کورونا وائر س پاکستان میں دَم توڑ رہاہے۔۔۔!
شیئر کریں
پاکستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ پہلا مریض 26 فروری کو سامنے آیا تھا،جبکہ چین میں اِس وائرس نے ماہ جنوری کے ابتدائی ہفتے میں ہی خوف ودہشت کی الم ناک فضاء قائم کردی تھی۔اس کے علاوہ پاکستان اور چین کے درمیان تجارتی،تعلیمی،صنعتی میدان میں جس طرح کے مضبوط تعلقات استوار ہیں۔اِن سب کو پیشِ نظر رکھ کر تجزیہ کیا جائے تو یہ حوصلہ افزاراز منکشف ہوتاہے کہ کورونا وائر س پاکستان کے لیے اتنا خطرناک ثابت نہیں ہورہاہے جتنا کہ دیگر ممالک مثلاً چین،برطانیا،امریکا،ایران،فرانس یا دنیا کے دیگر حصوں کے لوگوں کے لیے اَب تک ثابت ہواہے۔ جبکہ پاکستان میں کووڈ 19 کی بیماری سے ہونے والی شرح اموات بھی بے حد کم ہے۔اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ پاکستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی اصل تعداد بیان کی گئی تعداد سے کئی گنا زیادہ ہے تب بھی حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ ایک ماہ گزرنے کو آیاہے اور 90 فیصد سے زائد افراد میں کورونا وائرس کی ہلکی سے ہلکی علامات بھی ظاہر نہیں ہوسکی ہیں۔ اِس متعلق بعض ماہرین طب کا تو یہ بھی تبصرہ ہے کہ ہوسکتاکہ پاکستانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد کورونا وائرس کا خاموشی کے ساتھ شکارہوکر صحت یاب بھی ہوگئی ہو اور اُنہیں اِس بات کا علم بھی نہ ہو۔چین کے ساتھ ہمارے انفرادی واجتماعی تعلقات،ایران کے ساتھ ہمارے مذہبی روابط اور ملک میں ناقص ترین طبی سہولیات کی موجودگی کو دیکھتے ہوئے اَب دنیا بھر کی ماہرین بھی حیران ہورہے ہیں کہ آخر کس طرح پاکستان میں اَب تک کورونا وائرس کا مہلک وار کارگر ثابت نہیں ہوپارہاہے۔ اِس حوالے سے دنیا بھر میں مختلف قسم کی تحقیقات بھی ہونا شروع ہوگئیں ہیں۔
اَب تک منظرِ عام پر آنے والی مختلف تحقیقاتی رپورٹوں کے مطالعہ کے بعد تین قسم کی وجوہات سامنے آئی ہیں،جن کی وجہ سے پاکستان میں کورونا وائرس کھل کر اپنا کھیل نہیں کھیل پارہا ہے پہلی وجہ وائرس میں ہونے والی جنیاتی تبدیلی ہے۔اِس حوالے سے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سابق چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر عطا ء الرحمان نے حال میں ہی بتایاہے کہ”ہم نے پاکستان میں حملہ آور ہونے والے کورونا وائرس کی ساخت کا پتا لگالیا ہے اور معلوم ہوا ہے کہ پاکستانی مریضوں میں پائے جانے والے وائرس کے کروموسومز چین کے شہر ووہان میں پائے جانے والے وائرس سے 9 حوالوں سے مختلف ہیں۔جبکہ پاکستان میں حملہ آور کورونا وائرس کے کروموسومز کی شدت چینی وائر س میں موجود کروموسومز جتنی خطرناک بھی نہیں ہے“۔ پاکستان میں حملہ آور کورونا وائرس کی کمزوری کو عیاں کرنے والی دوسری وجہ medRxiv نامی جریدے میں شائع ہونے والی ایک تحقیق ہے۔ جس کے مطابق پاکستان میں پیدائش کے وقت شیر خوار بچوں کی دی جانے والیBacillus Calmette Guerin(BCG) ویکسین ہے۔جس کے ابتدائی تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ ایسے تمام ممالک جہاں یہ ویکسین شہریوں کے لیے لازمی قرار دی گئی ہے وہاں کووڈ 19 وائرس سے متاثرہ افراد اور اس کی وجہ سے ہونے والی اموات کی شرح ناقابلِ یقین حد تک کم ہے۔ اگرچہ یہ صرف ایک تحقیقاتی مطالعہ ہے لیکن اس کے باوجود دنیا کے کم از کم 6 ممالک میں ماہرین طب تجربات کے دوران یہ ویکسین طبی مراکز پر کام کرنے والے عملے اور بوڑھے افراد کو باقاعدگی سے کورونا وائرس کے خلاف بطور دوا دے رہے ہیں تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا واقعی اس ویکسین کی وجہ سے کورونا وائرس کا مرض جان لیوا نہیں رہتا۔
دوسری جانب نیویارک انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی جانب سے کی جانے والی تحقیق میں بھی اس بات پر غور کیا گیا ہے کہ بی سی جی ویکسین کی وجہ سے نہ صرف ٹیوبرکلوسز (ٹی بی) بلکہ دیگر مختلف اقسام کے وبائی امراض سے بچاؤ کے ثبوت ملے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ محققین کی ٹیم نے ان تمام اعداد و شمار پر ازسرِ نوغور کرنا شروع کردیاہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ایسے تمام ممالک جو زیادہ آمدنی والے ہیں اور جہاں بی سی جی ویکسین نہیں دی جاتی ان میں امریکا، اٹلی، اسپین، فرانس، ایران، برطانیا،چین اور جرمنی ایسے ممالک ہیں جہاں کئی برس قبل بی سی جی ویکسین دیے جانے کی پالیسی ختم کر دی گئی ہے۔لہٰذا اِن تمام ممالک میں کورونا وائرس کے جان لیوا حملوں کی شدت صاف محسوس کی جاسکتی ہے۔ پاکستان میں کورونا وائرس کی پسپائی کی تیسری وجہ ہمارے ملک کے درجہ حرارت یا گرم موسم کو قرار دیا جارہا ہے۔ کیونکہ حال ہی میں چین میں ہونے والے ایک تحقیق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ گرم اور مرطوب موسم کورونا وائرس کی لوگوں کو بیمار کرنے کی بنیادی صلاحیت کو متاثر کرسکتا ہے۔بیجنگ سے تعلق رکھنے والے سائنس دان نے اپنی طبی تحقیق میں عندیہ دیا گیا ہے کہ درجہ حرارت میں ہر ایک ڈگری اضافہ اور نمی کی شرح بڑھنے سے کورونا وائرس کے مرض کووڈ 19 کی پھیلنے کی طاقت میں کمی آئے گی۔محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ شمالی نصف کرے میں موسم گرما اور برسات کی آمد کووڈ 19 کے پھیلنے کے عمل کو موثر حد تک کم کرسکتا ہے۔
نئے کورونا وائرس جیسے وبائی امراض کے پھیلنے یا متعدی ہونے کی طاقت کے لیے ماہرین کی جانب سے ایک اصطلاح آر0 یا ناٹ کو استعمال کیا جاتا ہے۔آر ناٹ نامی اصطلاح سے مراد یہ ہے کہ کسی وبا کے عروج کے دوران ایک مریض مزید کتنے افراد کو بیمار کرسکتا ہے اور اس سائنسی پیمانے کی مدد سے پیش گوئی کی جاسکتی ہے کہ یہ وبا مستقبل میں کس حد تک تیزی سے پھیل سکتی ہے۔ عام فلو یا زکام کے لیے آرناٹ 1.3 ہے جبکہ نئے کورونا وائرس کا ایک مریض اوسطاً 2 سے 2.5 افراد کو متاثر کرسکتا ہے۔ تاہم یہ قدر فکس نہیں ہوتی بلکہ مختلف عناصر جیسے لوگ ایک دوسرے کے کتنے قریب رہے ہیں اور موسم کیسا ہے، سے بدلتی رہتی ہے۔اس نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ درجہ حرارت میں ہر ایک سینٹی گریڈ اضافے اور ہوا میں نمی کی سطح میں ایک فیصد اضافہ کورونا وائرس کی آر ناٹ ویلیو کو بالترتیب 0.04 سے لے کر 0.02 تک گرا سکتا ہے۔مثال کے طور پر اگر ابھی وائرس کی آر او ویلیو 2 ہے تو درجہ حرارت میں 7 ڈگری سینٹی گریڈ اضافے سے یہ گر کر 1.6 تک پہنچ جائے گی یعنی 20 فیصد کمی۔محققین نے 21 جنوری سے 23 جنوری کے دوران سو چینی شہروں میں 40 سے زائد کیسز کے ڈیٹا پر وائرس کے آر او ویلیو کا تخمینہ لگایا اور جائزہ لیا کہ مختلف موسم میں وائرس کے پھیلنے کی رفتار پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔جس کی وجہ سے محققین کو معلوم ہوا کہ یہ ویلیو شمالی نصف کرے میں 2.5 تھی جو کہ جنوبی نصف کرے کے متعدد مقامات کے مقابلے میں دوگنا زیادہ تھی جہاں اس وقت موسم گرم ہے۔انہوں نے بتایا کہ زیادہ درجہ حرارت اور ہوا میں زیادہ نمی سے کووڈ19 کے پھیلنے کی رفتار میں نمایاں کمی آسکتی ہے۔
اس سے قبل یکم مارچ کو جریدے جرنل آف ہاسپٹل انفیکشن میں شائع ایک تحقیق میں مختلف کورونا وائرسز کی مختلف اشیا کی سطح پر زندگی کے دورانیے کا جائزہ لیا گیا اور انکشاف ہوا کہ درجہ حرارت میں اضافے سے اسٹیل کی سطح پر سارز وائرس کی زندگی کا دورانیہ کم از کم 50 فیصد تک کم ہوگیا۔اس کی ممکنہ وجہ یہ ہے کہ بیشر کورونا خاندان کے وائرسز میں ایک چربی کی تہہ وائرس کو ہوا میں ایک سے دوسرے فرد تک کے سفر کے دوران تحفظ فراہم کرتی ہے، مگر گرم درجہ حرارت میں وہ تہہ جلد خشک ہوجاتی ہے، جس سے وائرس کی وسیع تر پھیلاؤ کی اثر انگیزی بہت جلد ختم ہوجاتی ہے۔تحقیق کے دوران محققین نے کورونا وائرس کی وبا کا زیادہ شکار ہونے والے دیگر ممالک جیسے اٹلی، آسٹریلیا، تھائی لینڈ اور امریکا میں 8 سے 29 فروری کے دوران روزانہ کیسز کی اوسط تعداد کا جائزہ بھی لیاتھا۔انہوں نے دریافت کیا کہ اس دورانیے کے دوران اٹلی کے ایسے مقامات جہاں درجہ حرارت 9 ڈگری سینٹی گریڈ کے آس پاس تھا، وہاں نئے کیسز کی تعداد دیگر مقامات جیسے تھائی لینڈ کے مقابلے میں 4 گنا زیادہ ریکارڈ ہوئی، جہاں درجہ حرارت 35 ڈگری سینٹی گریڈ کے قریب تھا۔ایسا ہی ہوا میں نمی کے ساتھ بھی ہوتا ہے، یعنی جتنی زیادہ نمی ہوگی، نئے کیسز کی تعداد اتنی ہی کم ہو جائے گی۔ہوا میں زیادہ نمی کے نتیجے میں حبس بڑھتا ہے اور پسینے کا اخراج زیادہ ہونے لگتا ہے جس سے ہوا میں بخارات کی موجودگی کا امکان کم ہوجاتا ہے، جبکہ وائرس والے ذرات کے لیے ہوا میں زندہ رہنا بھی مشکل ہوتا ہے۔
حسن ِ اتفاق ملاحظہ ہو کہ ہمارے ملک میں پائی جانے والی یہ تین وجوہات کورونا وائرس کے خلاف جنگ ہمیں غیبی معاونت فراہم کررہی ہیں،لیکن اِس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ ہم احتیاط نہ کریں اور لاک ڈاؤن کے دوران سماجی دوری کے بنیادی اُصول کو ہی یکسر نظر انداز کردیں۔اگر ہم ایسا کریں گے تو یقینا اپنی اور اپنے پیاروں کی زندگی کو شدید ترین خطرات میں ڈالیں گے۔لہٰذا دانش مندی کا تقاضا یہ ہی ہے کہ احتیاط کا دامن کسی بھی صورت نہ چھوڑیں تاکہ ہم کورونا وائر س کے وبائی عفریت کو جلد ازجلد شکست دے کر کامیاب و کامران ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔