میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
شہدائے بلوچستان

شہدائے بلوچستان

ویب ڈیسک
جمعرات, ۹ مئی ۲۰۲۴

شیئر کریں

میر افسر امان

مسلمانوںِبرصغیر نے انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لیے اپنے اپنے علاقوں میں آزادی کی تحریکیں چلا کر اپنے نام شہدائے تحریک آزادی میں لکھوائے۔
بلوچستان میںدنیا کے قدیم ترین انسان کے آثار دریافت ہو چکے ہیں۔ میر گڑھ تہذیب اس کی زندہ مثال ہے۔ ہندوستان میں اترو آرین کے نقوش ملتے ہیں۔ مگربلوچستان کی زبان اترو آرین نہیں، بلکہ اس علاقے کے قدیم باشندوں” درواڑی” نسل کی براہوی زبان ہے۔ جہاں تک موجودہ بلوچستان کی ذکر ہے تو بلوچستان کی بڑی ریاست قلات 1666ء میں وجود میں آئی۔اس کے علاو ہ موجودہ بلوچستان کی تین ریاستیں ریاست فاران ، ریاست مکران اور ریاست لسبیلہ تھیں۔اپنے قبضہ کے بعد انگریزوں نے1877ء میں بلوچستان انجم کی بنیاد رکھی۔ آج تک بلوچستان وہیں کھڑا ہے۔ 1948ء میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی کوششوں سے د یگر ریاستوںکے ساتھ ساتھ بلوچستان کی ریاستوں نے اپنی آزاد رائے سے پاکستان میں شمولیت اختیا کی تھی۔ بعد میں قلات کے کچھ لیڈروں نے اس الحاق کے خلاف ناراضی کا اظہار کر کے پاکستان کے خلاف بندوق اُٹھائی۔ کچھ ناراض بلوچ اب بھی پاکستان میں اپنے حقوق نہ ملنے پر ناراض ہو کر علیحدگی کی تحریک چلا رہے ہیں۔
13ء نومبر1839ء کو انگریز سامراج نے خان محراب خان بلوچ اور ان کے سیکڑوںساتھیوں کو لڑائی میں شہید کر کے بلوچستان کی خود مختاری چھین لی تھی۔برطانوی نو آبادیاتی پالیسیوں نے بلوچ سر زمین کو تین حصوں میں تقسیم کیا۔ بلوچوں کے نزدیک یہ دن تاریخی اعتبار سے نہایت ہی اہمیت کاحامل ہے۔ اس دن انگریز نے بھاری ہتھیاروں اور توپوں سے بلوچ سر زمین پر حملہ کیا۔ واقعہ یہ ہے کہ اس سے قبل انگریز سامراج نے افغانستان پر حملہ کرنے کے لیے اور اس مہم کے دوران بلوچ سر زمین استعمال کرنے کے لیے اور اپنے فوجی قافلوں کی حفاظت کے لیے والی ریاست قلات خان محراب خان بلوچ سے معاہدہ کیا تھا۔ اس کے بعد فوری طور پر انگریز سامراج نے افغانستان پر حملہ کر دیا۔ بلوچوں کے افغانستان سے تاریخی تعلقات اور رشتہ داریاں تھیں۔ اس لیے بلوچستان سے گزر کر افغانستان جانے والے انگریز فوجیوں پربلوچ مجاہدین نے حملے کرنا شروع کیے۔ اس وجہ سے افغانستان پر حملہ کرنے والی برطانوی فوج کو شکست ہوئی تھی۔ انگریز کو افغانستان کی سرزمین کی اہمیت پہلے سے معلوم تھی۔ برطانوی فوج نے بلوچوں سے بدلہ لینے کے لیے جنرل ونشانر کی کمانڈ میں بلوچستان قلات پر حملہ کر دیا۔ خان محراب خان بلوچ نے اپنے لوگوں کو منظم کر کے برطانوی فوج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ کئی دن کی لڑائی ہوئی۔ برطانوی فوج نے جدیدتوپوںکے ساتھ حملہ کیا تھا جس کی تاب نہ لاتے ہوئے اور داد شجاعت دیتے ہوئے خان محراب خان بلوچ نے اپنے سیکڑوں ساتھیوں کے ساتھ جام شہادت نوش کیا۔
بلوچستان کی انگریزوں سے آزادی کے ہیروز میں سب سے اُونچے نام کوہلو کے فقیر کالا خان بلوچ، جلھب خان بلوچ اور رحیم خان بلوچ کے ہیں۔ انگریز نے جب 1870ء میں ان کے علاقے پر حملہ کیا تو فقیر کالا خان مری بلوچ جو ایک اللہ والا بندہ تھا، نے تسبیح چھوڑ کر بندوق اُٹھائی۔ اس نے اور اس کے ساتھیوں نے مزاحمت کی تاریخ رقم کی۔ موجودہ بلوچستان کے کوہلو کی تحصیل کابان کی ایک پہاڑی پر کالا خان بلوچ اپنے ساتھیوں سمیت انگریزوں کے راہ کی دیوار بن کر گھڑے ہوگئے۔ چار سال تک مسلسل انہوں نے انگریزوں کو آگے نہیں بڑھنے دیا اور وہیں روکے رکھا۔ انگریزوں نے کالا خان بلوچ کے سر کی بھاری قیمت رکھی۔ کئی لڑائیوں کے بعد انگریزوں نے توپوں کے ساتھ کالا خان بلوچ کے مورچوں کا محاصرہ کر لیا۔ پہاڑی پر رسد جانے کے سارے راستے بند کر دیے۔معرکہ پھر بھی کئی ماہ تک چلتا رہا۔ کئی روز کی لڑائی کے بعد انگریزوں نے پہاڑی پر قبضہ کر لیا۔ اس لڑائی میں برطانوی فوج کے 100سو سے زیادہ سپاہی مارے گئے۔ قبضے کے بعد پہاڑی پر چند لاشیں اور بھوک سے نڈھال مجاہد انگریز فوج کے ہاتھ لگے۔ کالا خان مری بلوچ، جلھب خان بلوچ اور رحیم خان بلوچ کو گرفتار کر لیا گیا۔
انگریزوں نے کالا خان مری بلوچ پر80 انگریز سپاہیوں کو مارنے کا مقدمہ قائم کیا۔ ایسے ہی مقدمے دوسرے مجاہد جلھب خان بلوچ اور رحیم خان بلوچ پر بنائے گئے۔ بآلا خر انگریز کی فوجی عدالت نے ان تینوں کو1891ء میں پھانسی کی سزا سنائی۔ پھانسی دینے سے پہلے بیڑیوں میںگرفتار ان تینوں کی انگریز بہادر نے یاد گار تصویر بنائی۔ یہ باصفا مجاہدین بلوچستان کی تصویر آج بھی برٹش میوزم لندن میںموجود ہے۔ مقامی انگریزوں نے ان پھانسیوں کی خبر کلکتہ ہیڈ کواٹر کو بھیجی ۔
انگریز نے ہندوستان پر قبضہ کے بعد بلوچستان کے ساحلی علاقے پر حملہ کیا۔اُس زمانے میں مکران پر بوت بلوچ حکمران تھے۔ ان کا ہیڈ کواٹر کیج تھا۔ ھلمل کلمتی نے مکران کو بچانے کے لیے ہیڈ کواٹر کلمت منتقل کیا۔ انہوں نے کراچی کے ساحل کو انگریزوں سے بچانے کے لیے لڑائی لڑی۔ مزاحمت کرنے پر انگریز نے میر نوتک کلمتی کو پھانسی پر چڑھا دیا۔ بلوچوں کے دو بڑے سردار جلال خان بلوچ اور جنگال خان بلوچ تھے۔ میر ھمل کلمتی کا تعلق جنگال سردار سے تھا۔ آج بھی مکران کے ساحل پر حق دو تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمان بلوچ اور دیگر اسی قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
موجودہ بلوچستان میں چار ریاستیں فاران، قلات، مکران اور لسبیلہ قائم تھیں، ریاست قلات بلوچستان طاقت کا سرچشمہ تھی۔ بلوچوں نے انگریز سامراج سے بلوچستان کو بچانے کے لیے پسنی اور تربت کے درمیان علاقے ”گوک پروش” کے مقام پر لڑائیوں اور جھڑپوں کے بعد دو بدو جنگ کی تھی۔ ان لڑائیوں میں بلوچوں نے انگریز فوج سے خوب ڈٹ کر لڑائی لڑی۔ اس لڑائی میں میر بلوچ شیروانی نے ساتھیوں سمیت جام شہادت نوش کیا۔ اس لڑائی کی یاد اور اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ اب بھی جو بھی بلوچ یا بلوچ قافلہ”گوک پروش” سے گزرتا ہے تو کچھ دیر کے لیے آنکھیں پر نم کرتے ہیں اور جنگ آزادی کے لیے شہادتیں دینے والے اپنے بلوچ شہیدوں کو یا د کرتا ہے۔ہم نے چند باصفا بلوچ مجاہدین آزادی کا اس مضمون میں ذکر کیا ہے۔ ورنہ برصغیر کے دوسرے آزادی کے لاتعداد متوالوں کی طرح، لاتعداد بلوچوںنے اپنے وطن کی آزادی کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ آج ہم ان ہی کی قربانیوں کی وجہ سے آزاد وطن ، قابل فخر ایٹمی اور میزائل طاقت رکھنے والے اسلامیہ جمہوریہ پاکستان میں آزادی سے سانس لینے کے قابل ہوئے ہیں۔ اللہ ان شہیدوں کی شہادتوںکو قبول فرماتے ہوئے۔ انہیں اپنی جنتوں میں جگہ دے آمین۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں