میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سانحہ احمد پورشرقیہ ۔ ذرا سوچئے!

سانحہ احمد پورشرقیہ ۔ ذرا سوچئے!

ویب ڈیسک
اتوار, ۹ جولائی ۲۰۱۷

شیئر کریں

احمد پورشرقیہ کے سانحہ میں لگ بھگ دو سو سے زائدانسان جھلس کر دنیا سے رخصت ہو گئے۔ عید سے ایک روز پہلے رونما ہونے والے اس سانحے نے سب کو سوگوار کردیا۔ایک تسلسل کے ساتھ کوئٹہ، پارا چنا کے بعد یہ سانحہ ہوا ۔ پھرانسانی جانوں کے زیاں کے لحاظ سے یہ واقعہ بڑا بھی تھا اس لیے قوم کے ذہنوں پر اس واقعے نے گہرا اثر کیا۔چونکہ واقعہ جنوبی پنجاب میں ہوا اس لیے حزب اختلاف کی جماعتوں نے بھی اس پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ظاہر ہے کہ حزب اختلاف کا کام ہی یہ ہوتا ہے کہ حکومت کی کمزوریوں پر گرفت کرے ہمیں اس تنازع میں اپنا پاؤں نہیں پھنساناچاہتے بلکہ ہم اس تجزے کو ایک مختلف پیرائے میں کرنا چاہتے ہیں۔
سانحہ احمد پور شرقیہ کے تناظر میں جہاں حکومت کے خلاف مہم چلائی گئی وہیں سرکار کے بہی خواہوں نے الزام مرحومین کے سرمنڈھ دیا کہ وہ لالچی تھے ۔بلاشبہ لالچ کے عنصرکو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا مگر یہ لالچ غربت اور محرومی کا لازمی نتیجہ ہے جس علاقے میں موٹرسائیکل گئے زمانے کی بیل گاڑی کی طرح ہر مرض کی دوا ہو یعنی تفریح کا ذریعہ بھی اور معاشی جدوجہد کی معاون بھی توظاہر ہے کہ اس کا ایندھن کس قدر اہمیت کا حامل ہوگا؟ اصل توجہ اس پر دینے کی ضرورت ہے کہ جس غربت نے لالچ کو بڑھاوا دیا وہ کس کی پالیسیوں کے نتیجے میں اب تک اس خطے میں ہے جہاں سارے موسم اور ساری نقد آور فصلیں ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے اس میں کہیں نہ کہیں تو موجودہ حکومت بھی نظر آتی ہے یقینا سابق دور میں جو پیپلزپارٹی کا تھا وہ لوگ بھی بری الذمہ نہیں ہیں۔ تحریک انصاف کو فی الحال اس لیے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا کہ اس کا پنجاب میں حکمرانی کا کوئی دور نہیں رہا۔ البتہ کچھ لوگ اب ایسے تحریک انصاف میں ضرور شامل ہوئے ہیں جو اس علاقے پر حکمرانی کرتے رہے ہیں مگر ظاہر ہے سیاست کی نہیں ہم منطق کی بات کر رہے ہیں اس لیے لالچ سے بھی پہلے جس پہلوپر توجہ کی جائے وہ ہے انتظامی اور امدادی(ریسکیو) اداروں کی اہلیت۔ ہمارے یہاں اداروں کا قیام اور انکی خود انحصاری بھی ایک مسئلہ رہی ہے اول تو ایسے ادارے قائم ہی نہیںا ور جو قائم کیے جانے تھے ، وہ بھی نہیں ہو سکے اورجو قائم ہو گئے ہیں تو ان میں مختلف قسم کی مداخلتیں ہوتی ہیں جس سے وہ اپنا کام درست طور پر نہیں کرپاتے۔ اب ہونا یہ چاہیے کہ جیسے ہی ٹینکر اُلٹا تھا موٹروے پولیس فوری ہنگامی امداد کے لیے کام کرنے والے اداروں کو طلب کرتی، مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ اُدھرٹینکر الٹا رہا اس میں پیٹرول بہتا رہا جو دیہاتیوں کے لیے کشش کا باعث بن گیا۔ حادثے کی اطلاع ملتے ہی ڈپٹی کمشنر، ریسکیو، 112موٹروے پولیس، ضلعی پولیس، ریلیف کا کام کرنے والی این جی اوز فوری طور پر پہنچتے اور ریلیف کے کام شروع کرتے، ضلعی پولیس سختی سے لوکوں کو روکتی مگر ایسا نہیں ہوسکا۔موٹروے پولیس اس واقعہ کی سب سے بڑی ذمہ دار ہے۔انکی پیٹرولنگ جاری رہتی ہے جیسے ہی ٹینکر الٹنے کی پہلی اطلاع آئی تھی ٹینکر کو سیدھا کرنے کی کوشش کی جاتی۔ اس کے لیے جو بھی وسائل درکار ہیں اگر وہ نہیں ہیں تو آئندہ کسی سانحے سے پہلے ان کا انتظام کرلیا جاہے ہائی ویز پر اس طرح کے حادثات ہوتے رہتے ہیں۔ اب کمشنر اور ڈپٹی کمشنر صاحب جو بھی رپورٹ دیں گے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ضلعی انتظامیہ کی ذمہ داری تھی کہ ایک حادثے کو سانحہ بننے سے نہیں روک سکی، اس ٹینکر کو سیدھا کرکے وہاں سے ہٹا دیا جاتا تو یہ حادثہ، حادثہ ہی رہ جاتا۔
بنیادی بات ہے کہ عوام کی بحیثیت مجموعی تربیت ہونی چاہیے کہ کس موقع پر ان کا کردار کیا ہونا چاہیے ۔احمد پور شرقیہ کے جو حالات بیان کیے گئے ہیں اس سے تو گمان ہوتا ہے کہ ہم کوئی قوم نہیں بلکہ ہم ایک ہجوم اورایک بھیڑ کے درمیان رہتے ہیں ۔حالانکہ ایسا نہیں ہے قوموں کی تشکیل کے لیے جس قیادت کی ضرورت ہوتی ہے شاید ایسی قیادت مل نہیں سکی ۔ یہ جو غربت کا واویلا مچایا جارہاہے وہ ہوگی مگر یہ عقل کی میزان پر تولاجائے توچند لیٹر مٹی ملا پٹرول کیا ان کی غربت کا علاج ہوسکتاہے ؟ظاہر ہے نہیں ، پھر اصل مسئلہ غربت نہیںتعلیم و شعور کی ضرورت ہے جو ظاہر ہے مسلسل تربیت کے ذریعے ہی حا صل ہوسکتی ہے اورتربیت کے لیے اداروں کی ضرورت ہے۔ ادارے فعال اور مستحکم ہوں گے تو عوام کو اندازہ ہوگا کہ کون سا کام کس کی ذمہ داری ہے؟
یہ بھی دیکھاجائے کہ ٹینکر اُلٹنے کی وجہ کیاتھی ؟تیزرفتاری ،ڈرائیور کی غفلت یاپھر کوئی اور؟عام طور پر ہمارے یہاں ڈرائیور کی نوکری میں بنیادی طبی اصولوں یاانسانی حقوق کا بالکل خیال نہیں رکھا جاتا۔ اس معاملے میں تحقیق کے بعد ہی کوئی فیصلہ ہوسکے گا مگر زیادہ تر حادثات کسی جگہ جلدی پہنچنے یا ڈرائیور کے چاق وچوبند نہ ہونے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ اُن کے کام کے اوقات بہت زیادہ ہونااورجاگنے کے لیے مختلف قسم کی نشہ آور اشیا کا استعمال کرنا ،اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان کے کام کے اوقات رفتار کا تعین ٹریفک قوانین کا استعمال یہ سب ایسے امور ہیں جن کی تربیت لازمی ہے ۔
ریاست بہاولپور پاکستان کی خوشحال ترین ریاست تھی جس کا وکٹوریہ اسپتال بھی خطے کا اہم اسپتال تھا مگر پھر زمانے کی گردش نے اسے اس حال کو پہنچادیا۔اور حکومت کی جانب سے باربار اعلان کیے جانے کے بعداس کا توسیعی منصوبہ مکمل نہ ہوسکا۔وکٹوریہ اسپتال، قائد اعظم میڈیکل کالج کا ٹیچنگ اسپتال بھی ہے مگر یہاں برن یونٹ نہیں ہے۔ سی ایم ایچ بہاولپور کے برن یونٹ کی گنجائش بہت کم ہے۔ اس کے باوجود اتنے بڑے حادثے کے موقع پر قائد اعظم میڈیکل کالج کے شعبہ پلاسٹک سرجری کے پروفیسر ڈاکٹر مغیث امین اور ان کی ٹیم کی تعریف نہ کی جائے تو یہ نا انصافی ہوگی سانحہ عظیم کے بعد کم وسائل کے باوجود ابتدائی طبی امداد کے بعد جس طرح انہوں نے بغیر کسی وقفے کے کام کیا، یہ کسی جذبے کے بغیر نہیں کیا جاسکتا ۔یہی وہ جذبہ ہے جو اگر کسی علاقے کی بعض مخصوص روحوں میں نہ ہو تو یہ علاقے جہنم بن جائیں۔ اس جذبے کے تحت انہوں نے کئی انسانی جانیں بچائیں اور کئی بچانے کی کوشش کی۔ اللہ انہیں اپنی محنت کا بہترین اجر دے۔ ان ڈاکٹرز پر تو یہ ذمہ داری اچانک آن پڑی مگر ان کا کام تو بعدمیں شروع ہوتا ہے۔ اس سے پہلے جن اداروں کی ذمے داری تھی وہ کہاں تھے؟ ٹینکر الٹنے کے بعد سب سے پہلے تو موٹر وے پولیس کی ذمے داری تھی ضلعی انتظامیہ اور ریسکیو ون ون ٹوٹو کہاں تھے ؟پہلے توٹینکر کو سیدھا کرنا تھا اسے وہاں سے ہٹا نا تھا ،اس طرح کے اقدامات سے خطرات کم ہوسکتے تھے مگر اس جانب کسی نے توجہ نہیں دی ۔
اب اس پر توجہ ہے کہ سب ایک رو میں بہے جائیں کہ یہ سب لالچی تھے۔یہ درست ہے کہ برصغیر پر ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت یاانگریز دور کے بعد ہمارا قومی مزاج بن گیاہے کہ سرکاری اداروں کی غفلت یا ان کے حصے کا جو مال ہے عوام کو اسے لوٹنے کا حق ہے۔بس خرابی یہیں سے شروع ہوئی اس خرابی نے جگہ بنالی ہے ۔ ایک طبقہ تو ہمارے یہاں ایسا بھی ہے جو اب تک حکومت یا اس کے اداروں کو غیر سمجھتا ہے۔ حالآنکہ آزدای کے بعد یہ ادارے عوام کے خادم سمجھے جاتے ہیں ۔جنہیں درست کرنے کے لیے قومی سطح پر کوئی حل نکالنا چاہئے اوراس کے لیے مربوط انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اب مسلسل تیسری جمہوری حکومت اپنی مدت پوری کرنے والی ہے اب تو قوم میں یہ احساس اجاگرکیاجائے۔۔کہ یہاں کی ہر شے ہماری ہے اوراپنی ہرشے کی حفاظت کی جاتی ہے۔برطا نوی اخبار گارجین نے لکھا ہے کہ علاقے کی مساجد کے لاوڈ اسپیکرز سے جو اعلان ہوئے وہ یہ نہیں تھے کہ آئل لوٹنے کے لیے برتن لائیے بلکہ احتیاط برتنے کے مشورے دیے گئے۔ مساجد سے کیے گئے اعلان تما م لوگ نہیں مانتے سو نہیں مانے، مگر یہ بات خوش آئند ہے کہ مساجد سے ہونے والے اعلان مثبت تھے۔
٭٭…٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں