کیا وینٹی لیٹر سے لوگ قتل ہورہے ہیں؟
شیئر کریں
کورونا وائر س نے دراصل سائنس پر ایمان کو نشانا بنایا ہے۔ اس وائرس نے ہر قسم کی سائنس کو کٹہرے میں کھڑا کردیا ہے۔ مذہب کے خلاف سیکولر اور لبرل ذہنوں کا سب سے بڑا مقدمہ دراصل ”روشن خیالی“ کی ایک وبا تھی، جو سائنسی ترقی کے بطن سے پیدا ہوئی تھی۔ مذہب کے خلاف سائنس کو کھڑا کیا جاتا تھا اور کہاجاتا تھا کہ معلوم پر نامعلوم کو ترجیح نہیں دی جاسکتی۔ کورونا وبا نے طبی سائنس کو تو کٹہرے میں لاکھڑا کیا ہے، مگر باقی ہر قسم کی سائنس پر بھی سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ معلوم اتنا معلوم نہیں لگتا اور نامعلوم اب اتنا بھی نامعلوم نہیں رہا۔ سائنس کا تجربی علم کا دعویٰ ٹھوکر کھا کر گر گیا ہے، اور یوں لگتا ہے کہ اس میں صرف اور صرف تجربے ہی ہیں علم نام کی کوئی شے مستحکم بنیادوں کے ساتھ کہیں نہیں۔ سائنس خود ایک تجربے کے بعد اپنے ہی نتیجے کو دوسرے تجربے سے جھوٹا قرار دے رہی ہے۔ اس کے اٹکل، ظن وقیاس اور الل ٹپ نتائج کا بدترین بوچڑ خانہ ہمارے سامنے موجود ہے۔ اب محققین نے تازہ ترین سوال وینٹی لیٹر پر اُٹھا دیا ہے۔ ماہرین کو شبہ ہے کہ کورونا وبا میں سب سے اہم طریقۂ علاج ہی کہیں انسانوں کے قتل کا موجب تو نہیں بن رہا۔
کورونا وبا کی لہر جب چین اور اٹلی میں ڈرامائی طور پر اُٹھی تو دنیا بھر میں صحت کی دیکھ بھال کا نظام موضوعِ بحث بن گیا۔سب کی زبان پر ایک سوال تھا کہ اگر کورونا وبا نے ایک سمندری لہر کی طرح سر اُٹھایا تو کیا اس کا مقابلہ موجود نظمِ صحت سے کیا جاسکے گا؟تب غلط طور پر انسانی مصائب کے ایک سونامی کی پیش گوئی تھی، جو ابھی بھی کسی نہ کسی شکل میں برقرار ہے۔ یاد کریں، کس طرح ہنگامی اسپتال بنائے جارہے تھے، جو زیادہ تر کراچی کے ایکسپو سینٹر میں قائم آئسولیشن مرکز کی طرح خالی پڑے رہے۔ تب زیادہ تر باتیں صرف اور صرف وینٹی لیٹرز کی ہورہی تھیں۔ دنیا کے تمام ممالک وینٹی لیٹر کے متعلق اپنے آنکڑوں کو سیدھا کررہے تھے۔کسی بھی ملک کے پاس جتنے بھی وینٹی لیٹر تھے، سوال ایک ہی تھا کیا یہ ہمارے لیے کافی ہوں گے؟مزید کیسے حاصل کیے جائیں؟کیا ہم اپنے تھری ڈی خود پرنٹ کریں؟ وینٹی لیٹر بنانے والی کمپنیوں کی محدودات آڑے آگئیں تو سوال اُٹھے کہ کیا کار کمپنیوں اور اسلحہ ساز فیکٹریوں کو اس کی مزید تیاری کے لیے کہا جائے؟
اگر اس پورے بیانئے کو تازہ کریں تو یوں لگتا تھا کہ وینٹی لیٹر زندگی کی ضمانت ہی نہیں، بلکہ کورنا وائرس کے مریضوں کے لیے خود زندگی ہی ہیں۔ کراچی میں ہمارے تجربات کا حصہ بننے والے مجرم معالجین کی بات چھوڑیں جنہوں نے اپنے پیشے سے بے وفائی کی، مریضوں کو ایک موقع سمجھا، اُن کی زندگیوں سے کھلواڑ کا حصہ بنے، ضمیر کو اضافی رقم کے جھانسے میں تھپک کر سلائے رکھا، کورونا کے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کا حصہ بنے، معمولی بیماریوں کو کورونا وبا کے کھاتے میں ڈالا اور مریضوں کو جبراً وینٹی لیٹر پر لے گئے، یہاں تک کہ اُن میں سے اکثر مریض زندگی کی بازی ہار گئے۔ اُن معالجین کی خدمت میں چلتے ہیں جنہوں نے مریضوں کی صحت کو ترجیح دی، اپنے علاج کے دوران میں وائرس کے بننے والے پیٹرن پردھیان دیا۔ اور اپنے نتائج فکر کو بلاترغیب و تحریص اور بے کم وکاست بیان کردیا۔
کورونا وبا کے ہنگام بہت سے معالجین نے آگے بڑھ کر خبر دار کیا کہ میکانیکی وینٹی لیشن سانس کے وبائی مرض میں مبتلا افراد کے لیے نہ صرف نامناسب ہے، بلکہ اس کا کووڈ۔19 کے مریضوں کے لیے زیادہ استعمال فائدے کے بجائے نقصان دہ ہے۔ ڈاکٹر میٹ اسٹراس نے (گولف جنرل اسپتال، کینیڈاکے سابق میڈیکل ڈائریکٹر، اِن دنوں اسسٹنٹ پروفیسر آف میڈیسن کی حیثیت سے کوئین یونیورسٹی میں فرائض انجام دے رہے ہیں) ڈی اسپیکٹیٹر میں اپنی حالیہ تحریر میں واضح کیا: وینٹی لیٹر بنیادی طور پر کوئی طریقۂ علاج ہی نہیں، جبکہ سانس کی بیماریوں کے لیے تو یہ بالکل موزوں نہیں تھا، اور مریضوں کو اس سے کوئی فائدہ بھی نہیں ہورہا تھا“۔ کووڈ۔19کے مریضوں کے لیے وینٹی لیٹر کے استعمال پر بہت سے طبی مضامین اب سامنے آرہے ہیں، جوجوہری طور پر یہ نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ طریقۂ علاج مریض کے لیے زیادہ خطرناک ثابت ہورہا ہے۔ڈاکٹر ایڈی فین نے بھی کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر کہا کہ ”پچھلی چند دہائیوں کا یہ سب سے اہم نتیجہ ہے کہ میڈیکل وینٹی لیشن پھیپھڑوں کی چوٹ کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے،لہذا اس کے استعمال میں انتہائی محتاط ہونا چاہئے“۔
ڈاکٹر جوزف ہباشوے نے اس میں اضافہ کیا کہ ”اگرمریضوں کو انٹوبیٹ کیے بغیر بہتر بنانے کے قابل ہوں تو یہ زیادہ اچھے نتائج دے گا“۔
نیو یارک میں مقیم انتہائی نگہداشت کے ماہر ڈاکٹر پال میو نے بھی اس دوران یہ واضح کیا کہ ”کسی بیمار کو وینٹی لیٹر پر لے جانا بجائے خود ایک بیماری پیدا کردیتا ہے“۔نیومیولوجیکل کلینکس ایسوسی ایشن کے چیئرمین اور پھیپھڑوں کے معالج (Pulmonologust) ڈاکٹر تھامس ووشر نے دوٹوک طور پر کہا کہ مریضوں کی بہت جلد وینٹی لیشن بہت زیادہ خطرناک ہے۔ چین اور اٹلی میں زیادہ اموات کا سبب ماہرین اپنی مطالعاتی رپورٹوں کی بنیاد پر حدسے زیادہ انٹیوبیشن قرار دیتے ہیں۔ ایک محتاط جائزے سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بیس سے کچھ زیادہ ہی فیصد کو وڈ۔19 کے مریض ایسے ہیں، جو اپنی زندگی بچا سکے۔ معالجین اتنے کم نتائج پر انتہائی اعتماد سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اس سے بہتر پھر علاج ہی ہے۔
درحقیقت وینٹی لیٹر کسی بیماری کاعلاج نہیں کرتا۔ جب آپ خودسے پھیپھڑوں تک ہوا پہنچانے میں دقت محسوس کرتے ہیں تو یہ اسے ہوا سے بھرتا ہے۔ ظاہر ہے ہم پاکستان میں اپنے مسیحاؤں سے گاہے قصاب کے رویے کی بھی توقع رکھتے ہیں مگر جہاں مریضوں کا خیال جان سے زیادہ رکھا جاتا ہے، وہاں بھی وینٹی لیٹرز کو درست لگانے اور ضروری نگہداشت پوری طرح رکھنے کے باوجود بھی اس میں خاصی پیچیدگیوں کا پتہ چلتا ہے۔ پھیپھڑے دو وجوہات کی بناء پر حساس ہو سکتے ہیں۔ زیادہ دباؤ اورزیادہ آکسیجن کی فراہمی۔وینٹی لیشن کے دوران میں مریض ایک طرح سے دنیا سے باہر ہو جاتا ہے۔ وہ خود کھا، پی نہیں سکتا۔وہ خود سے سانس بھی نہیں لے سکتا۔ اس دوران میں پھیپھڑوں کو صرف زیادہ دباؤ سے صرف ہوا ہی ملتی ہے،ایسے میں جسم کی غیر ہموار حرکت کسی بھی وقت متوقع ہوتی ہے، تب ہوا کا منفی دباؤ سے پھیپھڑوں میں داخل ہونا نہایت خطرناک ہوتاہے۔ ماہرین کہہ رہے ہیں کہ کووڈ۔ 19 کے دوران میں اکثر حالات میں وینٹی لیٹر سانس کی بیماری پر قابو پانے کے بجائے، اس بیماری کا سبب بنے۔
کھانسی کے اضطراری دباؤ میں سانس کی نالی میں وینٹی لیٹر ٹیوب داخل کرنی پڑتی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مریض دراصل اپنے ہوائی راستے کو صاف رکھنے سے خود قاصر ہے۔ اس سے جو سیال پیدا ہوتا ہے، وہ کسی اجنبی بیکٹریا کے ساتھ بیماری کا باعث بنتا ہے۔
جسے وینٹی لیٹر سے وابستہ نمونیا یعنی (وی اے پی) کہا جاتا ہے۔ اس ضمن میں دستیاب مطالعاتی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ وینٹی لیٹر لگے مریضوں میں سے تقریباً 8 سے 28فیصد مریض اس بیماری سے لازمی متاثر ہوتے ہیں جن میں سے 20 سے 55فیصد مریض جانبر نہیں ہوپاتے۔ بیماری کے خطرے کو ایک طرف بھی رکھیں تو وینٹی لیٹر کی اصل میکانیات یہ ہیں کہ اس سے ہوا کا دخول و خروج ہوتا ہے، جو اپنی ذرا سی غیر ہموار حالت میں پھیپھڑوں کو فائدہ پہنچانے کے بجائے لازمی نقصان پہنچاتا ہے۔ اِسے طبی زبان میں ”ventilator-induced lung injury“ کہاجاتا ہے۔ معالجین متفق ہیں کہ یہ عمل مریض کے لیے جان لیوا ثابت نہ بھی ہوتو یہ ایک لمبے وقت کے لیے نقصان کا باعث ہوتا ہے جو معیارِ زندگی کو مستقل متاثر کردیتا ہے۔ اس ضمن میں ایک تحقیق یہ بتاتی ہے کہ وینٹی لیٹر لینے والے مریضوں کے صحت یاب ہونے کے باوجود 58 فیصد مریض ایک سال کے اندر ہی زندگی کی بازی ہار گئے۔ دھیان رہے، اگر مسائلِ قلب میں مبتلا، کینسر، ایڈز، ذیابیطس یا صحت کے دیگر مسائل کی بناء پر نزلہ جیسی علامات میں کسی بھی مریض کو وینٹی لیٹر پر ڈالا جائے تو اس سے اس کے جسم کے ایک بہت اہم حیات بخش حصے کو پہلے ہی مار دیا جاتا ہے۔ یہ ایک پورا تناظر ہے جس میں کوورنا وبا کے شکار مریضوں کے لیے وینٹی لیٹر کے بہت زیادہ استعمال کے نقصانات کو سمجھا جاسکتا ہے۔ آپ کو بالکل حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ ایک مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کورونا کے برطانیا میں جن 66فیصد مریضوں کو وینٹی لیٹر پر ڈالا گیا وہ جاں بحق ہو گئے۔ ایک تازہ ترین مطالعے میں یہ انکشاف ہوا کہ نیویارک میں کووڈ۔19 کے 88فیصد مریض وینٹی لیٹر پر ڈالنے کے بعد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔اٹلی میں یہ تعداد 81 فیصد تھی اور ووہان میں 86 فیصد لوگ وینٹی لیٹر لگائے جانے کے بعد موت کی آغوش میں چلے گئے۔
ذرا سوچیں! ہم کہاں کھڑے ہیں؟ پہلے سے ہی یہ بات پایہئ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ عام مریضوں کو کورونا کے مریض ثابت کیا جارہا ہے۔ پھر کورونا کے مریضوں کو موت کی دہلیز تک دانستہ پہنچایا جارہا ہے۔کورونا کے مرض میں شرح اموات کو بڑھا چڑھا کر دکھانے کے لیے موت کے سرٹیفکیٹ جعلسازی سے تیار کیے جارہے ہیں۔ جعلی ہندسوں، خطرناک پروپیگنڈوں اور خوف ناک طبی جعلسازیوں کے ساتھ حکومتوں کی مفاد پرستیوں کو دیکھتے ہوئے یہ سوال ہرگز عجیب نہیں لگتا جو مغرب کے مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ (ایم ایس ایم) سے ہٹ کر متوازی ذرائع ابلاغ میں پوچھا جارہا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ جو مریض بچ رہے ہوں، اُنہیں وینٹی لیٹرز کے ذریعے ٹھکانے لگایا جارہا ہوں۔ کراچی میں ایسے متعدد مریضوں کے احوال و کوائف اکٹھے کرنے سے تو یہی پتہ چلتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔