سندھ ہائیکورٹ نے دعازہراکومرضی کافیصلہ کرنے کی اجازت دیدی
شیئر کریں
دعا زہرا کی میڈیکل رپورٹ سندھ ہائی کورٹ میں پیش کردی گئی، رپورٹ کے مطابق بچی کی عمر سترہ سال ہے،سندھ ہائیکورٹ نے دعا زہرا کو اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کی اجازت دے دی۔عدالت نے دعا زہرا بازیابی کیس کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔تحریری حکمنامہ تین صفحات پر مشتمل ہے۔دعا زہرا نے بیان دیا تھا کہ اسے کسی نے اغوا نہیں کیا،اس کی عمر 18 سال ہے، اپنی مرضی سے شادی کی اور اب اپنے شوہر ظہیر کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔عدالت نے دعا زہرا کے بیان کی روشنی میں فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ دعا زہرا اپنی مرضی سے فیصلہ کر سکتی ہے کہ وہ والدین کے پاس جانا چاتی ہے یا پھر اپنے شوہر کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔سندھ ہائیکورٹ نے تحریری حکمنامے میں کہا کہ شواہد کی روشنی میں اغوا کا مقدمہ نہیں بنتا۔دعا زہرا کی مرضی ہے جس کے ساتھ رہنا چاہے رہ سکتی ہے۔قبل ازیں سندھ ہائی کورٹ نے دعازہرا کے والدین کے دعوی کو غلط قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ ہمیں آپ کی بات پر یقین نہیں ، بچی نے حلفیہ بیان دیا اس کی اہمیت ہے آپ جائیں ۔عدالتی حکم پر چیمبرمیں دعازہراکی والدین سے 10منٹ ملاقات بھی کرائی گئی، ملاقات ختم ہونے پر پولیس دعا کو واپس لے گئی،دعا زہرا کے والدین نے دعویٰ کیاکہ ملاقات میں بچی نے گھرجانے کا کہا،ہم نے جج صاحب سے کہا بچی دوبارہ بیان دینا چاہتی ہے لیکن جج صاحب نے دوبارہ بیان نہیں لیا۔بدھ کوسندھ ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ میڈیکل رپورٹ کے مطابق بچی کی عمر تقریبا 17 سال ہے۔دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ عدالت نے گزشتہ سماعت پر میڈیکل کرانے کا حکم دیا تھا، ہم نے کچھ دستاویزات پیش کرنی ہیں، لڑکی کے تمام دستاویزات کے مطابق عمر چودہ سال ہے، جس پر جسٹس جنید غفار نے کہا کہ آپ نے جو بھی پیش کرنا ہے، ٹرائل کورٹ میں پیش کریں، ہمارے پاس صرف بازیابی کا کیس تھا، اب بچی بازیاب ہوگئی ہے۔پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ یہ درخواست نمٹا دیں معاملہ ٹرائل کورٹ میں بھیجا جائے۔ ٹرائل کورٹ میں چالان بھی جمع کرایا جاچکا ہے، 10 جون کو دعا کو لاہور ہائیکورٹ میں پیش کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ کسٹڈی پنجاب پولیس کے حوالے کی جائے تاکہ لاہور ہائیکورٹ میں پیش کیاجاسکے۔ ہمارے پاس جو درخواست تھی اس کے مقاصد حاصل ہوچکے ہیں۔ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ لاہورمیں لڑکی اور لڑکے کو دس جون کو پیش کیا جانا ہے جس پرجسٹس جنید غفار نے کہا کہ ٹھیک ہے بچوں کو وہاں جا کرپیش کریں۔ عدالت نے دعا کے والد سے استفسار کیا کہ آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں؟ جس پر انہوں نے کہا کہ میری شادی کو 17 سال ہوئے ہیں، میری بچی کی عمر 17 سال کیسے ہوسکتی ہے۔ کیس یہاں چل رہا ہے، عدالت نے درخواست گزار سے کہا کہ بچی کا بیان ہوچکا ہے، آپ جذباتی کیوں ہورہے ہیں؟۔جسٹس امجد سہتو نے کہا کہ ڈویلپمنٹ ہوچکی ہے لڑکی کا بیان ہوگیا، عمر کا تعین ہوگیا۔ اب بیان اور شواہد کے مطابق کیس ٹرائل کورٹ میں چلے گا۔والد مہدی کاظمی نے کہا کہ میرے پاس بچی کا پاسپورٹ اور تمام دستاویزات ہیں جس پر جسٹس جنید غفار نے کہا کہ ہم اس پوائنٹ پر فیصلہ نہیں کررہے۔