بات چیت سے گریز کیوں ؟
شیئر کریں
پاکستان اور افغانستان مشکل وقت سے گزر رہے ہیں دونوں ممالک کو دہشتگردی کا سامنا ہے ۔البتہ امارت اسلامیہ (افغان طالبان ) کی تحریک مزاحمت غیرملکی افواج کی افغانستان میں موجودگی کے خلاف جاری ہے۔حزب اسلامی حکومت سے معاہدہ کر چکی ہے ،یہ ایک اچھی پیشرفت ہے ۔ داعش افغانستان کے چند صوبوں میں وجود رکھتی ہے ،جس سے تحریک طالبان پاکستان اور جماعت الاحرار جیسی تنظیموں کے قریبی تعلقات قائم ہوچکے ہیں گویا ان دو ممالک میں دہشتگرد فعال ہیں اورکسی نہ کسی صورت میں وجود رکھتے ہیں۔ پاکستان نے اب کی بار افغان حکومت کے خلاف سخت اور جارحانہ رد عمل کا اظہار کیا۔ طورخم اور چمن سرحد دو طرفہ تجارت کے لیے بھی بند کردی ۔ حتیٰ کہ سرحد پار اُن افغان علاقوں پر بھی بمباری کردی جہاں وہ عناصر پناہ گاہیں بناچکے ہیں جو پاکستان میں وقفے وقفے سے دہشتگردکارروائیاں کرتے ہیں۔ دہشتگردی کی اسی تازہ لہر کے بعد آپریشن ”رد الفساد“ کا آغاز ہوا۔ اس آپریشن کے تحت سندھ اور پنجاب کے اندر پشتون عوام کے ساتھ روا رکھی جانے والی روش پر خیبر پشتونخوا اور بلوچستان کی حکومتوں نے خفگی و بر ہمی کا مظاہرہ کیا۔ان دو صوبوں کی اسمبلیوں نے بجا طور پرقراردادیں منظور کرلیں۔ جماعت اسلامی ، عوامی نیشنل پارٹی،تحریک انصاف، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی،پیپلز پارٹی اور جمعیت علماءاسلام سمیت کئی سیاسی جماعتوں نے اس اقدام پر اعتراض و کڑی تنقید کی ۔ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف نے بھی اسے امتیازی سلوک قرار دیا۔ یہاں تک کہ پنجاب کے اندر بھی آوازیں بلند ہوئیں۔ میڈیا پر سینئر تجزیہ کاروں ،اوراسی طرح لکھاریوں نے اُنگشت اٹھائی ۔گویا یہ عمل” رد الفساد “کے مقاصدکے منافی ہے ۔الغرض افغانستان کو غیرملکی افواج کے انخلاءکی پالیسی مرتب کرنی چاہیے اور ایک آزاد و خود مختار ملک کی شناخت قائم کرنے کی راہ اپنانی چاہیے تاکہ یہ سرزمین ہمسایہ ممالک خاص کر پاکستان کے مفادات کے خلاف استعمال نہ ہو۔ تب ممکن ہے کہ دونوں ممالک پاکستان اور افغانستان بھی دہشتگردی کی عفریت سے نجات پالےں۔ ایک خود مختار اور آزاد افغانستان دنیا کے کسی بھی ملک سے سیاسی ، تجارتی اور معاشی معاہدے کرے ،باہمی مفادات پر مشتمل تعلقات قائم کرے ، یہ اس ملک کا بین الاقوامی قانونی حق ہے ۔لیکن اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال ہونے نہ دے ۔جس طرح بھارت وہاں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف گھناﺅنا کھیل، کھیل رہا ہے،اس پالیسی سے یقینا دونوں ہمسایہ ممالک کا نقصان ہوگا ،خود افغانستان کا اپنا ریاستی و حکومتی ڈھانچہ کمزور ہوگا۔ بلا شبہ غیر ملکی افواج کے انخلاءکی صورت میں ایک قومی حکومت کے قیام کی راہیں بھی استوار ہوں گی۔ اس صورت میں مسلح جدوجہد کی سوچ کا ختم ہونا یقینی بات ہے ۔ پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک کے تناظر میں تعلقات اور دوستی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوچکا ہے لہٰذا دونوں ممالک کبھی نہیں چاہیں گے کہ کوئی ان کے مفاد پر ضرب لگائے ۔ اگر افغانستان کی سرزمین اس مقصد کے لیے استعمال ہوتی ہے تو چین بہ امر مجبوری امارت اسلامیہ کو مالی و عسکری کمک دینے پر مجبور ہوگا۔ اس صورت میں افغان حکومت کے لیے مزید مشکلات پیدا ہوں گی۔ افغان حکومت کی رِٹ ویسے بھی ملک کے ایک غالب حصے میں قائم نہیں ہے ۔یہ حقیقت پاکستان میں افغانستان کے سفیر ڈاکٹر عمر ذخیل وال کے اس اظہار سے بھی مترشح ہوئی ہے جو انہوں نے پاکستان کی جانب سے افغانستان میں موجود دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کے مطالبے کے جواب میں کیا ۔ سفیر کا جواب میں کہنا تھا کہ افغانستان میں کچھ علاقے اِن کے کنٹرول میں نہیں ہیں اور جو فہرست پاکستان نے دی ہے اس میں شامل چند دہشتگرد افغانستان کے اُن علاقوں میں ہوسکتے ہیں جہاں افغان حکومت کا کنٹرول نہیں ہے۔ ذرا سوچئے کہ کیا ایسی حکومت کو حکمرانی کا حق حاصل ہے جسے اپنے ملک کے علاقوں پر کنٹرول حاصل نہیں ؟ کیا ایسی حکومت کو افغان عوام کی منتخب اور نمائندہ حکومت کہا اور سمجھا جاسکتا ہے ۔چنانچہ افغانستان کو مزید انتشار اور جنگی حالات سے نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ وہاں عوام کی حکومت قائم ہو اور امریکی اور دیگر فورسز کا انخلاءہو ۔ اس طرح پاکستان اور افغانستان نئے جوش جذبے سے دوستی و خیر سگالی کے لیے نئے دور کاآغاز کرےں ۔یہ لمحہ پاکستان کے لئے بھی غور و فکر کا ہے ۔ پاکستان درون خانہ بات چیت بھی نظر اندا ز نہ کرے ۔ میری مراد بلوچستان ہے، جو سی پیک کی شہ رگ ہے ۔ بلوچ مسلح مزاحمت اگر کمزور ہوبھی چکی ہے تو ان شدت پسند رہنماﺅں کے ساتھ گفتگو ہونی چاہیے بلکہ بہر صورت ہونی چاہیے۔ فاٹا کے اندر شدت پسندوں کو سیاسی عمل میں شریک نہ کئے جانے کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ بلوچستان کے اندر تمام تر کامیابیوں کے باوصف حالات اطمینان بخش نہیں ہیں۔ یہ سمجھنا چاہیے کہ جب افغانستان میں بھارت اور امریکا کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی تو بلوچ مزاحمت میں پھر سے شدت آسکتی ہے۔ حکومت نے براہمداغ بگٹی کے ریڈ وارنٹ جاری کئے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ریڈ وارنٹ کی بجائے براہمداغ یا دوسرے بلوچ رہنماﺅں سے بات چیت کا ہر طریقہ استعمال ہونا چاہیے ۔ اور ہر ممکن طریقے سے ان لوگوں کو سیاسی و قومی دھارے میں لانا چاہیے مگر حکومت نے ریڈ وارنٹ جاری کئے اور ایف آئی اے کو گرفتاری کے لیے پیشرفت کی ہدایت کردی کہ وہ بین الاقوامی سطح پر معاملہ اٹھائے یعنی انٹر پول سے رابطہ کیا جائے۔ براہمداغ کے ساتھ شیر محمد کے بھی ریڈ وارنٹ جاری ہوچکے ہیں ۔حکومت یہ خدشہ ظاہر کر چکی ہے کہ براہمداغ بگٹی پھر سے متحرک ہوچکے ہیں اور ا
پنے قبیلے کے لوگوں کو افغانستان بلارہے ہیں تاکہ ان کی وہاں عسکری تربیت ہو۔اُدھرپاکستان سے مذاکرات اوروطن واپسی پر رضا مند خان آف قلات میر سلیمان داﺅد نے پھر لب کشائی کی ۔ برطانوی دارا لعوام میں ایک سیمینار سے خطاب میں پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اس بات کو دہرایا کہ” پاکستان نے بلوچستان پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے لہذابرطانیہ عظمیٰ بلوچستان کی آزادی واگزار کروانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ نیز اُنیسویں صدی میں ریاست قلات اور بین الاقوامی طاقتوں کے درمیان متعدد معاہدوں کا حوالہ دیا اور دستاویزات کی نقول سیمینار کے شرکاءمیں تقسیم کیں کہ ریاست قلات ایک خود مختار ملک تھا اور برطانیہ نے متعدد بار بلوچستان کی آزادی کو تسلیم کیا اور اس کی توثیق کی ۔ 1948ءمیں ان کے دادا خان احمد یار خان سے بندوق کے زور پر الحاق کے دستاویزات پر دستخط کروائے گئے ۔ اور کہا کہ ان کا صوبہ پنجاب کے استعماری قبضہ میں ہے اور بلوچ سی پیک کو چائنا پنجاب اکنامک کاریڈور سمجھتے ہیں“۔ دومارچ کو بلوچ گوریلا رہنماءڈاکٹر اللہ نذر کا ایک بیان چھپا کہ چین نے گوادر میں کیمپ بنانے کی خاطر تین ہزار ایکڑ زمین حاصل کرلی ہے اور چین کا ”سب میرین“ پہلے سے بحر بلوچ میں موجود ہے اور یہ ہندوستان کے لیے باعث خطرہ ہے ۔“ گویا بلوچ شدت پسند رہنماءبطورخاص امریکا اور بھارت کو اپنا اعتماد دلانے کی کوشش کرتے ہیں اور ان ممالک کو ترغیب دیتے ہیں کہ چین وپاکستان ان کے مفادات پر بھی چوٹ لگانے کی کو شش کر رہے ہیں۔یہ امر واضح ہے کہ موجودہ تناﺅ وکشیدگی کے ماحول میں بھارت اور افغانستان بلوچ شدت پسندوں کو” پراکسی“ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ چناں چہ فوری طور پربلوچ عسکریت پسند رہنماو¿ں کو قومی دھارے میں لانے کی ضرورت و اہمیت کا ادراک ہو نا چاہیے ۔ اس تناظر میںبات چیت سے گریز سمجھ سے بالاتر ہے ۔
٭٭