میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مائنس ون فارمولے کا آغاز ایم کیو ایم سے کیا گیا، اب دوسروں کی باری ہے، فاروق ستار

مائنس ون فارمولے کا آغاز ایم کیو ایم سے کیا گیا، اب دوسروں کی باری ہے، فاروق ستار

ویب ڈیسک
اتوار, ۹ جون ۲۰۱۹

شیئر کریں

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے سابق رہنما فاروق ستار نے پارٹی کے مختلف دھڑوں کو یکجا کرکے ’متحدہ قومی فورم‘ بنانے کی تجویز دیدی۔ ایک انٹرویو میں فاروق ستار نے کہا کہ ایسے اکابرین جو سندھ کے شہری علاقوں میں گزشتہ 35-40 سالوں سے سیاست کررہے ہیں وہ ایک جگہ بیٹھیں چاہے وہ کوئی بھی ہوں۔انہوں نے کہا کہ متحدہ قومی فورم بنایا جائے، یہ کسی سیاسی جماعت کی بات نہیں ہورہی بلکہ مختلف پارٹیوں کے سینئر رہنما بیٹھیں اور اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں۔انہوں نے کہا کہ مردم شماری میں شہری سندھ کی آبادی ہمیشہ کم دکھائی جاتی ہے، اس طرح دیہی سندھ سے آپ کی آبادی کبھی زیادہ نہیں ہوگی حالانکہ حقیقت میں اب یہ زیادہ ہوچکی ہے، اس طرح آپ کا وزیراعلیٰ کبھی نہیں بن سکے گا۔انہوں نے کہا کہ سندھ کے شہری علاقوں کو آج بھی وہی مسائل درپیش ہیں جو 1984 اور 85 میں تھے جن میں احساس محرومی، احساس بیگانگی اور احساس عدم تحفظ شامل ہیں۔فاروق ستار نے کہاکہ کراچی ترقی کا انجن ہے، ہم یہاں آپ ایک مرتبہ پھر بدامنی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔سندھ میں نیا صوبہ بنانے کے مطالبے سے متعلق سوال پر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کے تمام دھڑے یہاں لسانی نہیں بلکہ انتظامی بنیادوں پر تقسیم کی بات کرتے ہیں۔ایم کیو ایم بانی کے متبادل کے حوالے سے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ان کے زمانے میں اچھے کام بھی ہوئے، جو بانی ہوتے ہیں ان کا متبادل نہیں ہوتا۔جب ان سے سوال کیا گیا کہ پیسے لندن کیسے بھجوائے جاتے تھے تو ان کا کہنا تھا کہ جو بھیجتے تھے وہی بتاسکتے ہیں یا پھر شاید ایف آئی اے والے ہی بتائیں۔ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کے بانی نے مجھے ان معاملات میں بہت آخر میں ڈالا، اس وقت تک پانی سر سے گزر چکا تھا۔فاروق ستار نے بتایا کہ بہتی گنگا میں بہت سارے لوگوں نے ہاتھ دھویا، بانی اس معاملے میں بالکل لاپرواہ تھے، انہیں اپنے لیے پیسے مل جاتے تھے اس پر انہوں نے قناعت کر لی تھی۔ انہوں نے کہا کہ مائنس ون فارمولے کا آغاز ایم کیو ایم سے کیا گیا، پہلے ایم کیو ایم کے بانی کو مائنس کیا گیا پھر ن لیگ کے بانی کو اور اب پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کی باری ے۔فاروق ستار نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی روشن خیالی صرف بین الاقوامی برادری کو خوش کرنے کے لیے ہے۔ایم کیو ایم کے ماضی پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ الیکشن سے پہلے کراچی مذہبی جماعتوں کو ووٹ ڈالتا رہا اور اپوزیشن کا کردار ادا کرتا رہا تاہم متحدہ کے بعد ایسا ہوا کہ جس کے ساتھ ہم شامل ہوتے تھے اس کی حکومت بنتی تھی۔تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ ہم نے مستقل مسائل حل کرنے کے بجائے عارضی حل پر قناعت کی، یہ ہماری سیاسی غلطی تھی۔جب مشرف صاحب کا دور آیا ہمارے پاس سنہری موقع تھا، جب اچھا وقت آتا تھا تب مجھے سب سے پیچھے کر دیا جاتا تھا اور برے وقت میں سب سے آگے کر دیا جاتا تھا۔فاروق ستار نے کہا کہ ہمیں لینڈ ریفارمز، انتظامی یونٹس، بلدیاتی امور، اختیارات کا آئین میں تحفظ، وسائل کی منصفانہ تقسیم، ٹیکسوں کا منصفانہ نظام جیسے پانچ چھ بڑے مسائل کی طرف توجہ دینی چاہیے تھی جن سے نہ صرف ہم بلکہ سرائیکی بیلٹ، ہزارہ ڈویژن اور بلوچستان کے مسائل بھی حل ہوتے۔انہوںنے کہاکہ داخلی وجوہات کی بنا پر کراچی میں قتل و غارت گری ہوئی، وہ پارٹی پالیسی نہیں تھی، لوگوں نے معاملات اپنے ہاتھ میں لیکر کسی کی خوشنودی حاصل کرنا چاہی اور اس انتہا تک چلے گئے۔انہوںنے کہاکہ پوری دنیا نے عمران فاروق شہید کے قتل کا الزام بھی لندن والوں پر ڈالا اور اس کی تحقیقات بھی ہورہی ہیں لیکن جب ان کا جنازہ نکلا تو لندن سے ہی کہا گیا کہ وہ شہیدِ عظیم ہیں۔سابق ایم کیو ایم رہنما نے کہا کہ مشرف صاحب کے وقت میں کراچی کو 300 ارب روپے دیے گئے تو ایم کیو ایم نے اپنا لوہا منوایا، بہترین کام کیا اور کراچی کا نقشہ پلٹ دیا۔انہوںنے کہاکہ اس وقت پاکستانی معیشت میں پانچ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی جس میں سے ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری صرف کراچی میں ہوئی۔فاروق ستار نے کہا کہ کراچی اس وقت دنیا کا 12واں تیزی سے ترقی کرنے والا شہر بنا، ایم کیو ایم کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ اپنے اندر کی خرابیوں کو نکالے۔انہوںنے کہاکہ اگر لیاری گینگ وار اور امن کمیٹی نہ بنتی تو کراچی میں قتل و غارت گری نہ ہوتی، انہیں ایم کیو ایم کے خلاف بنایا گیا تھا۔ایم کیو ایم کو یکجا کرنے سے متعلق سوال پر سابق کنوینر ایم کیو ایم کا کہنا تھا کہ پارٹی کو ایک کرنے کی بات سے زیادہ پارٹی کو اچھے ہاتھوں میں دینے کی بات کررہا ہوں، یہ جماعت میری جاگیر نہیں، جب ہم لندن سے الگ ہو ہی گئے تو اس کے بہتر اور حفوظ مستقبل کے بارے میں ہمیں سوچنا ہے۔دس گیارہ سالوں میں ’ایم کیو ایم فوکسڈ‘ آپریشن نے پارٹی کو نہ صرف تقسیم کیا بلکہ زمین کے اندر گاڑ دیا۔ اب اندرون سندھ کی بوتل سے جو جن نکلا ہے اور جس نے بھٹو کا نام استعمال کیا، اب اس جن کو دوبارہ بوتل میں بند کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن کامیابی نہیں ہو رہی۔عام انتخابات کے دوران متحدہ کی کارکردگی سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ الیکشن سے پہلے ہی اندازہ تھا کہ اس بار ایم کیو ایم کے ساتھ کیا ہونا ہے، کیا سیاسی انجینئرنگ ہونی ہے اس کا بخوبی اندازہ تھا اس کے باوجود الیکشن لڑا۔میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ میری سربراہی میں ہو یا خالد مقبول بھائی کی، یہ الیکشن ہمارا نہیں ہے لیکن اگر میں سربراہ ہوتا تو نتائج کو اتنی آسانی سے قبول نہیں کرتا، باہر نکلتا، ضمنی انتخابات میں ہم سے چھینی گئی نشستوں کو واپس لیتا لیکن انہوں نے نتائج کو قبول کرلیا۔فاروق ستار نے کہا کہ میرا گناہ یہ تھا کہ میں نے بہت سارے لوگوں کی خواہشات کو ماننے سے انکار کردیا تھا، میں نے کہا تھا کہ وسیم اختر صاحب میئر نہیں ہونے چاہئیں تاہم کہا گیا کہ لندن کا فیصلہ ہے کہ وہی میئر ہوں گے۔کہا گیا کہ مصطفی کمال کے ساتھ کوئی نئی پارٹی بننی چاہیے یا پھر اتحاد ہونا چاہیے، میں نے اس پر تجربہ کیا لیکن عامر خان صاحب کی طرف سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، ایک طرف مصطفی کمال فاتح کی طرح آرہے تھے دوسری طرف عامر خان وار کررہے ہیں، ایسی صورت حال میں میں نکل گیا۔سابق ایم کیو ایم رہنما کامران ٹیسوری سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ان کی وجہ سے قومی سلامتی کے اداروں سے ہمیں ہمارے سات دفاتر واپس ملے، ہم الیکشن کمیشن سے ڈی رجسٹر ہوگئے تھے لیکن انہوں نے رجسٹریشن کروادی۔فاروق ستار نے کہا کہ انہوں نے پیشکش کی تھی کہ کامران ٹیسوری کو ڈپٹی کنوینر کے عہدے سے نیچے لے جائیں لیکن انہیں سینیٹ کی ٹکٹ دے دی جائے، میری حکمت یہ تھی کہ انہیں سینیٹ میں بھیج کر کام لیے جائیں، میں نے میڈیا ریلیشنز کمیٹی کے لیے علی رضا عابدی کا نام دیا وہ نام بھی انہیں پسند نہیں آیا۔اگر میری اور آپ کی سوچ میں ہم آہنگی نہیں ہے، میں کچھ بھی کہوں عامر بھائی اس کی مخالفت کریں گے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم ساتھ نہیں چل سکتے، میں نے کہا کہ الیکشن تک میں گھر بیٹھ جاتا ہوں آپ پارٹی چلائیں لیکن مجھے کہا گیا کہ آپ کے بغیر ہم نہیں چلیں گے، نہیں چل سکتے۔فاروق ستار نے کہا کہ انہوں نے اپنی دانست میں مجھے پارٹی سے نکال دیا لیکن میرے دل سے ایم کیو ایم کے نظریے کو نہیں نکال سکے، میں نہیں کہتا وہ مجھ سے معافی مانگیں لیکن وسیع تر مفاد میں سوچیں کہ پارٹی میں دوبارہ توانائی کس طرح ڈالی جائے۔ سوراخ والے غبارے میں جتنی بھی ہوا بھریں گے، وہ تھوڑی دیر تو رہے گی لیکن پھر نکل جائے گی، سوراخ والے غباروں کے ساتھ ایم کیو ایم چلانا چاہتے ہیں تو چلائیں لیکن ایک بغیر سوراخ والا غبارہ آپ کے پاس ہے، اس کی قدر آپ کو نہیں کرنی تو نہ کریں۔سابق ایم کیو ایم رہنما کا کہنا تھا کہ 23 اگست کا فیصلہ میرے سیاسی شعور کا عکاس تھا، اس وقت صرف میں ہی نکل سکتا تھا، میں نکلا اور میں نے فیصلہ کیا۔فاروق ستار نے کہا کہ سندھ کے شہری علاقوں کے مسائل کے مستقل حل کے لیے فیصلہ کن جدوجہد کرنی ہے اور روڈ میپ بنانا ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں