میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاکستان کے لیے امریکہ کی گاجر اورچھڑی کی حکمت عملی

پاکستان کے لیے امریکہ کی گاجر اورچھڑی کی حکمت عملی

ویب ڈیسک
پیر, ۹ اکتوبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

واشنگٹن میں پاکستان اور امریکہ کے وزرا خارجہ خواجہ آصف اور ٹلرسن کے درمیان ملاقات کے دوران پاک امریکہ تعلقات اور باہمی دلچسپی کے امور پر بھی بات ہوئی ۔ اسی اثنا میں امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے آرمڈ سروسز کمیٹی کو بریفنگ دی اور اس میں بھی مرکزی نکتہ پاکستان ہی رہا۔ وزیرخارجہ خواجہ آصف کے ساتھ ملاقات اور اس کے بعد امریکی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع کے حوالے سے جاری کئے گئے بیانات کو دیکھا جائے تو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اعلان کردہ گاجر اور چھڑی والی امریکی پالیسی ایک بار پھر واضح ہوگئی ہے۔ امریکی صدر نے افغانستان کے حوالے سے اپنی پالیسی کااعلان کرتے ہوئے پہلے کھل کر پاکستان کو دھمکی دی اور بھارت کو اس کے مقابل اپنے سرپر بٹھانے کا اعلان کیا لیکن اس کے ساتھ ہی پاکستان کو تھپکی بھی دی گئی ۔
امریکی وزیرخارجہ جیمز ٹلرسن نے پاکستان کے وزیرخارجہ خواجہ آصف کے ساتھ ملاقات کے بعد ایک بیان میں کہاہے کہ ہم مستحکم پاکستان چاہتے ہیں اور اعتماد سازی بحال کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔ دونوں وزرا خارجہ کے درمیان خطے کی سلامتی، افغانستان میں بھارتی کردار اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھی بات ہوئی۔ امریکی وزیر خارجہ کا کہناتھا کہ علاقے میں امن کے لیے پاکستان کا کردار اہم ہے،اور امریکہ پاکستان کے اس کردار کااعتراف کرتاہے ۔
اس امر میں کوئی دو رائے نہیں ہیں اورپوری دنیا اس بات کااعتراف کرتی ہے کہ اس خطے میں خاص طورپر افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا،لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خود امریکہ پاکستان کو اس خطے میں افغانستان کے حوالے اور خاص طورپر پائیدار امن کے قیام کے لیے پاکستان کو اپنا یہ کردار ادا کرنے سے بالواسطہ یابلاواسطہ طورپر روکتا رہا ہے،اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس خطے خاص طورپر افغانستان میں بدامنی کی ذمے داری بھی بڑی حد تک خود امریکہ پر عاید ہوتی ہے کون نہیں جانتا کہ امریکہ نے برسوں سے افغانستان پر قبضہ جما رکھا ہے لیکن اپنی تمامتر کوششوں کے باوجود حالات کے غلط تجزیئے اور غلط حکمت عملی کی وجہ سے وہ اب تک افغانستان کو اس انتشار سے نجات نہیں دلاسکاہے جس کی وجہ سے افغان حکومت کو اپنی رٹ قائم کرنے میں دشواریاں پیش آرہی ہیں،اپنی ان غلطیوں سے سبق حاصل کرنے کے بجائے اب امریکی صدر اپنے دیرینہ حلیف اور اس خطے میں امریکی جنگ لڑتے ہوئے بے انتہا جانی ومالی قربانی دینے والے ملک پاکستان کی قربانیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے نئے حلیف بھارت کو افغانستان میں اہم کردار دینے کی تیاریاں کررہاہے۔امریکہ کے حوالے سے موجودہ حکومت کی گزشتہ4سالہ پالیسیوں اور امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں پاکستان کے رویئے کے پیش نظر یہ بات بڑے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ پاکستان کے وزیر خارجہ نے اپنے ہم منصب سے اس طرح دو ٹوک باتیں نہیں کہیں ہوں گی۔باہمی تعلقات کے علاوہ ٹلرسن نے ملاقات کے بعد ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے موضوع سے ہٹ کر حکومت پاکستان کے استحکام اور مستقبل پر تشویش کا اظہار کردیا،پاکستان کے استحکام اور مستقبل پر امریکہ کی جانب سے تشویش کے اظہار سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ پاکستان میں نواز شریف کو نااہل قرار دیئے جانے کے بعد اب امریکی حکام کو یہ اندازہ ہورہاہے کہ اب پاکستان میں برسراقتدار آنے والی کوئی بھی حکومت امریکی احکامات پر سر جھکانے اور اس کے ڈومور کے مطالبے پر یس سر کہہ کر اپنے عوام کوکچلنے پر تیار نہیںہوگی کیونکہ نواز شریف کے پورے خاندان اور وزیرخزانہ کے احتساب کاسلسلہ شروع ہوجانے کے بعد اب یہ واضح ہوگیاہے کہ اب پاکستان میں برسر اقتدار آنے والی کوئی بھی حکومت من مانی نہیں کرسکے گی اور اسے اپنے احتساب کے خدشے کومدنظر رکھتے ہوئے کوئی قدم اٹھانا ہوگا۔ اگر ہمارا یہ خیال درست نہیں ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت پاکستان کے مستقبل اور استحکام میں امریکہ کواتنی زیادہ دلچسپی کیوں ہے یہ خالصتا پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اس پر امریکہ کو تشویش نہیں ہونی چاہیے۔ خود امریکہ میں اب تک نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت مستحکم نہیں ہوسکی ہے اور ان کے الٹے سیدھے احکامات اور کسی ملک کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی دھمکی پر خود امریکہ میں تنقید ہورہی ہے اور شمالی کوریا جیسے ملک ان دھمکیوں پر ٹرمپ کو بھونکنے والا کتا قرار دے چکا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن کے بارے میں بھی یہ افواہیں گردش میں ہیں کہ وہ استعفیٰ دے رہے ہیں۔ یہ امریکہ کے اندرونی معاملات ہیں اور جس طرح امریکہ کو پاکستان کے اندرونی معاملات دخل دینے کاکوئی حق حاصل نہیں ہے اسی طرح امریکہ میں جنم لینے والے حالات پاکستان کادرد سر نہیں ہیں، لیکن پاکستان کے حوالے سے امریکی حکومت کے حالیہ بیانات سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ امریکہ ہر ملک کے معاملات میں دخل دینا اپنا استحقاق سمجھتا ہے۔ ٹلرسن نے حکومت پاکستان کے مستقبل پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ وا شنگٹن اسلام آباد میں مستحکم حکومت دیکھنا چاہتا ہے۔ ٹلرسن کا پاکستانی حکومت کے مخدوش مستقبل کا پیغام کس کے لیے ہے اور اس کی پسندیدہ حکومت کون سی ہوگی؟ امریکی وزیر خارجہ نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی مسلسل پامالیوں پر زبان نہیں کھولی اسی اثنا میں امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے پاکستان کو دھمکیاں دے ڈالیں کہ اسلام آباد نے دہشت گردیوں کے خلاف پیش رفت نہ کی تو انتہائی اقدام کریں گے۔ تاہم اس سے قبل پاکستان سے بات کریں گے، ہم ایک بار اور اسلام آباد کے ساتھ کام کرنے کے خواہش مند ہیں۔ حکمت عملی ناکام ہوئی تو صدر ٹرمپ ضروری اقدام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے مبینہ دہشت گردوں کا جائزہ لینے کے لیے جلد پاکستان کا دورہ کرنے کی ’’خوش خبری‘‘ سنائی۔
لیکن امریکی حکمرانوں کی سمجھ میں اب تک یہ بات نہیں آئی کہ سب سے بڑا دہشت گرد خود امریکہ ہے جو دوسرے ملکوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا اعلان کرتا ہے۔ امریکی سینیٹ کی مسلح افواج کی کمیٹی کے چیئرمین نے اس سے بھی آگے بڑھ کر فرمایا کہ دہشت گردوں سے آئی ایس آئی کے روابط ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں۔ امریکہ اور بھارت ایک ہی زبان بولتے ہیں جب کہ خود سی آئی اے کے روابط دہشت گردوں سے ہیں۔ امریکہ کے سابق وزیر خارجہ اور نام نہاد دانشور ہنری کیسنجر نے مشورہ دیا ہے کہ امریکہ کے لیے دہشت گرد تنظیم داعش کا وجود بہت ضروری ہے اور اس کو باقی رہنا چاہیے۔ یہ اب کوئی راز نہیں کہ داعش امریکہ ہی کی پروردہ ہے اور سی آئی اے کے اشاروں پر کام کررہی ہے۔ اسی اثنا میں افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے کہاہے کہ امریکہ کی نئی پالیسی سازش اور خطے کے لیے خونریزی کا پیغام ہے۔ اسلام آباد کو کابل کے ساتھ تعاون بڑھانا ہوگا، دونوں بھائی ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ شکر ہے کہ حامد کرزئی کی آنکھیں کھل گئیں مگر اقتدار سے دور ہونے کے بعد۔ ان کو امریکہ ہی نے کابل کے تخت پر لا بٹھایا تھا۔ اس وقت بھی پاکستان نے باہم تعاون کی پوری کوشش کی تھی اور آج بھی اس کوشش میں مصروف ہے۔ ممکن ہے کہ اقتدار سے محروم ہوکر صدر اشرف غنی بھی امریکہ کی اصلیت سے واقف ہوجائیں فی الحال تو یہ دیکھنا ہے کہ امریکہ کا ’’انتہائی اقدام‘‘ کیا ہوگا؟ اورامریکی رہنما نوشتہ دیوار پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں یاصرف طاقت کے زعم میں حالات کو خراب سے خراب ترکرنے کی موجودہ روش پر ہی کارفرما رہیں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں