میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
تاریخی شہر سکھر کی حالت

تاریخی شہر سکھر کی حالت

ویب ڈیسک
منگل, ۹ مئی ۲۰۲۳

شیئر کریں

 

روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔
لاہور سے سکھر تک کا سفر بڑا ہی خوشگوار رہا۔ سید منظور گیلانی کی قیادت میں اور ڈاکٹر نور محمد شجرا کی سرپرستی میں جیسے ہی خورشید شاہ کے اس شہر میں پہنچے تو حیرت ہوئی کہ خوبصورت لوگوں کے اس پیارے اور قدیمی شہرکی کوئی سڑک ٹھیک نہیں ۔ کوئی خوبصورتی نہیں سڑکوں پر دھول اور مٹی تو تھی ہی ساتھ میں یہاں کی پولیس سرعام ٹرکوں سے پیسے پکڑنے میں بھی مصروف تھی۔ ویسے تو ہماری پنجاب پولیس بھی کسی سے کم نہیں ،وہاں چوری کی واردات کے بعد مدعی اس ڈر سے تھانے نہیں جاتا کہ اب رہی سہی کسر تھانیدار پوری کردیگا ۔ لاہور میں جی ٹی روڈ سنگھ پورہ اسٹاپ کے پاس میاں زاہد کی پیزا کی دُکان ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے اس کا کیس اس کے حق میں ہوچکا ہے ،بات پولیس تک پہنچی تو پھر شیر جوانوں کی موجیں لگ گئی۔ اتنے گاہک نہیں آتے تھے جتنے مفت میںپیزا کھانے والے پولیس والے ۔بڑی مشکل سے میاں صاحب نے ان سے جان چھڑوائی تو اسی دوران انکی دُکان سے چور ایل سی ڈی اتار کرلے گئے مگر انہوں نے اس ڈر سے چوری کا مقدمہ درج نہیں کروایا کہ پولیس والے پھر سے تفتیش کے بہانے یہاں ڈیرے ڈال لیں گے۔
میں بات کررہا تھا سکھر کی جہاں ہم موجود ہیں یہاں کی ایک بڑی نامور معروف سیاسی شخصیت اور ہمارے میزبان سردار الہی بخش انیل بھٹی اور ان کے ساتھی اقبال احمدنے رات گئے دریائے سندھ کی سیر کروائی تو وہاں پر جلتی ہوئی لائٹیوں کا نظارہ ہی کچھ اور تھا۔ انہوں نے بتایاکہ یہ لائٹیں بھی عدالت کے حکم پر لگائی گئی ہیں ورنہ تو برا حال تھا۔ سکھر ایک تاریخی اورسندھ کا شہر ہے جو دریائے سندھ کے مغربی کنارے کے ساتھ، تاریخی شہر روہڑی سے براہ راست ملا ہوا ہے۔ سکھر کراچی اور حیدرآباد کے بعد سندھ کا تیسرا سب سے بڑا شہر ہے اور آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا 14 واں بڑا شہر ہے۔ نیا سکھر انگریز دور میں سکھر کے گاؤں کے ساتھ قائم کیا گیا تھاسکھر کا نام عربی لفظ ”شکر” سے لیا گیا ہے جو کہ گنے کے ان کھیتوں کے حوالے سے ہے جو تاریخی طور پر اس خطے میں بکثرت پائے جاتے ہیں۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ نام سکھ کے لفظ سے اخذ کیا گیا ہے جو سندھی لفظ ”آرام” سے ماخوذ ہے سکھر کے آس پاس کا خطہ صدیوں سے آباد ہے۔ سکھر کے مضافات میں ایک صنعتی پارک کے قریب واقع لکھن جو دڑو کے کھنڈرات وادی سندھ کی تہذیب کے ہڑپہ دور سے 2600 قبل مسیح اور 1900 قبل مسیح کے درمیان300 ہیکٹر سے زیادہ رقبے پر محیط ہے۔ سکھر وادی سندھ کی تہذیب کا دوسرا سب سے بڑا شہر کہلاتا ہے جو وادی سندھ کی تہذیب کے ایک اور بڑے شہر موہنجو داڑو سے صرف 75 کلومیٹر دور ہے”پرانا سکھر” ابتدائی طور پر 1839 میں ایک فوجی چھاؤنی کے قیام سے پہلے ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ سکھر دریائے سندھ کے کنارے چونے کے پتھر کے ایک نچلے حصے پر بنایا گیا تھا یہ شہر کسی زمانے میں کھجوروں کے باغات سے گھرا ہوا تھا جو روایتی طور پر 8ویں صدی میں عرب حملہ آوروں کی طرف سے ضائع شدہ کھجور کے طور پر بھی جانا جاتا تھا۔
سکھر کا گاؤں روہڑی کے بڑے شہر سے اس پار ہے جو 1200 کی دہائی تک دریائے سندھ کے ساتھ ایک مصروف بندرگاہ کے طور پر کام کرتا تھا اور زرعی پیداوار کا ایک بڑا تجارتی مرکز تھا ۔سکھر میں میر معصوم شاہ کے مزار پر 1607 میں ایک 86 فٹ (26 میٹر) اونچا میناربھی بنایا گیا تھا ۔انگریزوں نے 1839 میں یہاں ایک فوجی چھاؤنی قائم کی جسے 1845 میں ترک کر دیا گیا۔ حالانکہ سکھر ایک تجارتی مرکز کے طور پر اہمیت میں بڑھتا چلا گیا ۔سکھر میونسپلٹی 1862 میں تشکیل دی گئی تھی سکھر کا لانس ڈاؤن پل سکھر کو سندھ کے پار روہڑی سے ملاتا ہے اور دریا کو عبور کرنے والے پہلے پلوں میں سے ایک تھا۔ اس پل نے کراچی اور ملتان کے درمیان سفر کو آسان بنا دیا۔ یہ پل دریا کے پار پھیلے ہوئے ستونوں کی ایک سیریز کے بجائے دو بڑے کھمبوں کے ساتھ بنایا گیا تھا جس کا ڈیزائن غیر معمولی تھا۔ دریائے سندھ پر برطانوی راج کے تحت بنایا گیا سکھر بیراج (پہلے لائیڈ بیراج کہلاتا ہے) دنیا کے سب سے بڑے آبپاشی کے نظام میں سے ایک کو کنٹرول کرتا ہے اسے سر آرنلڈ مستو KCIE نے ڈیزائن کیا تھا اور اسے 1923 اور 1932 کے درمیان سر چارلٹن ہیریسن کی مجموعی سمت میں تعمیر کیا گیا تھا ۔5,001 فٹ (1,524 میٹر) لمبا بیراج پیلے پتھر اور اسٹیل سے بنا ہے اور تقریباً 10 ملین ایکڑ (40,0002 کلومیٹر) کو پانی دے سکتا ہے اور اس کی سات بڑی نہروں کے ذریعے کھیتی باڑی کی جاتی ہے۔1947 میں برطانوی ہند کی تقسیم کے موقع پر سکھر کا پرانا شہر تقریباً 10,000 رہائشیوں کا گھر تھا جب کہ نیا سکھر 80,000 افراد پر مشتمل تھا ۔قیام پاکستان کے بعد شہر کی زیادہ تر ہندو آبادی ہندوستان کی طرف ہجرت کرگئی ۔حالانکہ سندھ کے بیشتر حصوں کی طرح سکھر کو پنجاب اور بنگال میں ہونے والے وسیع فسادات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
1941 کی مردم شماری کے مطابق سکھر کی تقریباً 70 فیصد آبادی ہندو تھی۔ تقسیم کے نتیجے میں 1951 کی مردم شماری تک یہ تعداد کم ہو کر 2 فیصد رہ گئی۔ سکھر میں سندھ انڈسٹریل ٹریڈنگ اسٹیٹ 1950 میں قائم کی گئی تھی۔ ایوب پل 1962 میں بنایا گیا تھا اور یہ برطانوی دور کے لینڈز ڈاؤن پل کے ساتھ دریائے سندھ پر پھیلا ہوا ہے ۔2010 کے پاکستان میں آنے والے سیلاب کے دوران شہر کو بڑے سیلاب کا سامنا کرنا پڑا جس نے شہر کے بڑے حصے کومتاثر کیا تھا سکھر کی معیشت کا زیادہ تر انحصار شمالی سندھ کے کھیتوں سے حاصل ہونے والی زرعی پیداوار پر ہے، اور یہ زرعی سامان کے لیے تجارتی اور پروسیسنگ مرکز کے طور پر کام کرتا ہے ۔اس شہر میں کسی زمانے میں جہاز سازی کی صنعت بھی تھی۔ سکھر ایک بڑا زرخیز اور قابل کاشت اراضی علاقہ ہے جہاں خریف کے دوران چاول، باجرہ، کپاس، ٹماٹر اور مٹر کی کاشت کی جاتی ہے جبکہ ربیع کے دوران اہم فصلیں گندم، جو، گراہم اور خربوزہ ہیں سکھر اپنی کھجوروں کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ سکھر میں دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ ریورائن کا ایک بڑا جنگل بھی ہے۔ یہ اشنکٹبندیی جنگلات سندھ کے دونوں طرف حفاظتی پشتوں کے اندر پائے جاتے ہیںشہر کو Mـ5 موٹروے کے ذریعے لاہور ، اسلام آباد اور پشاورسے جوڑا جا چکا ہے، عنقریب سکھر کو Mـ6 موٹروے کے ذریعے حیدرآباد سے بھی جوڑا جائے گا اور پھر Mـ9 موٹر وے کے ذریعے کراچی سے منسلک ہوگا جبکہ Mـ5 اور Mـ6 کے زریعے چین پاکستان اقتصادی راہداری کے حصے کے طور پر بنایا جا رہا ہے۔ سکھر ریلوے اسٹیشن بھی تاریخی ہے جہاںراولپنڈی اور کوئٹہ کے درمیان چلنے والی جعفر ایکسپریس، کراچی اور جیکب آباد کے درمیان چلنے والی سکھر ایکسپریس، اور کوئٹہ اور پشاور کے درمیان چلنے والی اکبر ایکسپریس کا اسٹاپ ہے سکھر ایئرپورٹ جو شہر سے 8 کلومیٹر باہر واقع ہے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کے ذریعے کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے لیے براہ راست پروازیں فراہم کی جاتی ہیں سکھر شہر سکھر ڈویژن اور سکھر ضلع کا دارالحکومت ہے ۔ سکھر ضلع میں چار تحصیلیں اور کئی یونین کونسلیں ہیں۔ سکھر سندھ ہائی کورٹ کے تین سرکٹ بنچوں میں سے بھی ایک ہے ،یہاں کی آئی بی اے یونیورسٹی پاکستان کے بزنس اسکولوں میں سے ایک ہے جس کی بنیاد 1994 میں رکھی گئی تھی یہ ادارہ ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان بزنس اسکول رینکنگ 2013 میں شامل پاکستان کے پانچ آزاد بزنس اسکولوں میں تیسرے نمبر پر ہے۔ اسلامیہ سائنس کالج سکھر کی بنیاد سید حسن میاں ایڈووکیٹ نے رکھی تھی اور وہ اپنی وفات تک کالج کے چیف سرپرست رہے۔ سید حسن میاں ایڈووکیٹ نے سکھر کے معزز خاندانوں کی مدد سے سکھر میں 25 اسکول اور ووکیشنل سینٹرز کی بنیاد رکھی وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے جنرل سیکریٹری اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھی بھی تھے ۔سردار الہی بخش انیل بھٹی نے گزرتے ہوئے ہمیں ایشیا کی سب سے بڑی کھجور منڈی بھی دکھائی۔ جس کے باہر والی سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی۔ اتنی بڑی منڈی اور اتنی ہی گندی سڑک ویسے تو پورے شہر کا حلیہ ہی بگاڑ دیا گیا ہے۔ یہ وہ خورشید شاہ کا شہر نہیں، انہیں چاہیے کہ اپنے شہر کی تاریخی حیثیت کا خیال رکھتے ہوئے اسے ایشیا کا خوبصورت شہر بنائیں ،ورنہ زمانہ بدل رہا ہے ایسا نہ ہو کہ یہ شہر آپ کے ہاتھ سے نکل جائے کیونکہ آجکل سوشل میڈیا کا دور ہے ۔
٭٭٭

 


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں