اللہ ہی حافظ ۔۔ (شعیب واجد)
شیئر کریں
خیرسے انگلینڈ میں کرکٹ ورلڈ کپ نہایت زور و شور سے جاری ہے ،کچھ صحافی اسے برطانیا میں جاری ورلڈ کپ بھی لکھ رہے ہیں، کیونکہ لکھنے پر تو کوئی پابندی ہی نہیں ہے لہذا کچھ بھی لکھ دو۔یہ آزاد شعبہ ہے اور اتنا آزاد ہے کہ غلطی بتانے پر بھی سینہ تان پر کھڑا ہوجاتا ہے، کہ تمہاری جرات کیسے ہوئی آزادی صحافت پر انگلی اٹھانے کی۔
خیر بات آگے نکل رہی ہے اسے سمیٹتے ہیں، عرض یہ ہے کہ برطانیا کی یونین میں انگلینڈ ، اسکاٹ لینڈ اور ویلز کی ریاستیں شامل ہیں جن میں سیصرف ایک ملک انگلینڈ ورلڈ کپ کرکٹ میں شرکت کررہا ہے۔ اسی طرح شمالی آئر لینڈ نے بھی برطانیا سے الحاق کیا ہوا ہے،جو متحدہ سلطنت کا حصہ ہے، جسے ‘‘یو کے’’ بھی کہا جاتا ہے۔جبکہ باقی ماندہ آئر لینڈ ایک الگ آزاد ریاست ہے جو انٹرنیشنل کرکٹ بھی کھیلتا ہے، تاہم اس مرتبہ وہ کرکٹ ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی نہیں کرسکا۔
خیر سے پاکستانی ٹیم مسلسل گیارہ میچ ہار کر لندن پہنچی، ارادہ ورلڈ کپ جیتنے کا تھا، تاہم ویسٹ انڈیز کے ریلو کٹوں نے ان کی ایسی طبیعت صاف کی کہ لگ پتا گیا کہ میچز سیلفیوں سے نہیں محنت اور عزم سے جیتے جاتے ہیں، کیونکہ اس ہار سے سولہ کے سولہ کھلاڑیوں کا نشہ ہرن ہوچکا تھا اس لیے اگلے میچ میں انگلینڈ کے خلاف آنکھیں کھول کر کھیلے اور جیت گئے۔
لیکن یہ کیا جناب۔۔ برسٹل میں پاک سری لنکا میچ سے قبل بارش شروع ہوئی تو پاکستان کرکٹ کے ماہر تجزیہ کار اور اینکرز بادشاہ ہریان و پریشان نظر آنے لگے۔سب کی زبان پر ایک ہی درد ناک کہانی تھی کہ ہائے ہائے بارش کی وجہ سے میچ برابر ہونے سے پاکستان کو صرف اور صرف ایک پوائنٹ ملے گا،ان کی اس واویلا ٹون سے ایسا لگا کہ جیسے سری لنکا تو شاید یہ سوچ کر آیا تھا کہ اس نے پاکستان سے بری طرح ہارنا ہے اور دونوں پوائنٹ پاکستان کو دے کر جانے ہیں۔ ویسے حد ہوتی ہے، خیر اب اگلا میچ بدھ کو ہے جس میں پاکستان کے شیر صفت شاہین ، آسٹریلیا کے خرگوش صفت کینگروؤں کا شکار کرکے رات کو بار بی کیو اڑائیں گے اور جشن منائیں گے۔
رمضان اور پھر عید کی چھٹیوں میں عوام میں کرکٹ کا بخار عروج پر ہے۔بخار سے ملک کا درجہ حرارت بھی بڑھنے لگا ہے۔محکمہ موسمیات نے بتایا ہے کہ جون کے وسط تک انتہائی سخت گرمی کا سامنا ہوگا۔
کراچی میں شہری ان دنوں جس قسم کی گرمی سہہ رہے ہیں، ان کی سمجھ نہیں آرہا کہ اس گرمی کو آخر نام کیا دیا جائے؟ خاص طور پر عید کے تین دن ایسی گرمی رہی جس نے شہریوں کو حواس باختہ کیے رکھا، گرمی کی اس لہر کا سائنسی نام اور قسم کیا ہے یہ محکمہ موسمیات فوری بتائے گا جیسے ہی اسے گوگل سے کوئی اطلاع ملے گی۔
عید کے دنوں میں ایک طرف تو گرمی نے عوام کو مارا تو دوسری طرف کراچی میں اسٹریٹ کرائم کا جن بے قابو رہا، وزیراعلی اپنے آبائی علاقے دادو میں تھے جبکہ دیگر وزرا اپنے اپنے گوٹھوں میں۔ باقی رہے وہ لوگ جو پکڑے جاچکے ہیں انہوں نے جیل میں عید منائی۔تاہم اس دوران شہر کراچی حسب معمول لاوارث اور لاچار ڈاکوؤں کے رحم و کرم پر رہا ، ہزاروں اسٹریٹ کرمنلز کو پوری آزادی تھی ،رمضان بھر عوام کو لوٹتے رہے ، لیکن عمران خان کو تالیاں پیٹ پیٹ کر برا کہنے والے بلاول ہاؤس اور ایوان وزیراعلی کو ان وارداتوں کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔لاکھوں شہریوں کو لوٹا گیا ، یہ سلسلہ عید کی چھٹیوں میں بھی جاری رہا، حد تو یہ تھی کہ ڈاکوؤں نے کئی شہریوں کو گولی مار کر لوگوں کے گھروں کی خوشیاں تک چھین لیں، مرنے والوں میں ایک میجر بھی شامل تھا، لیکن سندھ حکومت نے اس مسئلے کی طرف نظر بھی نہیں کی ، شاید کراچی میں جو کچھ ہوتا ہے وہ سندھ حکومت کا اشو ہی نہیں ہے۔اور نہ ہی میڈیا نے ان خبروں کو کوئی بڑی خبر سمجھا۔افسوس صد افسوس۔
بات بلدیہ کراچی کی ہوجائے ، مانا کہ سندھ حکومت نے لوکل باڈی ایکٹ میں ترامیم کرکے بلدیات کو لولہ لنگڑا بنایا اور برباد کردیا، مانا کہ سندھ حکومت نے اٹھارہویں ترمیم کے اختیارات اور فوائد عوام کو منتقل نہیں کیے، مانا سندھ حکومت نے کراچی کو اپنا نہیں سمجھا ، لیکن میئر کراچی وسیم اختر صاحب، آپ بھی یہ جواب دیں کہ آخر آپ نے اپنے محدود بجٹ اور محدود وسائل میں کوئی محدود ہی سہی، کوئی علامتی ہی سہی، کوئی کارنامہ کرکے دکھایا؟ سندھ حکومت کی بھاری بھرکم کرپشن تو زبان زد عام ہے، لیکن آپ کے بارے میں بھی کوئی اچھی رپورٹس نہیں مل رہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اس ساری صورتحال کی سزا کراچی کے شہری بھگت رہے ہیں، جہاں عید کے دنوں میں کچرے کے ڈھیر لگ گئے، گزشتہ دس سالوں کے دوران ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے والی کراچی کی گلیاں ، اندرونی سڑکیں اور گٹر لائینیں تباہی کی تصویر پیش کررہی ہیں، کھربوں روپے ٹیکس دینے والے کراچی کے عوام انتہائی تکلیف دہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
کراچی کا نوحہ سن کر یقیناً کسی کا دل نہیں بھر آیا ہوگا، کیونکہ اگر ایسا کبھی ہوا ہوتا تو شہریوں کی آنکھوں میں آنسو نہ ہوتے۔خیر ارباب اقتدار خصوصاً سندھ کے حاکم سن لیں کہ گزشتہ دس سال کی مسلسل بد انتظامی اور شہر سیتعصب کی وجہ سے کراچی میں احساس محرومی کا نیا لاوا پکنا شروع ہوگیا ہے،جو اگر پھٹا تو ماضی سے کہیں بڑی تباہی پھیلائے گا۔
عید کے تینوں دن ملک بھر میں بڑے پیمانے پر ٹریفک حادثات بھی ہوئے ، درجنوں گھرانے اجڑ گئے، لیکن جانے یہ حادثات ، ان کی وجوہات اور نظام کی خرابیاں ہمارے میڈیا کی بڑی خبر نہیں بنتیں، کیونکہ میڈیا کو سیاستدانوں کے منہ سے جھڑتے کیڑے شاید ذیادہ مرغوب ہیں۔بات میڈیا کی آن نکلی ہے تو انتہائی افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ عید کے دنوں میں ملک میں دہشت گردی کے کئی بڑے واقعات ہوئے ، لیکن میڈیا میں انہیں اشو کے طور پر جگہ نہ ملی، خبر چلا کر بس معاملہ نمٹا دیا گیا۔
پاکستان کا میڈیا بیس سال قبل آزاد ہوا، جو جنرل مشرف کا دور تھا ، نئے چینلز کھلے ، انٹرنیٹ عام ہوا ، ریڈیو اسٹیشنز وجود میں آئے ، اخبارات کو بھی فروغ ملا ، خاص طور پر الیکٹرونک میڈیا نئی اور ابھرتی ہوئی انڈسٹری بن کر سامنے آیا، لیکن بعد یہ آزاد میڈیا بے لگام میڈیا میں بدلتا گیا، اور اب یہ حال ہے کہ اس میڈیا کی کوئی واضح سمت نہیں ہے، چینلز کے اپنے سیاسی ایجنڈے ضرور ہیں، لیکن کوئی طے شدہ ایڈیٹوریل پالیسی نہیں ہے، بے لگامی کا یہ حال ہے کہ سامنے گہری کھائیاں بھی نظر آنے لگی ہیں، لیکن بدمستی کا عالم دیکھئے۔ کہ دوڑے ہی جارہے ہیں۔۔اس میڈیا کے لیے بھی اب اس کے سوا اور کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ اللہ ہی حافظ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔