میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اسرائیلی ٹینک و بلڈوزر غزہ میں داخل ،فلسطینی املاک مسمار

اسرائیلی ٹینک و بلڈوزر غزہ میں داخل ،فلسطینی املاک مسمار

ویب ڈیسک
جمعرات, ۹ مارچ ۲۰۱۷

شیئر کریں

خان یونس کے علاقے فوخاری میں گھس کراسرائیلی اہلکاروں نے توپخانے کی مدد سے زبردستی علاقے کو خالی کرایا
فلسطینیوں کو زبردستی بیدخل کرکے مکانوں اور دیگر تنصیبات کو مسمار کرنا شروع کردیاگیا،اقوا م متحدہ خاموش
کیرول عدل
اسرائیلی فوج اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بوٹوں تلے کچلتی ہوئی بلڈوزر‘فوجی گاڑیاں اور ٹینک لے کر گزشتہ دنوں فلسطین کے علاقے غزہ میں داخل ہوگئی اور اس نے غزہ کے علاقے میں فلسطینیوں کی ذاتی املاک کو منہدم کرکے جگہ ہموار کرنا شروع کردی۔
غزہ سے ملنے والی خبروں اور تصاویر سے پتہ چلتاہے کہ اسرائیلی فوج بکتر بند کیٹر پلر ڈی 9 قسم کے بلڈوزر ،متعدد ٹینکوں اور دیگر فوجی گاڑیوں کے ساتھ گزشتہ روز صبح سویرے خان یونس کے جنوبی صوبے فوخاری شہر کے مشرقی حصے میں داخل ہوئی ۔
ٹی وی رپورٹس اور مقامی ذرائع سے حاصل ہونے والی خبروں کے مطابق غزہ میں داخل ہونے والے اسرائیلی فوج کے دستے کو اسرائیل کے علاقے صوفہ کے فوجی اڈے پر قائم چیک پوسٹ سے بھیجا گیاتھا ، اسرائیل کے اس فوجی دستے میں شامل اہلکار فوخاری شہر کے شمالی علاقے میں فلسطینیوں کے علاقے کو خاردار تار لگا کر علیحدہ کیے جانے والے علاقے میں کئی میٹر اندر تک گھس گئے اور اپنے ساتھ موجود توپخانے کی مدد سے زبردستی علاقے کو خالی کراکے اور اس علاقے کے گھروں میں موجود فلسطینیوں کو زبردستی بیدخل کرکے مکانوں اور دیگر تنصیبات کو مسمار کرنا شروع کردیا۔اس دوران اسرائیلی فوج کا توپ خانہ چوکس رہا اور فلسطینیوں کو کسی طرح کی مزاحمت سے روکنے کے لیے فوجی دستے بندوقیں تانے کھڑے رہے۔
خان یونس اور فوخاری شہر سے ملنے والی خبروں کے مطابق اسرائیلی فوجیوں کی اس کارروائی کے دوران اسرائیلی فضائیہ کے طیارے فضا میںنیچی پروازکرکے چکرلگاتے ہوئے اسرائیلی فوجیوں کی کارروائی کی نگرانی کرتے رہے۔اور اسرائیلی فوجی اہلکار بلڈوزروں کی مدد سے علاقے کی زمین ہموار کرتے رہے۔تاہم اس کارروائی کے دوران فلسطینیوں پر فائرنگ یا تشدد کے کسی واقعہ کی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔
خان یونس کے علاقے میں فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے علاقے کو علیحدہ کرنے والے علاقے میں اسرائیلی فوجیوں کی دخل اندازی کا یہ کوئی منفرد واقعہ نہیں تھا بلکہ علاقے کے لوگوں کاکہناہے کہ اسرائیلی فوجی وقفے وقفے سے فلسطینیوں کے علاقے میں داخل ہوکر توڑ پھوڑ کی کارروائیاں کرتے رہتے ہیں ، ان کی ان کارروائیوں کامقصد علاقے کے فلسطینیوں کو اشتعال دلانا ہوتاہے تاکہ انہیں فلسطینیوں پر ظلم وتشدد کرنے اور بے قصور فلسطینی نوجوانوں کو گرفتار کرکے داخل زنداں کرنے کاموقع مل سکے، اسرائیلی فوجیوں کے اسی حربے کو بھانپتے ہوئے گزشتہ روز کی کارروائی کے دوران اسرائیلی فوج کی ظالمانہ کارروائیوں کانشانہ بننے والے فلسطینیوں نے مزاحمت سے گریز کیا اور خاموشی کے ساتھ اپنے مکانوں کو منہدم ہوتا دیکھتے رہے۔ علاقے کے لوگوں کاکہنا ہے کہ اسرائیلی فوجی برّی راستے کے علاوہ بعض اوقات سمندر ی راستے سے بھی فلسطینیوں کے علاقے میں داخل ہوکر اشتعال انگیز کارروائیاں کرتے رہتے ہےں۔ علاقے کے لوگوں کاکہناہے کہ اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے فلسطینیوںکے علاقے میں داخل ہوکر نہتے فلسطینیوں پر فائرنگ روز مرہ کامعمول بن چکاہے ۔
خان یونس اور اس کے گردونواح کے مکین فلسطینیوں کاکہناہے کہ اسرائیلی حکومت فلسطینیوں پر مظالم ڈھانے کاسلسلہ جاری رکھنے کے لیے فلسطینیوں کے علاقے کی حد بندی کرنے سے گریز کررہی ہے کیونکہ ایک دفعہ حد بندی ہوجانے کے بعد پھر اسرائیلی فوجیوں کو فلسطینیوں کے علاقے میں داخل ہونے میں دشواری کاسامنا کرنا پڑ سکتاہے۔فلسطینیوں کا کہناہے کہ اسرائیلی فوجیوں کی اس طرح کی کارروائیوں کی وجہ سے وسیع علاقے پر فلسطینیوں کی کاشت کردہ فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں اور ان کی ماہی گیری کی سرگرمیوں میں بھی خلل پڑتاہے۔
واضح رہے کہ غزہ کا علاقہ 2007ءسے اسرائیل کے قبضے اور عملاً اسرائیلی فوج کے محاصرے میں ہے، اسرائیل نے علاقے میں فسلطینیوں کی نقل وحرکت کو محدود کرنے کے لیے رکاوٹیں کھڑی کررکھی ہیں جس کی وجہ سے علاقے میں آباد فلسطینیوں کے لیے روزی کمانا مشکل ہوگیاہے جس کی وجہ سے علاقے میں لوگوں کامعیار زندگی بری طرح متاثر ہوگیاہے او ر فلسطینی جو معاشی طورپر پہلے ہی کمزور تھے ،غربت کی آخری حدوں کوچھونے لگے ہیں۔اسرائیل کی جانب سے علاقے کے مسلسل محاصرے اور فلسطینیوں کی نقل وحرکت محدود کردیے جانے کی وجہ سے اس علاقے میں بیروزگاری کی سطح میں روزبروز اضافہ ہورہاہے اور غربت کی شرح اور سطح میں مسلسل بلکہ خطرناک حد تک اضافہ ہوتا جارہاہے۔
اسرائیلی حکومت کی جانب سے فلسطینیوں کے خلاف مسلسل فوج کشی کی یہ صورت حال فسلطینیوں کی نسل کشی کے مترادف اور فلسطینیوں کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے منظور کی جانے والی قراردادوں ہی کانہیں بلکہ ان قراردادوں کی منظوری دینے والے تمام ممالک کامنہ چڑانے اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کے مترادف ہے کہ اقوام متحدہ جیسے اداروں کی قراردادوں کواسرائیل کوئی اہمیت نہیں دیتا اور وہ اس علاقے میں طاقت کے بل پر جو چاہے کرسکتاہے۔
سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے مقبوضہ فلسطین میںاسرائیل کی جانب سے نئی یہودی بستیوں کی تعمیر کے خلاف منظور کی جانے والی حالیہ قرارداد کی اس کھلی خلاف ورزی پر کیا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اسرائیلی حکومت پر کسی طرح کی پابندی عائد کرنے پر غور کرے گی ، غالب امکان اس بات کا ہے کہ اقوام متحدہ کے رکن ممالک نہ صرف ایسا کچھ نہیں کریں گے بلکہ اپنی منظور کردہ قراردادوں کی صریح خلاف ورزی کی مذمت کرنے کی بھی جرا¿ت نہیں کرےں گے، اقوام متحدہ کے ارکان کا یہی وہ رویہ ہے جس نے دنیا بھر میں انصاف اور امن کا پرچم سربلند رکھنے کے نیک عزم کے ساتھ قائم ہونے والے اس ادارے کی وقعت ختم کردی ہے اور اس کی حیثیت بھی لیگ آف نیشنز سے زیادہ نہیں رہ گئی ہے،یہاں یہ سوال بھی پیداہوتاہے کہ دنیا کی بڑی طاقتیں خود اپنے ہاتھوں اس ادارے کوتباہ کرنے کے بعد دنیا میں امن قائم کرنے اورمختلف ممالک کے درمیان رونماہونے والے تنازعات کا تصفیہ کرانے میں کوئی کردار ادا کرسکیں اور کیا اس ادارے کی تباہی کے بعد دنیا میں پھر جس کی لاٹھی اس کی بھینس والے قانون پر عملدرآمد شروع نہیں ہوجائے گا اور کیا یہ صورتحال خود بڑی طاقتوں کے مفاد میںہوگی۔
بڑی طاقتوں خاص طورپر اقوام متحدہ کوکنٹرول کرنے والے ممالک جن میں امریکہ ،برطانیہ ، فرانس اور جرمنی پیش پیش ہیں اس صورتحال پر غور کرکے اسرائیل کو فلسطینیوں پر مظالم کاسلسلہ روکنے پر مجبور کرنے کے لیے کسی عملی کارروائی پر غور کرنا چاہیے کیونکہ اسی میں خود ان کااپنا مفاد بھی وابستہ ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں