میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
افغانستان کی بگڑتی صورت حال پرقومی سلامتی کمیٹی کااظہار تشویش

افغانستان کی بگڑتی صورت حال پرقومی سلامتی کمیٹی کااظہار تشویش

ویب ڈیسک
جمعه, ۹ جون ۲۰۱۷

شیئر کریں

پاکستان نے کابل حملے کی مذمت کرتے ہوئے افغانستان کی بگڑتی ہوئی سیکورٹی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔وزیراعظم نوازشریف کی صدارت میں کابینہ کی قومی سلامتی کمیٹی کا خصوصی اجلاس ہوا جس میں ملکی اور خطے کی سیکورٹی کے معاملات زیر غور آئے۔اجلاس کے شرکانے گزشتہ ہفتے کابل میں ہونے والے دہشت گردی حملے کی مذمت کی اور افغان عوام کو اپنی حمایت کا یقین دلوایا۔شرکانے افغانستان کی بگڑتی ہوئی سیکورٹی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا اور اس حوالے سے پاکستان پر لگائے جانے والے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔اس موقع پر یہ نشاندہی بھی کی گئی کہ خطے میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جس نے بڑے مالی اور جانی نقصان اور محدود وسائل کے باوجود دہشت گردی کے خلاف واضح کامیابی حاصل کی۔پاکستان نہ صرف ایک مستحکم افغانستان کے لیے پْر عزم ہے بلکہ وہ اس حوالے سے خطے اور دنیا کی جانب سے آغاز کیے گئے عمل پر کام جاری رکھے ہوئے ہے۔اس حوالے سے پاکستان نے تحمل وبرداشت کا زبردست مظاہرہ کیا ہے اس کے برعکس افغانستان کی سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال کیجاتی رہی ہے جس کے نتیجے میںپاکستان کو بڑے پیمانے پر جانی نقصان کاسامناکرناپڑاہے۔ کابینہ کی قومی سلامتی کمیٹی نے ایک دفعہ پھر اس عزم کااظہار کیا کہ اس تمام تر صورتحال کے باوجود پاکستان مقامی، خطے اور عالمی امن کے لییاقدامات جاری رکھنے کے لیے پْر عزم ہے۔
دوسری جانب افغانستان میں حالیہ دہشت گرد حملوں کے تناظر میں علاقائی سیکورٹی کا جائزہ لینے کے لیے جی ایچ کیو میں خصوصی کور کمانڈرز کانفرنس کے شرکانے دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف جنگ میں افغانستان کی معاونت جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔کانفرنس میں افغانستان میں حالیہ دہشت گرد حملوں کے نتیجے میں قیمتی انسانی جانوں کے نقصان پر بھی افسوس کا اظہار کیا گیا اور افغان عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا۔کانفرنس میں کابل حملے کے بعد افغانستان کی جانب سے پاکستان پر عائد کیے جانے والے الزامات کو بلاجواز قرار دیا گیا اور افغانستان پر زور دیا گیا کہ وہ پاکستان پر الزامات عائد کرنے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکے اور حقیقی مسائل کا ادراک کرے۔کانفرنس میں علاقائی امن و استحکام کے لیے کردار ادا کرنے کا عزم دہرایا گیا جبکہ اس بات کا بھی اعادہ کیا گیا کہ پاک فوج مادر وطن کو ہر قسم کے خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے تیار ہے۔خیال رہے کہ افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ان کے ملک کے خلاف ’غیر اعلانیہ جنگ‘ مسلط کر رہا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان کو اس بات پر کس طرح قائل کیا جاسکتا ہے کہ ایک مستحکم افغانستان ان کو اور خطے کو مدد فراہم کرے گا۔
موجودہ صورت حال میں جبکہ افغان صدر اشرف غنی افغانستان کے لیے پاکستانی کی قربانیوں کو پس پشت ڈال کر بھارت کی ایما پر پاکستان کے خلاف الزام تراشیوں پر اتر آئے ہیں پاک فوج کی جانب سے صبر وتحمل کا اظہار اور افغان حکومت کی الزام تراشیوں کے باوجود افغان عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی اور ان کی مدد اور معاونت جاری رکھنے کے اعلان سے یہ ظاہرہوتاہے کہ پاکستان اپنے افغان بھائیوں کو مسائل میں تنہا نہیں چھوڑنا چاہتا،جبکہ افغانستان سے پاکستان کے خلاف ہونے والی کارروائیوں سے یہ ثابت ہوتاہے کہ افغانستان میں را اور داعش مل کر پاکستان کے خلاف سازشوں اور کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ را داعش گٹھ جوڑ محض ایک مفروضہ نہیں ہے بلکہ طالبان کے سابق ترجمان احسان اللہ اپنے اعترافی بیان میں یہ بتاچکے ہیں کہ داعش اور طالبان بھارت سے باقاعدہ امداد حاصل کرتے ہیں اور بھارت کی ایما اور امداد کے ذریعے پاکستان کے خلاف کارروائیاں کرتے رہے ہیں،بھارت اور داعش کے درمیان تعلقات کا ثبوت اس بات سے بھی ملتاہے کہ کچھ عرصہ قبل عراق میں داعش نے کچھ بھارتیوں کو یرغمال بنا لیا تھا۔ جس پر بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول مذاکرات کے لیے گئے تھے اور ان مذاکرات کے دوران ہی را داعش اتحاد کی بنیاد پڑی۔ اس کے بعد دوسرے کئی ممالک کے لوگوں کو عرب ممالک میں اغوا کیا گیا، ان کو ذبح تک کر دیا گیا مگر بھارت کے لوگ داعش کے ہاتھوں ہر نقصان سے محفوظ چلے آ رہے ہیں۔ یہ واضح ہے کہ داعش کے اپنے کچھ مذموم مقاصد اور عزائم ہیں وہ دنیا خصوصی طور پر مسلم ممالک میں اپنے نظریات ٹھونسنا چاہتی ہے۔ ساتھ ساتھ وہ بھارت سمیت کچھ عالمی طاقتوں کی بھی آلہ کار ہے۔ کچھ ممالک اس کی فنڈنگ اس کی دہشتگردی سے بچنے کے لیے کرتے ہیں ،کچھ بڑی رقوم دے کر اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان میں بھارت سرفہرست ہے، جو داعش اور افغانستان میں موجود کالعدم ٹی ٹی پی کے مفرور اور پاکستان کو مطلوب دہشتگردوں کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتا ہے۔ افغانستان چور مچائے شور کے مصداق پاکستان کو اپنے ہاں ہونیوالی دہشتگردی کا ذمہ دار قرار دیتا ہے مگر جب پاکستان سرحد پار دہشتگردی کو روکنے کے اقدام اٹھاتا ہے تو افغانستان کی دم پر پائوں آ جاتا ہے۔ وہ بارڈر مینجمنٹ کی شدید مخالفت کرتا ہے۔ اگر پاک افغان بارڈر سیل ہو جائے۔ آمدورفت کے لیے دستاویزات ضروری قرار دیدی جائیں تو دہشتگردوں کے سرحد پار آنے جانے کا سلسلہ کم ہو جائے گا۔ پھر پاکستان اور افغانستان دونوں کی سرحد پار سے دہشتگردی کی شکایت نہیں رہے گی۔ اس سے بھارت کی پاکستان میں مداخلت کی را ہیں مسدور ہو جائیں گی۔ جو بھارت کے لیے قابل قبول نہیں ہو سکتا اس سے ثابت ہوتاہے کہ بھارت کے ایما پر ہی افغان حکومت بارڈر مینجمنٹ کے خلاف واویلا اور جھوٹا پراپیگنڈہ کرتی ہے۔موجودہ صورت حال میں افغان حکمرانوں کو حالات کی سنگینی کا ادراک ہونا چاہیے۔ آخر یہ لوگ کب تک اپنے ہم وطنوں کی لاشوں پر اپنے ادنیٰ مفادات کے محلات تعمیر کرتے رہیں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں