میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
عمران کی قیادت کیوں ضروری ہے ؟

عمران کی قیادت کیوں ضروری ہے ؟

ویب ڈیسک
پیر, ۹ ستمبر ۲۰۲۴

شیئر کریں

بے نقاب /ایم آر ملک

سیاست میں حریف کو عوام کی طاقت حاصل ہو تومخالف فریق کا بوکھلاہٹ میں ذہن کام کرنا چھوڑ جاتا ہے۔ یہی حال مسلم لیگ ن کی پنجاب میں ٹک ٹاکر حکومت کاہے۔
عمران خان کی مقبولیت کا تسلسل اور عوامی پذیرائی کا گراف ن لیگ اور اس کے حواریوںکے حواس پر طاری ہے ،کار کی ڈگی میں سفر کرنے والے شعبدہ باز اپنی پٹاری سے ہر روز نیا شوشہ چھوڑتے ہیں ،کبھی کہتے ہیں کہ اس نے ڈیل کرلی کبھی اس کے خلاف توشہ خانہ ، القادر ٹرسٹ جیسے بے سروپا اور جھوٹے بیانئے ان کے اگالدان سے نکلتے رہے ، کبھی اپنے کئے پہ پردہ ڈالنے کیلئے 9مئی کے لغو بیانیہ کی آڑ لیکر عوام کے سامنے اپنا رونا روتے ہیں اور گزشتہ روز تو بوکھلاہٹ میںساری حدیں پار گئے آذر بائیجان کی ایک لڑکی کو اسرائیلی لڑکی بنا کر اس کی کردار کشی پر تل گئے ،ان مداریوں کو یہ شوشہ چھوڑتے وقت یہ بھی یاد نہ رہا کہ زر خرید میڈیا کے منہ میں اپنی زبان اور الفاظ دیکر عمران خان کا قد نہیں گھٹایا جاسکتا، بالفرض اگرفارم 47کے سٹیج پر ناچنے والوں کا یہ شوشہ درست بھی ہو گیاتو وہ یہ بتانا پسند کریں گے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں دی جانے والی درخواست میں یہ لکھ کر کہ عمران نے ملعون رشدی کے ساتھ ا سٹیج شیئر کرنے سے انکار کردیا ،اس کے سچا عاشق رسول ہونے کی گواہی کی مہر ثبت کر دی ،نیب ترامیم کے فیصلہ کو اپنے حق میں لکھوانے والوں کو تاریخ نے کوڑے دان میں پھینک دیا۔ وقت گزر چکا اب عوام اتنے بے وقوف نہیں کہ وہ کسی بات سے لاعلم ہوں ،وہ دن گئے جب خلیل خان فاختہ اُڑایا کرتے تھے ۔اب لٹیرے عوام کی پیٹھ میں چھرا نہیں گھونپ سکتے کہ اس نے شعور کا سفر عرصہ ہوا طے کرلیا ۔
ایک سوال اُٹھتا ہے کہ عمران کی قیادت کیوں ضروری ہے ؟ یہ سوال مجھے عوام کے کٹہرے میںلا کھڑا کرتا ہے کہ اگر قیادت آپ کے سلگتے ہوئے مسائل تک اہلیت نہ رکھتی ہو تو اُسے ووٹ دینے کا کوئی حق حاصل نہیں اور آپ کے مسائل کا ادراک وہی کر سکتا ہے جسے اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے صاحبانِ اقتدار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے حلقہ کا حق لینا آتا ہو ،عمران خان کے ساتھ ایوان میں یہی کھیپ ہے ، یہ عوامی نمائندے کا کردار نہیں کہ وہ دبئی اور عرب ممالک میں اپنی جائیدادیں بنا کر عوام کا خون بیچتا پھرے یہ بھی حقیقت ہے کہ آپ کے مسائل کا ادراک بھی وہی شخص کر سکتا ہے جو آپ میں سے ہو آج تک آپ کے ووٹوں کی طاقت سے اسمبلی میں وہی نمائندے پہنچے جن کا تعلق آپ کے طبقہ سے نہ تھا جو منتخب ہوئے تو اُنہوں نے دبئی کے پوش علاقہ میں محل خرید لیئے اور عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والے ان لوگوں نے لوٹ مار کی ایسی تاریخ رقم کی کہ آج وہ منہ چھپاتے پھر رہے ہیںنیب میں ان کی فائلیں پڑی ہیں اورعین رجیم چینج کے لمحات میں ان پر نیب کا شکنجہ ٹائٹ ہونے والا تھا۔
عمران منزل کی جانب اکیلا چلا تو اس کے کارواں میں وہ لوگ شامل ہوئے جن کے پائوں میں جوتے نہیں ہوتے ،تھانہ سے انصاف لینے کیلئے جو پیسے دینے کی استطاعت نہیں رکھتے جو تحصیلدار کو رشوت دیکر اپنی سکنی اراضی کانتقال نہیں کرا سکتے ،روزانہ کوئی نہ کوئی پٹواری جن کا لہو پیتا ہے ،جو عدالتوں کے چکر لگا لگا کر تھک گئے اور اُنہیں کسی زردار یا شریف کا ”مالشی ”اتنا کنگال کر چکا کہ اب کچہری کا رخ کرنے کی وہ سکت سے محروم ہیں ، جن کے پاس غیرت ہے اور وہ کسی سردار کے پائوں چھونے کی جسارت نہیں کرتے اب عمران ہی عوام کی امنگوں کی ترجمانی کرے گا ، عوام اس کا ادراک بخوبی رکھتے ہیں ۔
مجھے آج رائے ونڈ کے شریفوں، نواب شاہ کے ایک نودولتیے کے حواریوں سے کہنا ہے کہ جیتے گا وہی جس کے ساتھ عوام کھڑے ہونگے اور آج عوام کی عدالت میںعمران سرخرو ہے چور دروازے سے فارم 47پرسوار اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہونے والوں کو عوام نے قبولیت نہیں بخشی ، پی ٹی آئی کے نظریاتی ووٹرز کی نفرت،اور بے لاگ عوامی حمایت جعلی حکمرانی کے سامنے مزاحمت بن کر کھڑی ہے جس نے مفادات کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے ۔پی ٹی آئی کیلئے گراس روٹ لیول تک تنظیم سازی کا کام انجینئر افتخار چودھری جیسے نظریاتی ورکروں نے کیا اور آج گراس روٹ لیول تک عوام عمران کے ساتھ کھڑے ہیں۔ رب نواز خان کھتران ،صفدر خان تک کندھے سے کندھا جڑا نظر آتا ہے ، 78برسوں سے قائد کے پاکستان میں مظلوم لوگ اگر انصاف کی اُمید کا کوئی در دیکھ کرتبدیلی کے خواہاں ہیںتو وہ تحریک انصاف کی دہلیز ہے جسے 8فروری کو عوام نے اپنے حق خود ارادیت کے انقلاب سے پار کیا ۔اب تھل کے ریگزاروں ،گوادر کے پانیوں پر رواں دواں لوگ عمران خان کو ہی اپنا مسیحا جان چکے ۔واہگہ بارڈر سے لیکر چمن تک ،روشنیوں کے شہر سے لیکر پھولوں کے شہر پشاور کی دیواروں تک عمران خان کا نام گونج رہا ہے ،عمران خان کی رہائی ایک تحریک میں بدل چکی ، ،مظلوم عوام کیلئے آواز اُٹھانا اپنی جگہ ،لوگ ان جذبات کے ساتھ ہیں جو وطن عزیز کے گھروں کی دہلیز پار کرچکا ، اپنی ذات سے بڑھ کر کوئی کسی کا نہیں سوچتا لیکن 25کروڑ عوام کے پاس اعتماد کی جو دولت ہے وہ اُنہوں نے عمران کی جھولی میں ڈال دی ہے ۔وہ سمجھتے ہیں کہ عمران کی جنگ دو طبقات کی جنگ ہے ایک طرف وہ طبقہ ہے جس کے پاس ناجائز دولت کے انبار ہیں اور ایک طرف وہ طبقہ ہے جس کی قیادت اڈیالہ جیل کا قیدی کر رہا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں