میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
انجام کا آغاز

انجام کا آغاز

ویب ڈیسک
جمعه, ۹ فروری ۲۰۲۴

شیئر کریں

نوازشریف انجام کا آغاز دیکھ رہے ہیں، مگر ہمیشہ کی طرح اسے سمجھنے میں ناکام ہیں۔ ایچ جی ویلز یاد آتے ہیں۔ پچاس ناولوں کا مصنف بسترِ مرگ پرتھا ۔ندگی کے آثار معدوم ہوتے جارہے تھے، مقربین ’’آخری کلمات ‘‘خواہش مند تھے جو یادگار بن سکیں۔ رشتے دار ، مقربین اور دوست مسلسل تنگ کیے جار ہے تھے وہ کچھ بولیں۔ نامور مصنف نے تب انتہائی تلخ لہجے میں کہا: آپ دیکھ نہیں رہے میںمرنے میں مصروف ہوں‘‘۔ نوازشریف سیاست کے بسترِمرگ پر مگر یہ سمجھنے میں ناکام ہیں۔ابھی بھی گورکنوں کی نفسیات میں وہ اور نورتن سوچ رہے ہیں کہ کوئی مریں تو وہ جی سکیں۔ بقول شاعر
گورکن کے بال بچے بھوک سے بیتاب ہیں
کوئی مر جائے تو یہ جی جائیں اے پروردگار
انتخابات سے قبل سفاکانہ دھاندلی کے سلسلہ وار عمل کی سہولت انتخابات کے بعد بھی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ نتائج میںتاخیر کا سلسلہ دراز ہے۔ پاکستان کی سیاسی لغت میں کوئی ایسی خاص پیچیدگی نہیں، سب ہی جانتے ہیںکہ تاخیر کا دوسرا مطلب نتائج میں ہیر پھیر ہوتا ہے۔ تحریکِ انصاف دھاندلیوں کے پے درپے واقعات اور سفاکانہ گھیراؤکے باوجود انتخابی عمل میں اپنے وجود کو منوانے میں کامیاب رہی ۔ تنہا الیکشن کمیشن کے جانب دارانہ ، متعصبانہ اور سنگ دلانہ رویے کا تحریک انصاف کو سامنا نہیں تھا۔ عدلیہ ، انتظامیہ اور ذرائع ابلاغ کی مثلث کے علاوہ پاکستان کا پورا سیاسی کاٹھ کباڑ اور انگڑ کھنگڑ بھی اُس کے خلاف صف آرا تھا۔ اس پورے کھیل میں پاکستان کی مقتدر قوتیں بالادست طریقے سے مسلسل سرپرستی دکھا رہی تھیں۔ یہ سب کچھ غیر معمولی طور پر احترام کی قیمت پر ہورہا تھا۔ 18 سے 35 سال کے پونے چھ کروڑ رائے دہندگان کے بارے میں یہ غلط گمان پالا گیا کہ وہ پروپیگنڈے ، جبر اور خوف کے ماحول میں چپ سادھے اور نچلے بیٹھے رہیںگے۔ سب کچھ پہلے دن سے ہی غلط تھا۔ عمران خان مقبول ہی نہیں محبوب رہنما بھی تھے۔ اُن کے مدمقابل جسے سہارا دیا جارہا تھا۔ وہ ایک بجھتے دیے سے بھی کمزور اور لرزتا لڑکھڑاتا وجود تھا۔ جو نوجوان نسل کے لیے قابل نفرت سطح تک پہنچ گیا تھا۔ یہ ایک محبت کی مرکزی شخصیت کے خلاف ایک قابل نفرت شخصیت کو قابل قبول بنانے کی دُہری مشقت تھی۔اُصولی طور پر ایک مقبول و محبوب شخص کو سیاسی متن سے حاشیے میں دھکیلنا مقصود تھا تو کسی ایسی شخصیت کو تلاش کیا جاتا جو اُن سے زیادہ نہیں تو اُن کے برابر یا کچھ کم ہی سہی محبوب و مقبول ہوتی۔ مگر طاقت ور حلقوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ دماغ کا کام ہاتھوں سے لیتے ہیں ، زبانیں نہیں،کان پسند کرتے ہیں۔ انہیں سمجھانے والی زبانیں ، عقل رکھنے والے دماغ اور حکمت ساز ذہن سے ایک فطری عدوات ہوتی ہے۔معاشرہ تابعداری کے نظم وضبط پر مبنی ادارے کی مانند حرکت نہیں کرتا۔ سماج کی حرکت کا اُصول کشمکش ہے تابعداری نہیں۔افسوس اس بنیادی سبق کو بھی سمجھنے والا کوئی دماغ اس پورے کھیل میں موجود نہیں تھا۔ اب بھی نہیں۔ چنانچہ تحریک انصاف کی برتری کو کم سے کم نشستوں پر محدود کرنے کی ایک اٹھا پٹخ جاری ہے۔
تحریک انصاف واضح طور پر155 نشستوں پر برتری رکھتی ہے۔ 8؍ فروری کے انتخابات کے بعد رات بارہ بجے تک یہ پوری طرح واضح ہو گیا تھا کہ وہ جماعت جس کے قائدعمران خان کو انتخابات سے قبل پانچ روز میں تین مختلف سزائیں دے کر ماضی بنانے کی کوشش کی گئی، وہ حکمت عملی موثر ثابت نہیں ہوسکی۔ عمران خان کی تضحیک کے لیے مذہب کا سیاسی استعمال کرتے ہوئے اُنہیںعدت میں نکاح کی ایسی سزا سنائی گئی جو خود اپنی مدتِ عدت پوری نہ کرسکے گی۔ افسوس اس کے لیے ایک ’’مولوی‘‘ نے کندھا فراہم کیا۔ جس ادنیٰ شخص نے اس میں گواہی دی اور جسے انعام کے طور پر لاہور میں نشست نکال کر دی گئی وہ عون چودھری ابھی جرائم میںشراکت دار ٹی وی چینل پر قے کر رہا تھا کہ’’ اب ہمیں الزامات کی سیاست سے نکلنا چاہئے‘‘۔مجہول پسِ منظر اور سیاسی طور پر بے نسب شخص کو اب سمجھ آئی کہ الزامات سے ’’اب‘‘ نکلنا چاہئے۔بدقسمتی سے اب بھی نشستوں کے نتائج میں ہیر پھیر کاسلسلہ جاری ہے۔ اور تحریک انصاف کی155 نشستوں پر برتری کو محدود سے محدود ترکرنے کی سازشیں مسلسل جا ری ہیں۔
قانون قدرت کی اپنی ہی ایک آواز ہوتی ہے، مگر سنتا کون ہے؟ عمران خان جنہیں سلیکٹڈ کہا گیا، جنہیں 2018 کے انتخابی نتائج پر آر ٹی ایس سسٹم کے بٹھانے کی طعنہ زنی کے ساتھ اپنے سیاسی وجود او رمقبولیت کی حقیقت باور کرانے کی بار بار زحمت اٹھانا پڑی۔ اُسے جب انتخابات میں فتح ملی تو ہر وہ قوت جس کی حمایت کا کوئی معمولی اشتباہ بھی ہو سکتا تھا، اُن کی مخالف صف میں کھڑی نظر آئی۔ عدلیہ کے لاڈلے کا الزام سہنے والے کو اعلیٰ عدالت سے انتخابی نشان سے ہی محروم نہ کیا گیا بلکہ اپنی پارٹی کی بقا کے مسئلے سے بھی دوچار کردیا گیا۔ مقدمات کی جائز اپیلیں واجب اوقات میں سنی نہ گئیں، جائز ضمانتیں ٹالی جاتی رہیں۔ اُسے ایک ایسا انتخاب دیا گیا جس میں وہ خود انتخابات میں شریک نہ ہو سکے۔ اُسے انتخابی مہم تک چلانے سے دور رکھنے کے لیے جیل میں ہی نہیں ذرائع ابلاغ کی رسائی سے بھی دور رکھا گیا تاکہ اُس کے کنجِ لب سے پھوٹنے والاکوئی جملہ ،فقرہ جناب نواز شریف اور اُن کی صاحب زادی کی منتقم مزاج جبینوں پر باعثِ شکن نہ ہو۔اُس کی مدد کا ہر راستہ روک دیا گیا۔ اُس کی جیت کا امکان پیدا کرنے والے ہر ہر محرک کو نوچ نوچ کر نظروں سے دور پھینک دیا گیا۔ ذرائع ابلاغ میں اس کا نام لینا جرم بنا دیا گیا۔ اس دوران اُس کے خلاف ایسی زبانیں حرکت میں آئیں کہ’’ اُس بازار‘‘ کی مخلوق کو بھی اس پر حیا آتی ہوگی۔کالم نگار اچانک گالم نگار بن گئے۔ الفاظ بے حیا اور دلائل دلالی سے دلالت پانے لگے۔ 8؍فروری کے یوم انتخاب آنے تک عمران خان کے خلاف دھند کی ایسی فضا بنا دی گئی کہ صرف اس کا ہی نہیں من مرضی کے خلاف اس کے موافق کوئی دوسرا چہرہ بھی دکھائی نہ دے۔مگر عوامی شعور نے ایسا فیصلہ صادر کیا کہ ہر زبان گنگ ہو گئی ہے۔ رات کے ابھی بارہ نہ بجے تھے کہ پاکستان کی پوری ریاستی مشنری کو اپنی خدمت میںلگا لینے والے نوازشریف اپنے انتخابی کیمپ سے جاتی امراء چلے گئے۔ دفتر کی قمقمے ہی نہیں دماغ کی روشنیاں بھی بجھ گئیں۔ دلوں میں تو پہلے ہی خاک اڑتی تھی۔اب بھی مگر اب بھی ، یہ قوتیں کھیل سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں۔ انتخابی نتائج میں تبدیلی کا کھیل جاری ہے۔ سمدھی اسحق ڈار نے ویران آنکھوں اور پھیکے الفاظ میں کہا ہے کہ اگلے 72 گھنٹوں میں آزاد امیدوارنون کی حمایت کا اعلان کریں گے۔ یہ کھلی منڈی لگنے کا ایک باقاعدہ اعلان ہے، جس کی چاپ آصف علی زرداری پہلے ہی سن کر اسلام آباد پہنچ گئے ہیں۔ ہیر پھیر اور بھاؤ تاؤ کے درمیان جمہوریت کی دوشیزہ اپنی حیا بچانے میںمصروف ہے۔ ابھی چوبیس گھنٹے مزید گزرنے دیں ، آزاد امیدواروں کی شکست کے مزید سامان کے ساتھ بچ رہنے والوں کی خریدو فروخت کے مزید تماشے سامنے آجانے دیں۔ نوازشریف سیاست کے بسترِ مرگ پر کیا کلمات ادا کرتے ہیں، سامنے آجانے دیں، اسحق ڈار سمیت تمام مقربین کوشاں ہیں کہ وہ الفاظ آخری ادا نہ کریں کہ ابھی یہاں گورکنوںکی نفسیات سے زندگی کرنے کے آثار موجود ہیں۔
٭٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں