صوبوں کی بات کرو
شیئر کریں
میں یہ نہیں کہتا کہ میں سمجھدار آدمی ہوں یا بہت بڑا سیاستدان ہوں لیکن یہ بات ہے کہ میں پاکستان کا سیاستدان ہوں جو گیارہ مرتبہ قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہوا اور یہ بھی سچ ہے کہ میں لاہور سے بھی منتخب ہوتا رہا ہوں اورا سٹوڈنٹ لائف میں لاہور کی تمام یونیورسٹیوں کا صدر بھی رہا ہوں ۔ اس وقت میاں نواز شریف ‘ میاں شہباز شریف اور بہت سے سیاستدان جونیئر کے طور پر میرا احترام کرتے رہے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک وقت لاہور کے شہریوں نے مجھے شہباز شریف کے مقابلے میں 15000 زیادہ ووٹ دیکر کامیاب کیا ۔ تخت لاہور کی بات ہوتی ہے ‘ وہ اپنی جگہ لیکن لاہورکے تمام لوگ استحصال کرنے والے نہیں ۔ ان میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو استحصال کا شکار ہیں ۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ لاہور کی اسٹیبلشمنٹ اور مقتدر طبقہ پنجاب کے حجم کو کم نہیں کرنا چاہتا ۔ بات یہ نہیں کہ وہ صرف سرائیکی خطے پر اپنا قبضہ برقرار رکھنا چاہتا ہے بلکہ در اصل وہ پنجاب کے بڑے حجم کے باعث چھوٹے صوبوں کو بھی یرغمال رکھ کر اپنے مخصوص مفادات حاصل کرنا چاہتا ہے ۔
آج میں بہت سی باتیں کرنا چاہتا ہوں ، میری بات کو غور سے سنیئے ، میں کوئی صفائی تو نہیں دینا چاہتا کہ ایک گنہگار آدمی ہوں مگر یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں کبھی اقتدار پرست نہیں رہا ۔ مجھ پر الزام ہے کہ میں ضیا ء کی کابینہ میں وزیر بنا ‘ میں کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ یہ میری غلطی تھی اور یہ غلطی کرانے میں کچھ دوسرے دوستوں کے علاوہ سب سے بڑا ہاتھ راولپنڈی کے شیخ رشید کا ہے کہ وہ میرے پاؤں پڑ گیا ، بہرحال پنڈی کے لوگوں نے بھی مجھ پر بہت احسان کیا اور مجھے شیخ رشید کے مقابلے میں کامیاب کرایا ۔ میرے ریکارڈ میں دو باتیں ہیں ‘ ایک میں سب سے زیادہ مرتبہ پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہوا ہوں ‘ دوسرا ریکارڈ یہ ہے کہ میں نے سب سے زیادہ مرتبہ پارلیمنٹ کو چھوڑا۔ ورنہ تنخواہ کسے نہیں چاہئے ۔ میں اتنا بڑا جاگیردار یا لینڈ لارڈ نہیں ہوں، معمولی زمیندار ہوں ، ہر مرتبہ اپنی زمین کا تھوڑا سا حصہ فروخت کرتا ہوں اور کام چلاتا ہوں ۔ اب کینٹ میں میرا گھر بھی برائے فروخت ہے ۔
جہاں تک صوبے کی بات ہے تو میں کہتا ہوں کہ صوبے کا مسئلہ بہت گھمبیر ہے ۔ اس کے لیے ایک طریقہ جدوجہد ہے جو کہ سرائیکی جماعتیں کر رہی ہیں ‘دوسرا طریقہ پارلیمنٹ ہے اور پارلیمنٹ میں بھی ترمیم کے ذریعے نئے صوبے کا مسئلہ مشکل سے مشکل تر بنا دیاگیا ہے ۔ جو بات مجھے سمجھ آتی ہے ‘ وہ میں بتانا چاہتا ہوں کہ سرائیکی صوبے کا مطالبہ کرنے والوں کو ان لوگوں سے ملنا ہوگا جو دوسرے صوبوں کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ یہ مسئلہ صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی سے ہوتا ہوا سینیٹ میں جا کر حل ہوگا۔ گویا یہ مسئلہ پوری قوم نے مل کر حل کرنا ہے ۔ ہزارہ صوبہ ہے ‘ پوٹھوہار صوبہ ہے یہ صوبے بنتے ہیں تو ضرور بنائے جائیں ‘ کوئی اور صوبے کا مسئلہ تو اسے بھی دیکھا جائے ‘ اس سلسلے میں حکمرانوں کو ہٹ دھرمی سے کام نہیں لینا چاہئے ۔ ملک اور قوم کا بہترین مفاد سامنے رکھنا چاہئے ۔ صوبے کے مسئلے پر میں نے سرائیکی مشاعرے میں دو مرتبہ یہ بات دہرائی کہ اگر سرائیکی صوبہ اور دوسرے نئے صوبے نہ بنے تو ملک ٹوٹ جائے گا ۔ یہ بات میں نے صرف خبریں کے مشاعرے میں نہیں بلکہ مسلم لیگ کے ایک اجلاس میں جس میں میاں حمزہ شہباز بھی موجود تھے‘ دہرائی تھی اور آج میں سرائیکستان قومی کونسل کے پلیٹ فارم پر پھر یہ بات دہرا رہا ہوں کہ اگر سرائیکی صوبہ اور دوسرے صوبے جہاں ضرورت ہے نہ بنائے گئے تو ملک کے ٹوٹ جانے کا خطرہ ہے۔
ایک مثال میں یہ دینا چاہتا ہوں کہ احمد پور شرقیہ میں آئل ٹینکر کا بہت بڑا حادثہ ہوا ہے ۔ 200 سے زائد افراد فوت ہو گئے ۔ سینکڑوں زخمی ہیں ، اللہ ان کو شفا دے ، ان کی عمر دراز کرے مگر وہ جب تک زندہ رہیں گے ، سخت مشکلوں کا شکار رہیں گے ۔ ہائیکورٹ نے بھی رولنگ دی ہے اور واضح کہا ہے کہ واقعہ کی ذمہ دار حکومت اور موٹر وے پولیس ہے ‘ میں یہ بات کرنا چاہتا ہوں کہ اگر صوبہ ہوتا تو ایک تو یہ کہ اس حادثے کا الزام پنجاب پر عائد نہ ہوتا ، دوسرا یہ کہ لوگوں کواپنے صوبے کی قربت کی وجہ سے ریلیف ملتا ۔ لاہور سے اٹک اور صادق آباد تک ایک آئی جی کس طرح امن و امان برقرار رکھ سکتا ہے اور کس طرح لوگوں کو سہولت دے سکتا ہے۔ آبادی دن بدن بڑھ رہی ہے ‘ انڈیا کا مشرقی پنجاب جو پاکستانی پنجاب سے چھوٹا ہے ، اس کے تین صوبے ہو گئے ‘ یہاں حالت یہ ہے کہ ون یونٹ کے خاتمے پر سابق ریاست بہاولپور کو بھی اس میں شامل کر دیا گیا ۔ مسئلے کے حل کے لیے حکمران صوبے کے لئے اقدامات کریں اور مسئلے کو آسان بنائیں لیکن یہاں حالت یہ ہے کہ مسئلے کو مشکل سے مشکل تر کیا جا رہا ہے اور وسیب کے لوگوں کو ایک دوسرے سے لڑانے کے لیے الگ الگ صوبوں کی تحریکیں شروع کرائی گئیں تاکہ لوگ آپس میں لڑتے مرتے رہیں اور صوبے کی منزل قریب نہ آ سکے ۔
ایک صوبہ لاہور تھا ‘ لاہور صوبے کو پنجاب کا نام دیا جائے تو یہ صوبہ زیادہ تر انڈیا میں تھا اور یہ دہلی تک چلا جاتا تھا ۔ ایک صوبہ ملتان تھا جس کو سرائیکی صوبے کا نام دیا جائے تو یہ صوبہ رائیونڈ تک چلا جاتا تھا ۔ 1818ء کو رنجیت سنگھ نے ملتان صوبے پر قبضہ کر لیا ، رنجیت سنگھ نے بہت مظالم ڈھائے ، اس نے لاہور میں بھی بہت ظلم کیا لیکن ایک بات یہ ہے کہ رنجیت سنگھ نے صوبہ ملتان برقرار رکھا ، ساون مل اور مولراج ملتان کے صوبیدار رہے ۔ رنجیت سنگھ کا دور ختم ہوا ، انگریز آیا تو انگریز کو لاہور یا کسی دوسرے علاقوں میں مزاحمت نہ ہوئی ، اسے سب سے بڑی مزاحمت کا سامنا جھنگ اور ملتان کے علاقوں میں کرنا پڑا ۔ انگریز نے اس علاقے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔ رنجیت سنگھ نے صوبہ پشاور پر بھی قبضہ کیا تھا مگر انگریز نے پشتونوں کو خوش کرنے کے لیے ان کو صوبہ پشاور منافع کے ساتھ واپس کیا اور اس میں سرائیکی علاقے دیرہ اسماعیل خان ‘ بنوں اور ٹانک وغیرہ بھی شامل کر دیئے ۔ مگر صوبہ ملتان کو بحال نہ کیا ۔ انگریز کی اپنی ترجیحات تھیں ‘ انگریز چلا گیا تو صورتحال میں تبدیلی آنی چاہئے تھی مگر وہ تبدیلی نہ آئی ‘ انگریز کی میراث کے وارث کالے انگریز انگریزوں سے بھی دو قدم آگے چلے گئے اور ان کے اقدامات انگریزوں سے بھی زیادہ سخت ثابت ہوئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ صوبہ نہیں بن رہا ۔ اب میں درد مندی کے ساتھ اہل وطن کو اور سرائیکی خطے کے تمام سیاستدانوں اور عوام کو کہتا ہوں کہ وہ سر جوڑ کر بیٹھیں کہ کس طرح صوبہ حاصل کرنا ہے کہ صوبہ اب صرف اس خطے کے لوگوں کی نہیں ، پاکستان کی ضرورت ہے اور میں پھر کہتا ہوں کہ خدانخواستہ صوبے نہ بنے تو ملک ٹوٹ سکتا ہے۔
(11 مرتبہ پارلیمنٹ کے ممبر منتخب ہونے والے معروف پارلیمنٹرین مخدوم جاوید ہاشمی کا ملتان میں خطاب سے اقتباس )
٭٭…٭٭