میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
قانون وانصاف

قانون وانصاف

ویب ڈیسک
هفته, ۹ مئی ۲۰۲۰

شیئر کریں

تمام تعریف اس اللہ کے لیے جو ظاہری آنکھ سے پوشیدہ اور شعور کی آنکھ سے نظر آیا ہے جسے بنا دیکھے بھی پہچانا جاسکتا ہے۔ اس نے بلا تکان اوربلا توقف کے ایک لفظ ’’کن‘‘ سے تمام مخلوقات کوبلا ضرورت ِمادہ خلق کیا اور اپنی بزرگی اور برتری کی بنیاد پر ان سے مطالبہ عبدیت کیا۔ اس نے انسان و جن کی ہدایت کے لیے اپنی جانب سے ذیشان رسول ارسال کیے اور اپنی بے شمار نعمتوں سے سرفراز کیا۔ متوالین اسلام کی مرکزیت کے لیے بیت اللہ کو قبلہ قرار دیا۔ اس نے انبیا کے ذریعے انسان کی نگاہوں کے پردوں کو اٹھا دیا اور دنیا کے امتحان، نفع و نقصان سے آگاہ کیا۔ صحت و بیماری کو عبرت کا سامان کیا تاکہ انسان اس کی جانب رجوع کرسکے۔
اس نے انبیاء کے سلسلے کے اختتام کے ساتھ قرآن کو واضح اور روشن ہدایت کے ساتھ نازل کیا جو حضرت سرور کائنات محمد عربی ؐ پر سلسلہ نبوت کے خاتمے کی مہر ہے اور قیامت تک کے جن و انس کے لیے امر کرنے والا، روکنے والا، بشیر و نذیر ہے وہ خاموش بھی ہے اور ناطق بھی اور مخلوقات پر دین کو کامل کرنے والی حجت ِ خدائے لم یزال ہے۔
یہ ایسی کتاب ہے کہ جس میں کوئی شک نہیں ہر طرح کے ردوبدل اور تضاد سے پاک ہے، اس حکیم و کریم نے اپنے اس کلام میں ہر لائق توصیف و پسند اور قابل نفرت و ناپسند امور کو بیان کردیا ہے ۔اوامر و نواہی کی محکم آیات نازل کیں۔ اس کے احکامات، رضا و ناراضگی مستقل اور غیر متغیر ہیں، ابتداء سے انتہا تک یکساں ہے۔ جس عمل سے وہ گزشتہ اشخاص سے ناراض ہوا حال و مستقبل میں کسی سے بھی ویسا عمل صادر ہونے پر راضی نہیں ہوگا اور جس عمل سے وہ گزشتہ اشخاص سے راضی ہوا اس کی انجام دہی پر حال و مستقبل میں ناراض نہیں ہوسکتا۔
وہ زمین و آسمان کے لشکروں کا مالک ہوکر اپنی رضا کے طالب گاروں سے مطالبہ نصرت کرتا ہے اور تمام خزانوں کامالک ہوکر قرض کا خواہاں ہے۔ اس کامطالبہ نصرت و قرض اس کی کمزوری وغربت کی دلیل نہیں بلکہ وہ مالک الملک اور غنی و حمید چاہتا ہے کہ حسن عمل کے اعتبارسے آزمائش کرے اور ثابت قدم مومنین کے بلند درجات کی وجہ دیگر پر عیاں کردے۔ اس نے ہر شخص پر کاتب اعمال مقرر کیے ہیں جو کسی بھی حق کو ساقط نہیں کرسکتے اور نہ کسی باطل کو ثبت کرسکتے ہیں۔ فرقان حمید میں احکامات اوامر میں عادل اکبر عدل و انصاف قائم کرنے کا حکم دیتا ہے۔
قرآن میں عدل کے لیے لفظ عدل اور انصاف کے لیے ’’قسط‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ عدل اور انصاف دو علیحدہ علیحدہ امور ہیں۔عدل کی اصطلاح اسم ذات اور اسم صفات دونوں اشکال میں استعمال ہوتی ہے۔ معنوں کے اعتبار سے ذات اور صفات باہم مختلف النوع ہیں۔ اسم ذات کے لحاظ سے عدل کے معنی دادرسی کے ہیں جبکہ اسم صفات کے اعتبار سے اس کے معنی مستقیم، منصفانہ اور متوازن کے آتے ہیں۔ دونوں متذکرہ اشکال میں لفظ عدل مذہب، حکمت اور قانون کی لغات میں مستعمل ہے۔ اسلام میں قاضی کو عدل و انصاف کا حکم دیا گیا ہے، لفظ عدل کا انصاف سے قبل آنا ہی اس کی اہمیت کی دلالت ہے اور ظاہر کرتا ہے کہ اس امر کا اصل عدل ہی ہے۔
سورۃ المائدہ پر غور کیا جائے تو درج ذیل آیات میں عدل اور انصاف بظاہر الگ الگ کھڑے نظر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اے ایمان والوں! تم اللہ کی خاطر حق پر قائم ہوجائو۔ راستی اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جائو کسی قوم کی عداوت تمہیں عدل کرنے سے نہ روک پائے، عدل کیا کرو، یہ پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ یقینا اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے‘‘ اور دوسری جانب اسی سورہ میں آیات نمبر 42 میں اللہ فرماتا ہے کہ
اگر فیصلہ کرو تو ان میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔ یقینا اللہ انصاف کرنے والوں کے ساتھ محبت کرتا ہے‘‘
جبکہ اللہ رب العزت اپنے کلام کے بارے میں فرماتا ہے کہ ’’آپ کے رب کا کلام سچائی اور عدل کے اعتبار سے کامل ہے اس کے کلام کا کوئی بدلنے والا نہیں اور وہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے‘‘
ان آیات کو بغور دیکھا جائے تویہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انصاف کو عدل کا متبادل قرار نہیں دیا جاسکتا ۔
عدل سے مراد حق کو اس کی صحیح جگہ پر پہنچادینا ہے اور ظلم کو عدل کا متضاد قرار دیا جاتا ہے یعنی حق کو اس کی جگہ سے ہٹا دینا ظلم کہلاتا ہے۔ اس کی وضاحت یوں کی جاسکتی ہے کہ عمامہ کا صحیح مقام سر پر رکھنا ہے جبکہ جوتے کا مقام پائوں ہے ان دونوں اشیاء کو ان کی صحیح جگہ پر استعمال کرنا عدل ہے جبکہ جوتے کو سر پر رکھنا اس کی عزت میں اضافہ نہیں بلکہ اس کے ساتھ ظلم ہے اسی طرح عمامہ کا سر پر رکھنے کی بجائے دیگر استعمال ظلم سمجھا جائے گا۔
قرآن حکیم میں گیارہ مقامات پر عدل کا حکم آیا اور نفاذِ قرآن عدل ہے۔ اسلام نے عدل کو ریڑھ کی ہڈی قرار دیا اور ریاستوں کے قیام میں کلیدی کردار عدل کا ہی بیان کیا گیا ہے۔ ریاست کا قائم رہنا عدل کی ہی مرہون منت ہوسکتا ہے کیونکہ ریاستیں کفر پر قائم رہ سکتی ہے ظلم پر نہیں۔ حق دار کو حق کی فراہمی اور ظالم کو کیفر کردار تک پہنچانا ہی عدل ہے۔
انصاف سے مراد برابری اور مساوات کے ہیں، قرآن میں انصاف کے لیے میزان اور ترازو کو علامت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ قوی وعزیز سورۃ الحدید کی آیت نمبر 25 میں فرماتا ہے کہ
’’یقینا ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی دلیلیں دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل فرمایا تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں‘‘
یہاں میزان میں برابری کا اصول یہ نہیں کہتا کہ اگر ایک جائیداد سے متعلق دو افراد دعویٰ کریں تو وہ جائیداد دونوں میں برابر تقسیم کردی جائے بلکہ یہ میزان دعویٰ کو ثبوت و شہادت کے مقابل میں تولنے کاحکم ہے۔ جو ثبوت و شہادت مسل مقدمہ میں موجود ہو ان پر انحصار کرتے ہوئے فیصلہ دینا انصاف ہے۔ انصاف کے اصول ،عدل کے اصولوں سے کچھ مختلف ہیں جیسا کہ انصاف کی فراہمی کے لیے قاضی فریقین سے یکساں سلوک، بار ثبوت یا شہادت کے دیگر اصول و ضوابط کو مدنظر رکھنے کا پابند ہوتا ہے انصاف کے تحت فیصلے کے طالب پر لازم ہے کہ وہ اپنے دعویٰ کو شکوک و شبہات سے پاک طور پر ثابت کرے جبکہ عدل کی فراہمی کے لیے مدعی سے زیادہ عادل کے علم اور تفتیش، حق کی کھوج کی دریافت پر انحصارکیا جاتا ہے۔ عدل وانصاف کے مابین فرق اور تحریر ھذا کی مشاطگی کے لیے تاریخ کے اوراق سے ایک واقعہ پیش خدمت ہے جو کتاب استیعاب اور لطائف الطلوالف میں ذکر کیا گیا ہے۔ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب کے عہد خلافت میں دو مسلمان مرد راہ کوفہ کے مسافر تھے اس وقت راستے میں طعام و قیام کے لیے سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے مسافر اپنا زادِ راہ روٹی و پانی کی صورت میں اپنے ہمراہ رکھتے تھے۔ ایسے ہی وقت میں جب وہ دو مسافر مل کر اپنا طعام تناول کرنے کے لیے بیٹھے تو وہاں ایک تیسرے شخص کی آمد ہوئی۔ ان دو اشخاص نے نووارد کو بھی اپنے ساتھ کھانے میں شامل کیا جب ان افراد نے اپنا سامان کھولا تو ایک شخص سے پانچ روٹی جبکہ دوسرے کے پاس سے تین روٹی برآمد ہوئیں۔ تینوں افراد نے باہم مل کر کھانا تناول کیا اور اپنے سفر پر روانہ ہوئے جب تیسرا شخص اپنی راہ پر ان دو افراد سے جدا ہونے لگا تو اس نے آٹھ درہم پانچ روٹی کے مالک کے ہاتھ پر دھر دیے اور کہا کہ آپس میں تقسیم کرلینا۔اس کے جانے کے بعد ان درہم کی تقسیم پر تنازع ہوا۔ پانچ روٹی والے شخص کا دعویٰ تھا کہ درہم کی تقسیم روٹی کی تعداد کے حساب سے ہو یعنی 5 درہم پانچ روٹی والے کے جبکہ تین درہم والے کو تین درہم ملنے چاہئیں دوسری جانب تین روٹی والا شخص درہم کی نصف کی بنا پر تقسیم کا خواہاں تھا۔ الغرض یہ دونوں افراد جھگڑتے ہوئے قاضی شریح کے پاس پہنچے اور سارا ماجرا گوش گزار کیا تو قاضی شریح نے تین روٹی والے شخص کو مخاطب کرکے کہا کہ بادی النظر میں پانچ روٹی والے شخص کی تقسیم قریب الفہم ہے اور تجھے اس پر عمل کرنا لازم ہے تو اس نے جواب دیا کہ جب تک خلیفہ امیر المومنین کے پاس اس قضیئے کو نہ لے جائوں تسلی نہیں ہوگی۔ الغرض وہ دونوں افراد حضرت علی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا حال بیان کرکے مطالبہ انصاف کیا۔
باب علم ؓ نے پانچ روٹی والے شخص کو مخاطب کرکے فرمایا کہ کیا تو اپنی خوشی سے اس کو تین درہم دینے پر رضا مند ہو، اس نے اثبات میں جواب دیا تو آپ ؓ نے تین روٹی والے شخص سے فرمایا کہ اب اس بات میں مبالغہ نہ کر جو کچھ مل رہا ہے لے کر چل دے۔ اس نے عرض کی حضرتؓ انصاف کیجئے۔ آپؓ نے جواب میں فرمایا یہی انصاف ہے۔ لیکن وہ شخص تکرار کرتا رہا یہاں تک کہ عدل کا خواہاں ہوا تو شیر خدا ؓ نے فرمایا اگر تم عدل کے خواہاں ہو تو سنو! تمام روٹیوں کو تین برابر ٹکڑوں میں تقسیم فرض کرلو اور یہ فرض کرو کہ تمام اشخاص نے برابر کھایا تو ہر ایک کے حصہ میں کل چوبیس ٹکڑوں میں سے آٹھ ٹکڑے آئے یوں آٹھ ٹکڑے تم نے کھائے جبکہ تمہاری تین روٹیاں اگر تین برابر ٹکڑوں میں تقسیم ہوں تو کل نو ٹکڑے ہوتے ہیں جس میں سے آٹھ تم نے خود کھائے اور ایک اس مسافر نے کھایا جس نے درہم دیے لہٰذا ایک درہم تمہارا اور سات درہم پانچ روٹی والے شخص کے ہونگے کیونکہ اس کی پانچ روٹیوں کے کل پندرہ ٹکڑے ہوئے آٹھ ٹکڑے اس نے خود کھائے اور سات درہم دینے والے مسافر نے کھائے۔
متذکرہ بالا واقعہ عدل اور انصاف کے فرق کو بہت سہل اور آسان طریقہ سے سمجھاتا ہے۔حضرت علی ؓ نے عدل کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ عدل کے چارشعبے ہیں: تہہ تک پہنچ جانے والی سمجھ، علم کی گہرائی، فیصلہ کی وضاحت اور عقل کی پائیداری۔ جس نے فہم کی نعمت پالی وہ علم کی گہرائی تک پہنچ گیا اور جس نے علم کی گہرائی کو پالیا وہ فیصلے کے گھاٹ سے سیراب ہوکر باہر آیا اور جس نے عقل استعمال کی اس نے اپنے امر میں کوئی کوتاہی نہیں کی اور لوگوں کے درمیان قابل تعریف زندگی گزار دی۔
عدل کی فراہمی کے لیے انصاف کا ہونا بہت ضروری ہے یہ بات حضرت عمر کی عدالت میں اپنائے ہوئے طرز عمل سے واضح ہوتی ہے جب حضرت ابی بن کعبؓ نے کچھ نزاع کی بنا پر حضرت زید بن ثابتؓ کی عدالت میں حضرت عمر ؓ کے خلاف مقدمہ دائر کیا اس وقت حضرت عمرخلیفہ وقت تھے۔ آپ ؓ جب فریق مقدمہ کی حیثیت سے عدالت میں تشریف لائے تو حضرت زید بن ثابت ؓ نے انہیں تعظیم دی تو آپ ؓ نے فرمایا کہ یہ تمہارا پہلا ظلم ہے۔ یہ کہہ کر آپ ؓ حضرت ابی ؓ کے برابر بیٹھ گئے۔ابی کے پاس کوئی ثبوت نہ تھا اور حضرت عمر ؓ کودعویٰ سے انکار تھا حضرت ابی بن کعب ؓ نے قاعدے کے موافق حضرت عمر ؓ سے قسم لینی چاہی لیکن حضرت زید بن ثابت ؓنے ان کے رتبے کا پاس کرکے حضرت عمرؓ سے قسم لینے میں مانع ہوئے تو حضرت عمر ؓ رنجیدہ ہوئے اور فرمایا جب تک تمہارے نزدیک عمر ؓ اور ایک عام آدمی برابر نہ ہوں تم منصب قضا کے قابل نہیں۔ حضرت عمر نے عدل کی بروقت فراہمی کے لیے خصوصی اہتمام کیا اور عدل کے پہلے شعبے علم کی گہرائی کو صیغہ قضا شہادت کے اصول کے ذریعے شامل کیا تاکہ قاضی کو عدل کرنے میں آسانی ہو یوں ماہر فن کی رائے کو عدل کے پہلے شعبے کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ زبرقان بن بدر اور حطیہ شاعر کے مقدمہ میں حضرت حسان بن ثابت ؓ شاعرِ رسول کی رائے کے مطابق فیصلہ دیا گیا۔
انصاف کے مقابل عدل کی شرائط سخت ہیں عدل کے لیے استقامت، صبر و شکر اور ایثار بھی لازم ہیں۔ اسلام میں دشمن کے ساتھ بھی انصاف کے ساتھ عدل کا حکم دیا گیا ہے۔ تاریخ اسلام اس کی امثال سے مالا مال ہے لشکر اسلامی کا فتح کے بعد فیصلہ عدل پر شہر کا قبضہ چھوڑ دینا عدل کی فراہمی حالت جنگ میں اور اجتماعی طورپر حکم کی اتباع اسلام میں عدل کی اہمیت کو دنیا کے سامنے آشکار کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں