حادثے اور غیر ذ مہ داریاں
شیئر کریں
قیامِ پاکستان سے ہی مختلف قسم کے حادثے ہماری تاریخ کا حصہ ہیں لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ آج تک کسی حادثے کی وجوہات کا تعین کرنے کی کوشش ہی نہیں ہوئی اسی وجہ سے کسی زمہ دار کو سزا نہیں مل سکی یہ غیر زمہ داری اور لاپرواہی کی انتہا ہے اور تلخ سچ یہ ہے کہ اسی غیر زمہ داری کی بنا پر حادثے ہماری تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں اور قیمتی جانیں ضائع ہو رہی ہیں اگر کسی ایک حادثے کی غیر جانبدارانہ انکوائری کرائی جاتی اور زمہ داروں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جاتا توآج موجودہ صورتحال نہ ہوتی اور فرائض سے غفلت کا سلسلہ موقوف ہو چکا ہوتا لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہر اِدارے میں غیر سنجیدگی اور غیر زمہ داری رائج ہے اسی بنا پر ریلوے ،پی آئی اے ، پوسٹ آفس ،پی ٹی وی ، ریڈیو،پاکستان اسٹیل ملزسمیت اکثر وفاقی اِدارے تباہ اور خسارے میں جا رہے ہیں پھربھی ذمہ داران اپنے طرزِ عمل میں تبدیلی لانے کو تیار نہیں ۔
گھوٹکی میں ڈہرکی کے قریب کراچی جانے والی ملت ایکسپریس کی کچھ بو گیاں خستہ لائین ہونے کی وجہ سے دوسرے ٹریک پر جاگریں اور دوسرے ٹریک پر آنے والی سرسید ایکسپریس اِ ن بو گیوں سے جا ٹکرائی دونوں ٹرینوں کی آٹھ بو گیاں ایک دوسرے میں دھنس جانے سے اموات میں اضافہ ہوا۔ اِس حادثے میں پچاس سے زائد مسافر جاں بحق اور سو سے زائد زخمی ہو ئے ہیں یہ بات صدفیصد درست ہے کہ حادثے کا ذیادہ موجب خستہ حال ٹریک ہے جس جلد بہتر بنانا اشد ضروری ہے علاوہ ازیں ملت ایکسپریس کے ڈرائیو رنے گاڑی چلانے سے قبل بوگی نمبر د س کے ہُک کی خرابی کی نشاندہی کرتے ہوئے درست کرنے کا مطالبہ بھی کیا مگر محکمہ ریلوے ایسے مطالبات کو درخوراعتنا نہیں سمجھتا بلکہ سب کی کوشش ہوتی ہے کہ ٹرین کو روانہ کریں اب محکمے کی کوشش ہے کہ حادثے کی ذمہ داری ڈرائیور پر ڈال کر معاملے کو رفع دفع کر دیا جائے لیکن ڈرائیور ز کا موقف ہے کہ تحقیقات میں ثابت ہوجائے گا کہ ہم سوئے ہوئے نہیں تھے بلکہ حادثے کی وجوہات اور ہیں مگر مٹی پائو پالیسی سے ذمہ داران کا تعین نہیں ہو رہا جب زمہ دارکا تعین ہی نہیں ہو رہا تو کسی کو سزاخاک ملنی ہے ۔
پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میںحادثات کے دوران جانی و مالی نقصان ہوتا ہے مگر دنیا میں حادثات کی صفاف شفاف انکوائری ہوتی ہے اور پھر جوذمہ دار ہوتا ہے اُسے اپنے کیے کی سزا بھی ملتی ہے دنیا میںاکثر حادثات کے بعد وزرا مستعفی ہوجاتے ہیں حالانکہ اُن کاعملی طورپر حادثے میں کوئی کردار نہیں ہوتا مگر پاکستان کا دنیا سے الگ ہی طریقہ کار ہے وزراء کے مستعفی ہونے کی کوئی تومثال ہی نہیں اور جہاں فردوس عاشق اعوان جیسے اطلاعات کے صوبائی معاون خصوصی ہوں وہاں سچ تلاش کرنا ناممکن ہوتا ہے جب فردوس عاشق اعوان فرمائیں کہ اللہ کا شکر ہے رواں برس کا پہلا حادثہ ہے تو کسی اور کو کیا الزام دیا جاسکتا ہے جن کی زہنی سطح اتنی پست ہووہاںانسانی جان کی قدروقیمت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ڈہرکی کے قریب قیامت خیز مناظر کے باوجود وزیرِ ریلوے ہیلی کاپڑ میں تشریف لاتے ہیں اور چشمہ لگاکر معائنہ کرتے ہیں جیسے کوئی حادثہ نہ ہواہوبلکہ تماشہ ہو رہا ہو حالانکہ اگر کچھ کرنا نہیں توکسی کا مذاق اُڑانے کی بجائے حفاظتی نظام میں نقائص کی نشاندہی اور حادثے کی تحقیقات کا حکم ہی صادر کر دیتے تو بہتر تھا ۔
ملک میںریل کاطویل سفر اِس وجہ سے عوام کا پسندیدہ ہے کہ یہ آرام دہ ہونے کے ساتھ کم خرچ ہے مگرہونا تو یہ چاہیے کہ ٹرین کو روانہ کرنے سے قبل انجن ،بوگیوں کی بریکیں چیک کی جائیں پانی وبجلی کے نظام کے ساتھ ایک دوسرے سے جوڑنے کے لیے ہُک وغیرہ کی جانچ کی جائے آگ بجھانے کے آلات کی موجودگی اور درستگی کو یقینی بنایا جائے افسوس کہ نقائص کی نشاندہی اور اُنھیں دور کرنے پر توجہ دینے سے پہلو تہی کی جاتی ہے جس کی وجہ سے راستے میں ٹرینوں کا خراب ہونا معمول بن کررہ گیا ہے اور آج حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ٹرین پر سفر کرنا لوگ موت کو دعوت دینے کے مترادف سمجھتے ہیں یہی عوامی سوچ خسارے کی بڑی وجہ ہے اِس میں کوئی شائبہ نہیں کہ پاکستان میں ٹرین حادثات کی تین بڑی وجوہات ہیں اول۔یہ کہ ریلوے لائن آزکاررفتہ ہے جو ٹرینوں کی تیز رفتاری کی متحمل نہیں دوم۔انجنوں اور بوگیوں کی حالت بھی تسلی بخش نہیں جو زرا سی رفتار بڑھنے سے ہی غیر متوازن ہو جاتی ہیں سوم۔عملہ تربیت یافتہ نہیں بلکہ سُست ہے اور یہ غیر تربیت یافتہ عملہ ہنگامی حالات میں فیصلہ کرنے کی قوت سے عاری ہے اوربروقت سگنل دینے میں سُستی کا مظاہرہ کرتا ہے حکومت نے اگر فوری توجہ نہ دی تو خرابی مزید بڑھ جائے گے جو عوامی بداعتمادی میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔
افسوس کہ ریلوے کا وسیع نظام آج بھی سو سال پُرانے طریقہ کار کے مطابق چلایا جا رہا ہے حالانکہ دنیا میں ایسا نہیں ریل کا نظام بہتر بنانے کے لیے سی پیک کے تحت کچھ نئے منصوبے شروع ہوئے ہیں لیکن یہ محدود نوعیت کے ہیں جن سے مکمل بہتری نہیں آسکتی ضرورت اِس امر کی ہے کہ لوگوں کو باتوں سے بہلانے کی بجائے نقائص دور کرنے کی طرف توجہ دی جائے تبھی خسارے میں جانے والے ریل کے نظام پر عوامی اعتماد بحال ہو سکتا ہے موجودہ حکومت کے تین سالہ دور میں آٹھ بڑے حادثات ہوئے ہیں لیکن حکومت نے وجوہات تلاش کرنے کی بجائے بس اِتنا نوٹس لیا ہے کہ شیخ رشید کو ہٹا کر اعظم سواتی کو وزارت سونپ دی ہے یہ مجرمانہ غفلت ہے صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ تبدیلی بھی سیاسی مجبوری کی مرہونِ منت ہے وگرنہ آٹھ کی بجائے ذیادہ حادثات بھی ہو جاتے تو حکومت کو پرواہ نہ ہوتی ۔
ریلوے کی تاریخ پر طائرانہ نگاہ ڈالیں تو یہ حادثات سے بھری دکھائی دیتی ہے جن میں ہزاروں بچے ،بوڑھے ،جوان اور خواتین بے موت مارے گئے مگر ذمہ داران ٹس سے مس نہیں ہوئے بلکہ حادثے کے بعد مرنے اور زخمی ہونے والوں کی مالی مدد کرنا ہی ذمہ داری سمجھ لی گئی ہے 1953میں ہونے والے ٹرین حادثے میں دوسو افراد جاں بحق ہوئے 1969میں لیاقت پور حادثے میں اسی افراد مارے گئے 13جولائی 2005میں گھوٹکی کے قریب تین ٹرینیں آپس میں ٹکرا گئیں جس کے دوران سواسو سے زائد افراد لقمہ اجل بنے جبکہ زخمی و اپاہج ہونے والوں کی تعداد تین سو سے تجاوز کر گئی گزشتہ تین برس کے دوران مسلسل ٹرین حادثے ہورہے ہیں مگر کوئی بھی زمہ داری لینے کو تیار نہیں ستم ظریفی تو یہ ہے کہ حادثوں کا زمہ دار بھی سابق حکمرانوں کو ٹھہرایا جا رہا ہے یہ غیر ذمہ داری اور لاپرواہی کی انتہا اور مجرمانہ غفلت ہے ذمہ دار کا تعین نہ کرنااور سزادینے کی بجائے مرنے والوں کے لواحقین کو چند لاکھ تھما ناانصاف نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔