میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نئی جاگیروں کی دریافت

نئی جاگیروں کی دریافت

ویب ڈیسک
اتوار, ۹ اپریل ۲۰۱۷

شیئر کریں

امریکا کا وجود تو اس وقت بھی موجود تھاجب کولمبس نے اسے دریافت نہیں کیا تھا۔ کولمبس ایک سیاح تھا اور سیاحت اس کا شوق نہیں جنون تھا، ایک ایسا جنون جو اسے مسلسل اپنے گھر اور وطن سے دور رکھتا تھا۔ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے تک تو کولمبس اپنے گھر اوروطن سے جڑا رہا لیکن جب ایک بار اس کے قدم گھر اوروطن سے نکلے تو پھر گھر اور وطن اسے کاٹنے کو ڈورتا تھا۔ جس وقت کولمبس نے امریکا کو دریافت کیا تو اس وقت تک اس کا ایسا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ بس اس کی دہقانی کشتی تھی اور سمندر کی بے رحم موجیں۔ اس نے کشتی کا رخ اس طرف رکھا تھا جس سمت کی منزل کا کسی کو علم نہیںتھا ،کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس جانب کوئی خطہ¿ زمین ہے اور اگر ہے تو وہ انسانوں سے آباد بھی ہے یا صرف جنگلی حیات اس کی مکین ہے۔ اگرچہ کولمبس کا رنگ سرخ وسفید تھا لیکن مسلسل سمندرمیںرہنے اور دھوپ کی تمازت نے اس کا رنگ بھی تانبے کی طرح سرخ کر دیا تھا۔اس وقت تک سفید فام امریکا نہیں پہنچے تھے یوں ریڈانڈین ہی وہاں کے مالک تھے۔یہ خطہ قدرتی وسائل سے مالا مال تھا اور جب کولمبس نے اپنے وطن واپس آ کر اس بستی کا ذکر کیا اوروہاں موجود وسائل اور وہاں کے باشندوں کی بودوباش سے اپنے ہم وطنوں کو آگاہ کیا تو پھر اس جانب جانے والوں کی قطاریں لگ گئیں۔ یہ آنے والے اس وقت کے جدید اسلحہ سے مسلح تھے، یوں معمولی مزاحمت کے بعدریڈانڈینز کو غلام بنانے کا سلسلہ شروع ہوگیا یہ جو آج جب مقامی آبادی پر باہر سے آئے ہوئے غالب آنے لگتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ مقامی آبادی کو ریڈانڈین بنایا جا رہا ہے اس کا مطلب امریکا کے اصل باشندوں کے اقلیت میں بدل جانے کی طرح مقامی آبادی کے اقلیت میں بدل جانے کے خوف کا اظہارہوتاہے۔جس وقت کولمبس نے امریکا دریافت کیا اس وقت جمہوریت نام کی چڑیا کا جنم نہیں ہوا تھا۔ طاقتور حکمران اور کمزور محکوم اور ملازم جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ جمہوریت کی پیدائش نہیں ہوئی تھی اور بادشاہتیں قائم تھیں۔ بادشاہوں کو اپنی بادشاہت قائم رکھنے کے لیے بااثرافراد کی ضرورت ہوتی تھی اب جمہوریت کے وجود میں آنے کے بعد بھی منظر نہیں بدلا ہے صرف منظر نامہ بدل گیا ہے ،بادشاہ اپنی بادشاہت قائم رکھنے کے لیے بااثرافراد کو نوازتے تھے اور نوازنے کا یہ عمل عموماً جاگیریں عطا کر کے پورا کیا جاتا تھا اب بھی یہ عمل ہوتا ہے صرف انداز بدل گیا ہے۔ بادشاہتوں میں جاگیریں عطا کی جاتی تھیں اب افراد کے اثرورسوخ کی نسبت سے سینیٹ ،قومی اور صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ جاری ہوتے ہیں، پھر جو زیادہ بااثر ہوتا ہے وہ علاقہ کا نمائندہ (جاگیردار) بن جاتا ہے۔
جب امریکا دریافت ہوا تو سفید فام آبادی نے اس پر یلغار کردی اور مقامی آبادی کو غلام بنانا شروع کردیا۔ جاگیریں قائم ہوئیں ان جاگیروں نے مل کر ریاستیں قائم کیں اور پھر ریاستوں کے ایک ڈھیلے ڈھالے اتحاد نے امریکہ کی شکل اختیار کر لی اب بھی یہ ریاستیں تقریباً 90 فی صد معاملات میں خودمختار ہیں ۔بات دوسری طرف نکل گئی، دراصل آج جس جاگیر داری کو بے نقاب کرنا ہے وہ جاگیریں بادشاہوں کی عنایتیں نہیں ہیں، امداد باہمی کے اصولوں پر تراشی گئی ہیں لیکن ان کی بنیادوں میں بھی غریبوں، مظلوموں، محکوموں کا خون پسینہ شامل ہے۔ یہ جاگیریں مزدور رہنماو¿ں کی بنائی جاگیریں جہاں یہ رہنما جاگیردار بلکہ اپنی اپنی ریاست کے بے رحم بادشاہ اور محنت کش ان کے غلام ہیں یہ محنت کشوں کے غم میں پھلتے پھولتے ہیں سرمایہ کار ان کے یہ دشمن ہیں کہ جب سرمایہ کاری ہوتی ہے صنعتیں نفع کمانے لگتی ہیں اور محنت کشوں کو ان کا حق ملنے لگتا ہے تو ان کے مفادات پر ضرب پڑتی ہے، ان کی خواہش ہوتی ہے کہ اول تو سرمایہ کاری نہ ہو ،ان کے انداز نے سرمایہ کاری کو گالی بنا دیا ہے ایک سرمایہ کار جب40/50 کروڑ سرمایہ لگا کر لاکھوں میں کماتا ہے تو ان کو برا لگتا ہے کہ اس طرح سرمایہ کی سرمایہ کاری سے سینکٹروں گھرانوں کے چولہے جلتے ہیں ان گھروں میں خوشحالی آتی ہے بدحالی اور بے روزگاری ختم ہوتی ہے اور جب ایسا ہوتا ہے پھر ان کے زندہ باد کے نعرے کون لگائے گا ان کے زندہ وجود کو نعش کی طرح کندھوں پرکون اُٹھائے گا۔
اگر آپ ملک کی مزدوروں فیڈریشنوں کے کرتا دھرتاو¿ں کے ذرائع ظاہرآمدن دیکھیں ان کا کل دیکھیں اور آج دیکھیں تو آنکھیں خیرہ رہ جائیں گی ان کے بنک بیلنس ان کا طرز زندگی، ان کے ظاہر ذرائع آمدن سے بھی مطابقت نہیں رکھتے اب یہ کیوں کر ممکن ہوا؟ تو یہ بات ہی تو سمجھانے کے لیے اتنی طویل تمہید باندھی ہے۔
ان مزدور رہنماو¿ں کی اپنی اپنی ریاستیں ہیں کوئی کان کنی کا بادشاہ ہے تو کسی نے چُوڑیوں کے شعبے کو اپنی ریاست قرار دیا ہے ،کسی کی نظر میں صرف شوگر ملز کا محنت کش ہے تو کوئی ٹیکسٹائیل کے مزدوروں کا سودا گر ہے اس ہی طرح دیگر شعبوں کا حال ہے۔ ہر مزدور لیڈر نے اپنی اپنی ریاست قائم کر رکھی ہے اور غیر تحریری معاہدہ موجود ہے کہ مزدوروں کو بے وقوف بنانے کے لیے تو ظاہر ہے دوسری ریاستوں میں مداخلت کرتے رہو کہ مزدوروں کو اس گٹھ جوڑ کا اندازہ نہ ہو لیکن یہ مداخلت جس پر عملاً نہیں، یوں اپنی اپنی جاگیروں کے مزدوروں کا سودا کرتے رہو اور سرمایہ کاروں کو گالیاں دیتے رہو، سرمایہ کار ظالم ہے رذیل ہے جب بند کمرے میں سرمایہ کار سے ملو تو ہاتھ جوڑ کر ملو اور اس کویہ احساس دلاو¿ کہ ہم نے ان محنت کشوں کوقابو میں رکھا ہوا ہے ،ورنہ یہ تو سرمایہ کار کی چمڑی ادھیڑ کر رکھ دیں اور غریبوں کو قابو میں رکھنے کی فیس وصولتے رہو ان مزدور رہنماوں میں سے اکثر کروڑ پتی ہیں ان کا اصول ہے ۔
وِچوں وِچوں کھائی جا
اُتوں رَولا پائی جا
٭٭….٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں