذکورہ علاقوں میں ایک طویل مدت سے یوکرین سے علیحدگی اور روس کے ساتھ الحاق کی تحریکیں تواتر کے ساتھ چلتی رہی ہیں ۔ابتداء میں یوکرینی علاقوں میں چلنے والی یہ علیحدگی پسند تحریکیں ماسکو کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانے میں زیادہ کامیاب نہ ہوسکی تھیں ۔
دراصل ، سوویت یونین کے انہدام کے بعد روس جس طرح کے سنگین معاشی و سیاسی بحران کا شکار تھا، اُس میں روسی حکام کے لیے نئے علاقوں کا روس میں انضمام کرنا ممکن نہ تھا۔ ،لیکن جب ولادی میر پیوٹن کی قیادت میں روسی معیشت مستحکم ہونا شروع ہوئی تو ایک بار پھر سے روسی قوم میں توسیع پسندانہ عزائم بیدار ہونا شروع ہوگئے اور روسی قیادت نے ایک بار پھر سے عالمی طاقت بننے کا خواب دیکھنا شروع کردیا۔علاوہ ازیں جب نیٹو ممالک نے یوکرین کے ساتھ قربت اختیا ر کرکے ماسکو کے مفادات کو خطے میں چیلنج کرنا شروع کردیا تو پھر روس نے بھی یوکرین کے مختلف علاقوں میں چلنے والی مذکورہ علیحدگی پسند تحریکوں کی دامے ، ورمے ،سخنے پشت پناہی کرنا شروع کردی ۔
اگرچہ ، امریکا سوویت یونین کی شکست و ریخت کے وقت روسی قیادت سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ وہ نئی روسی سرحد کا احترام کرے گا اور اُن کے داخلی معاملات میں مداخلت کی کوشش نہیں کرے گا۔ مگر بعدازاں امریکا اپنے کئے گئے معاہدہ سے مکر گیا اور اُس نے گزشتہ 30 برسوں میں بے شمار بار خطے میں روس کے مفادات کا نشانہ بنانے کی بھرپور کوشش کی۔ امریکا کی جانب سے یوکرین کو نیٹو کا رُکن بنانے کے حق پر اصرار کرنا بھی اُس کی ماسکو مخالف حکمت عملی کا حصہ ہی تھا۔ جس کا مقصد روس کو دنیا کے لیے ایک قابل قبول معاشی طاقت بننے سے روکنا تھا۔ جس کی پیش گوئی زبنیف برزنسکی اپنی کتاب ’’گرینڈ چیس بورڈ‘‘ میں بھی کرچکا تھا۔
زبنیف برزنسکی اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ ’’یوکرین ،بلیک سی،اور کیسپئن کا سارا علاقہ خاص دفاعی اہمیت کا حامل ہے ۔کیونکہ اسی خطہ سے روس بحیرہ روم تک رسائی حاصل کرتا ہے اور چین بھی اسی راستہ کی بدولت ہی اپنے بیلٹ اور روڈ منصوبہ کے ذریعے یورپ تک پہنچتا ہے۔ لہٰذا ،اگر واشنگٹن مذکورہ علاقے پر قابض ہوجاتاہے تو پھر سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد بچے کچھے روس کو مزید ختم کرنا اور چین کے بیلٹ اور روڈ منصوبہ کو سبوتاژ کرنا امریکا کے لیے بہت زیادہ آسان ہوجائے گا‘‘۔ امریکا کے اِس منصوبہ کو ناکامی سے دوچار کرنے کے لیے روسی صدر ،ولادی میر پیوٹن نے امریکا سے بہت پہلے ہی حرکت کرتے ہوئے مذکورہ علاقوں پر قابض ہونا شروع کردیا ۔کیونکہ پیوٹن جانتے تھے کہ یہاں ایک لمحہ کی تاخیر کرنے سے روسی عوام کو صدیوں کی سزا ملے گی۔
یادرہے کہ چند برس قبل ماسکو نے ایک محدود، فوجی کاروائی کی بدولت کریمیا کو بھی اپنا حصہ بنا لیاتھا۔المیہ ملاحظہ ہو کہ امریکا اور اس کے اتحادی اُس وقت بھی ماسکو کو کریمیا پر قابض ہونے سے نہ روک سکے تھے اور آج بھی جب ولادی میر پیوٹن، یوکرین کے اہم ترین علاقوں کو یکے بعد دیگرے اپنے ملک میں شامل کرتے جارہے ہیں تو امریکا اور اس کے اتحادی ممالک مکمل طور پر بے بس نظر آرہے ہیں ۔روس کے سامنے مغربی اور یورپی ممالک کی سیاسی و سفارتی لاچاری سے صاف نظر آرہا ہے ، مستقبل قریب میں پیوٹن مزید علاقوں کا بھی روس کے ساتھ انضمام کریں گے۔
دوسری جانب یوکرین کے صدر، ولادیمیر زیلنسکی نے ملک کے چاروں علاقوں کے روس سے الحاق کے ریفرنڈم کے نتائج ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ’’یوکرین کے جن علاقوں میںروسی افواج نے جبری ریفرنڈم کا انعقاد کیا ہے ،یوکرینی افواج بہت جلد یہ تمام علاقے روس سے واپس باج گزار کروا لیں گے۔ کیونکہ چاروں علاقے کل بھی یوکرین کا حصہ تھے، آج بھی ہیں اور آئندہ رہیں گے‘‘۔نیز امریکا نے بھی اس حوالے سے یوکرین کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل یوکرین میں شرمناک ریفرنڈم پر روس کے خلاف سخت کاروائی کی ہدایات جاری کرے ۔جبکہ امریکی وزارت خزانہ کے ذیلی شعبے جو غیر ملکی اثاثوں کے کنٹرول کا براہ راست ذمہ دار ہے نے فوری طور پر روسی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے 278 ارکان کو بھی نئی معاشی پابندیوں کی زد میں لانے کا اعلان کیا ہے۔ جن میں روسی پارلیمان ڈوما کے 109 ارکان جبکہ فیڈرل کونسل کے 169 ارکان بھی شامل کردیئے گئے ہیں۔نیز اِن نئی امریکی معاشی پابندیوں کا اطلاق روسی نائب وزیر اعظم اور ان کے خاندان ،روس کے مرکزی بنک کی گورنر ’’ایلویرا نابیولینا‘‘کے علاوہ روسی قومی سلامتی کونسل کے حکام پر بھی ہوگا۔
دریں اثنا امریکہ نے یہ اعلان بھی کر دیا ہے کہ وہ 910 روسی حکام اور افراد پر امریکی ویزوں کے حصول کے لیے پابندی لگا رہے ہیں۔ ان میں روسی فوجی حکام کے علاوہ بیلا روس کے فوجی حکام بھی شامل ہیں، نیز تمام روسی پراکسیز کے ارکان بھی شامل ہیں۔جبکہ نئی امریکی پابندیوں کی زد میں روس کے ساتھ کام کرنے والی ایک چینی کمپنی بھی آگئی ہے۔جس کے بارے میں امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ’’یہ چینی کمپنی روس کی دفاعی صنعت کی مدد کر رہی تھی، جس کی وجہ سے اِسے امریکا نے بلیک لسٹ کردیا ہے‘‘۔
امریکی وزیر خزانہ نے روس کے خلاف مزید معاشی پابندیاں عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ہم دھوکہ بازی کے ساتھ یوکرینی علاقوں کو روس میں شامل کرنے والے پیوٹن کے ساتھ کھڑے نہیں ہوں گے اور ہماری جانب سے روس پر عائد کی جانے والی نئی معاشی پابندیاں روس سے باہر بھی ہر اس شخص پر بھی لاگو ہوں گی جو روس کو اس سلسلے میں تعاون فراہم کرے گا اور اُس کی سیاسی یا معاشی مدد کرنے کی کوشش کرے گا‘‘۔امریکا کے علاوہ برطانیا نے بھی تقریباً 700 اشیا کی روس کو برآمد پر پابندی عائد کر دی ہے۔ جبکہ یورپی کمیشن نے روس کے سمندری تیل کی قیمت کی حد مقرر کرنے کی تجاویز پیش کرتے ہوئے، یورپی یونین کے شہریوں پر روسی کمپنیوں میں کسی بھی قسم کی ملازمت کرنے پر پابندی عائد کردی ہیں ۔
دلچسپ بات یہ ہے یوکرین کے چار علاقوں کے روس میں انضمام کے اعلان کے بعد ماسکو پر عائد ہونے والی سیاسی و معاشی پابندیوں کی فہرست بہت زیادہ طویل ہے ۔مگر یہاں سوال یہ نہیں ہے کہ دنیا یوکرین جنگ کے بعد روس پر کتنی زیادہ عالمی معاشی پابندیاں عائد کر چکی ہے بلکہ اصل سوال تو یہ ہے کہ عالمی پابندیوں کے منفی اثرات روس کی معیشت پر پڑ بھی رہے ہیں یا نہیں ؟۔ہماری دانست میں دوسرے سوال کا درست جواب یہ ہے کہ ابھی تک عالمی معاشی پابندیوں کے ذرہ برابر بھی قابل ذکر یا سنگین اثرات روسی معیشت پر مرتب نہیں ہوسکیں ہیں ۔ شاید اس کی بنیادی وجہ یہ ہے روس پر معاشی پابندیوں کا اعلان کرنے والے اکثر یورپی و مغربی ممالک اپنے بعض داخلی و معاشی مفادات کے حصول کی خاطر، درپردہ ماسکو کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات ابھی تک بدستور استوار کیئے ہوئے ہیں ۔ جبکہ دنیامیں ایسے ممالک کی بھی کمی نہیں ہے ، جو تما م تر عالمی پابندیوں کے باوجود بھی روس کے ساتھ اعلانیہ تجارت کرنے میں مصروف ہیں ۔
سادہ الفاظ میں یوںسمجھ لیجئے کہ روس پر عائد ہونے عالمی معاشی پابندیاں اَب اِتنی بھی عالمگیر نہیں ہیں ،جتنا کہ عالمی ذرائع ابلاغ میں ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ جب سے ماسکو پر عالمی معاشی پابندیاں عائد ہوئی ہیں تب سے اُس کی معیشت زبردست نمو، دکھارہی ہے ۔ خاص طور پر روس کا پیداوری شعبہ خوب منافع کما رہا ہے ۔ دوسری جانب یوکرین کی معیشت مکمل طورپر تباہ و برباد ہوچکی ہے اور یوکرینی عوام دنیا بھر میں جلاوطنی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں ۔ یہاں یوکرینی صدر ، ولادی میر زیلنسکی کو بھی تفکر کرنا چاہیئے کہ امریکا اور اُس کے اتحادیوں نے آخر انہیں کیسی بھیانک جنگ میں جھونک دیا ہے ، جس میں ساری ناکامیاں یوکرین کے حصہ میں آرہی ہے ۔جبکہ تما م کامیابیاں روس سمیٹ رہا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭