عید ختم،پیسہ ہضم۔۔ (علی عمران جونیئر)
شیئر کریں
دوستو، عید بھی ختم اور تمام پیسہ بھی ہضم۔ جی ہاں، ایک تو رمضان المبارک کے خرچے اوپر سے عید کے چرچے۔۔ جتنا رمضان المبارک کے پورے ماہ خرچ نہیں ہوتا، اتنا عید کی تیاریوں میں لگ جاتا ہے، تنخواہ دار طبقہ تو عید کے بعد بھی یہی رونا روتارہتا ہے کہ عید ختم،پیسہ ہضم۔۔ اس بار عید بھی مہینے کے شروع میں آئی ہے اس لیے اب پورا مہینہ تنخواہ دار طبقہ تو روکھی سوکھی میں ہی گزارا کرے گا۔۔خیر آج لانگ ویک اینڈ کا آخری روز بھی ہے، عید کی تعطیلات بھی ختم ۔۔کل سے باقاعدہ کام کا آغاز ہوجائے گا۔۔ اس لیے کچھ سنجیدگی سے ایسی باتیں کی جائیں کہ ہمارے اندر کی ’’غیرت‘‘ جاگ جائے۔۔
مولانا طارق جمیل صاحب کو پورے رمضان کسی نہ کسی چینل پر وعظ کرتے سنا، ان کی ایک بات ہمارے دل کو لگی۔۔وہ فرماتے ہیں کہ۔۔ تیس لاکھ افراد انتیس ویں رمضان کو بیت اللہ شریف کا پردہ پکڑ کر روتے ہیں۔۔امام کعبہ ایک گھنٹہ تک دعاکراکے رو،روکر ہلکان ہوجاتے ہیں،پیچھے تیس لاکھ لوگ رو،رو کر آمین کہتے جاتے ہیں۔۔پھر بھی آسمان کے دروازے نہیں کھلتے۔ اللہ کو تو کوئی ایک پکارے تو عرش میںہلچل شروع ہو جاتی ہے، آسمان کے دروازے کھڑکھڑانے لگتے ہیں۔۔ساری رات ننگے ناچ اور فوٹو دیکھتی نسل۔۔تجارت سود پر ہو۔اولاد والدین کی نافرمان ہو۔۔راتوں کو شراب و زنا عام ہو۔۔بازراوں میں تجارت کی نام پر جوا، سود و سٹہ ہو۔۔ہرچیزمیں ملاوٹ ہو۔۔ظلم و بربریت کا بازار گرم ہو۔۔ دھوکا دہی عام ہو۔۔جھوٹ کا بول بالا ہو۔۔مظلوم کی آہیں آسمان تک پہنچتی ہوں اس کی دادرسی کرنے والا کوئی بھی نہ ہو۔۔لڑکیاں بے حجاب ہوں۔۔لڑکی کو پیار کے نام پر پھنسانا اعزازہو۔۔ اپنی عزت اعلیٰ اور دوسرے کی عزت ادنیٰ جس معاشرے کا معمول ہو۔۔قتل و غارت ، لوٹ مار روٹین بن جائے۔۔حکومت کے نام پر فرعونیت ہو اور افسر شاہی کے نام پر خیانت اور بددیانیتی ہو ،تو ہماری دعائیں کیسے قبول ہوں گی۔۔۔؟؟
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شاہ رخ جتوئی ہوا کرتا تھا۔۔دوسری دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک مصطفٰی کانجو ہوتا تھا۔۔تیسری دفعہ کی بات ہے کہ ایک ڈاکٹر عاصم ہوا کرتا تھا۔۔چوتھی دفعہ کا ذکر ہے کہ آیان علی ہوا کرتی تھی۔۔ پانچویں دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک ڈی ایچ اے سٹی ہوا کرتا تھا۔۔ساتوں دفعہ کا ذکر ہے ایک مونس الہی ہوا کرتا تھا ۔۔پھر آٹھویں دفعہ کا ذکر ہے کہ ملک ریاض ملک کے منتخب صدر کو لاہور میں 5 ارب کی تسلیم شدہ مالیت کا بلاول ہاؤس کا تحفہ پیش کرتا ہے ۔۔پھر نویں دفعہ کی حکایت ہے کہ صدر محترم کراچی میں 20 ہزار ایکٹر سرکاری زمین ملک ریاض کو تحفہ میں پیش کرتے ہیں۔۔دسویں دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک خادم اعلیٰ ہوتا تھا جو کرپٹ زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے کا دعوی کرتا تھا۔۔۔ گیارہویں بار کا ذکر ہے کہ ۔۔ ملک سے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی باتیں ہوتی تھیں۔۔ بارہویں بار کا ذکر ہے۔۔ ملک استحکام کی راہ پر گامزن ہے، غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر کافی ہیں، معیشت مستحکم ہے، پاکستان تیزی سے ایشین ٹائیگر بننے جارہا ہے۔۔۔پھر ایک ارسلان افتخار بھی ہواکرتا تھا۔۔اس کا ذکر عدل کے ایوانوں کی غلام گردشوں میں گم ہو گیا ۔۔پھر آخری دفعہ کا ذکر ہے۔۔ مسجد سے ٹونٹی چرا کر ایک وقت کی روٹی کھانے والے کو لوگوں نے مار مار کر لہو لہان کر دیا۔۔
ہمارے پیارے دوست نے ہمیں یہ حکایت بھیجی ہے، سمجھاجائے تو بہت ہی سبق آموز ہے۔۔صدیوں پہلے کسی بزرگ کی شیطان سے ملاقات ہوگئی، بزرگ نے شیطان سے پوچھا ’’ تم بظاہر ایک عام سی مخلوق دکھائی دیتے ہو لیکن تم بیٹھے بیٹھے سینکڑوں ہزاروں لوگوں کو کیسے لڑا دیتے ہو ‘‘ شیطان مسکرایا ، اس نے بزرگ کو اپنی انگلی دکھائی اور آہستہ سے بولا ’’لوگوں کو میں نہیں لڑاتا ، میری یہ انگلی لڑاتی ہے ‘‘ بزرگ نے پوچھا ’’ وہ کیسے ‘‘ شیطان نے کہا ’’ آپ میرے ساتھ ذرا بازار تک چلیے ‘‘ بزرگ اس کے ساتھ چل پڑے ، شیطان انہیں ایک حلوائی کی دکان پر لے گیا ، اس نے بزرگ کو ایک سائیڈ پر کھڑا کیا ، حلوائی کی شیر ے والی کڑاہی میں انگلی ڈبوئی اور یہ انگلی سامنے دیوار پرلگا دی ، دیوار پر شیرے کا ایک دھبہ سا بن گیا ، بزرگ نے دیکھا چند لمحوں میں شیرے کے دھبے پر مکھیاں جمع ہوگئیں ، دیوار کے دوسرے کونے پرایک چھپکلی بیٹھی تھی ، چھپکلی نے مکھیاں دیکھیں تو وہ ان کی طرف لپکی ، حلوائی کے اسٹول کے نیچے ایک بلی تھی ، بلی نے چھپکلی دیکھی تو وہ اسٹول کے نیچے سے نکلی اور چھپکلی پر جمپ لگا دی۔ اس دوران بازار سے ایک وزیر کا نوکر کتا لے کر گزر رہا تھا ، کتے نے بلی دیکھی تو اس نے رسی چھڑاکر بلی پر حملہ کردیا ، بلی دکان کے اندر بھاگ گئی لیکن کتا مٹھائی پر چڑھ گیا اور اس نے ساری مٹھائی خراب کر دی ، حلوائی کو غصہ آگیا، اس نے جلیبیاں تلنے والا چھاننا کتے کے سر پر دے مارا ، کتے نے چیخ ماری اور بازار میں گر کر دم توڑ دیا ، وزیر کا نوکر بھاگتا ہوا آیا، اس نے حلوائی کو گریبان سے پکڑا اور اسے بازار سے نکال کر مارنے لگا ، حلوائی کے ملازم شور سن کر باہر آئے اور انہوں نے وزیر کے نوکر کو مارنا شروع کردیا۔ اتنے میں اس لڑائی کی اطلاع وزیر کے دفتر تک پہنچ گئی ، وزیر نے اپنے سپاہی بازار کی طرف دوڑا دئیے ، سپاہی حلوائی کی دکان پر پہنچے اوروہ حلوائی کے نوکروں کو مارنے لگے ، یہ زیادتی دیکھ کر دوسرے دکاندار اپنی دکانوں سے باہر نکلے اور انہوں نے سپاہیوں کو مارنا شروع کردیا۔ قصہ مختصر یہ لڑائی چند لمحوں میں پورے شہر میں پھیل گئی اور درجنوں افراد دیکھتے دیکھتے زخمی ہوگئے۔ بزرگ شیطان کے ساتھ کھڑے ہو کر حیرت سے سارا تماشا دیکھ رہے تھے ، شیطان نے آخر میں ان کی طرف دیکھا اور مسکرا کر بولا ’’ کیوں صاحب کیسا لگا ‘‘ بزرگ نے پوچھا ’’کیا یہ سارا تمہارا انگلی کا کھیل تھا ‘‘ شیطان نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’ نہیں ‘‘ یہ سارا غصے ، منافقت ،حسد ، انتقام کا کھیل تھا ’’ بزرگ نے پوچھا کیا مطلب ؟ شیطان بولا ، اللہ نے انسان میں غصے انتقام ، حسد کا جذبہ رکھا ہے ، جب کسی شخص ، کسی طبقے شہر یا قوم میں یہ جذبے بڑھ جائیں تو اس پوری قوم ، اس پورے شہرکو تباہ کرنے کے لیے میری انگلی کا ایک دھبہ کافی ہوتا ہے۔ ’’بزرگ خاموشی سے سنتے رہے ، شیطان بولا ’’ دنیا میں یہی جذبے میرے گھر ہیں ‘‘ اور جس شخص کے اندر یہ جذبے موجود ہوں میں اس کے اندر سے کبھی نہیں نکلتا ‘‘ بزرگ سنتے رہے شیطان بولا ، لیکن جو قوم اور انسان اپنے غصے اور اپنے انتقام پر قابو پا لے ، میں اس شخص اور اس قوم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دور ہو جاتا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔